چنڈی گڑھ ہائی کورٹ کافیصلہ اورمسلم پرسنل لاء

محمدشارب ضیاء رحمانی
یونیفارم سول کوڈکی کوششوں کے درمیان چنڈی گڑھ ہائی کورٹ نے اہم فیصلہ سنایاہے جس کابراہِ راست مثبت اثرمسلم پرسنل لاء پرپڑناچاہیے۔ہائی کورٹ نے کہاہے کہ 18سال سے کم عمرکی بالغ لڑکی شادی کرسکتی ہے۔ہائی کورٹ نے پرسنل لاء یعنی آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کوتسلیم کیاہے ۔معززعدالت نے مسلم پرسنل لاء کاحوالہ دیتے ہوئے شرعی اصولوں کوبنیادبناکرفیصلہ سنایاہے۔بیشترذرائع ابلاغ میں یہ خبردبادی گئی،لیکن ’نوبھارت ٹائمز‘اور’داانڈین ایکسپریس‘ نے 11فروری 2021کواسے شائع کیاہے۔ذیل کی چندتمہیدی سطریں، مسئلے کی اہمیت اورنوعیت کوسمجھنے میں معاون ہوں گی۔
ملک میں دوطرح کے قوانین نافذہیں۔سول کوڈاورکریمنل کوڈ۔کریمنل کوڈپہلے سے ہی تمام شہریوں کے لیے یکساں ہیں۔سول کوڈکاتعلق معاشرتی،تہذیبی اورمعاملاتی امورسے ہے۔سول کوڈکے ایک حصے میںتمام اقلیتوں کوچندمذہبی قوانین پرعمل کااختیارہے۔یعنی گھریلوزندگی سے متعلق کچھ قوانین ہیں جنھیں پرسنل لاء کہاجاتاہے۔آئین نے ہرشہری کواس پرچلنے کی آزادی دی ہے۔اگران مسائل سے متعلق کیسزسرکاری عدالتوں میں جائیں اوردونوں فریق مسلمان ہوں توعدالتیں،اسلامی شریعت کے مطابق فیصلے کریں گی۔آئین میں اقلیتوں کے عائلی قوانین تسلیم کیے گئے ہیں۔وراثت،ہبہ،نکاح،طلاق،رضاعت جیسے معاملات میں فیصلے شرعی قوانین کے تحت ہوں گے۔لیکن خاص ذہنیت کے لوگوں کویہ چیزکھٹکتی رہی ہے۔اس لیے وقتاََفوقتاََاس آزادی یعنی پرسنل لاء پرچلنے کے قانونی حق کونشانہ بنایاجاتارہاہے۔اس کے خلاف ماحول سازی تو1972سے شروع ہوچکی ہے جب یونیفارم سول کوڈکاشوشہ چھوڑاگیا۔یونیفارم سول کوڈکامطلب ہی یہی ہے کہ اقلیتوں کوان کے مذہبی امورمیں دی گئی آزادی چھین لی جائے اورایک قانون کے نام پرپرسنل لاسے محروم کردیاجائے۔بسااوقات عنوان بہت اچھارکھاجاتاہے مگرمقاصدکچھ اورہوتے ہیں۔’ایک دیش ،ایک ٹیکس‘ کے نام پرجی ایس ٹی لائی گئی،لیکن اس کی مارہرشہری پرکس طرح پڑرہی ہے،عوام اچھی طرح واقف ہیں،اسی طرح ’ایک دیش ،ایک قانون‘کے زیرعنوان مذہبی آزادی بنیادی نشانہ ہے۔ پہلے ’لے پالک ‘کوجائیدادمیں حصے دینے پرقانون سازی کی کوششیں ہوئیں جوبل ،’متبنیٰ بل‘ کے نام سے مشہورہوا۔پھرداداکی وراثت میں پوتے کے حق کادردجاگ اٹھا۔مطلقہ کوتاحیات یادوسری شادی تک نفقہ پہلے شوہرکے ذمے کیاگیا۔مسلمانوں نے اس خدشہ کومحسوس کیاکہ یہ درحقیقت مسلم پرسنل لاء میں مداخلت ہے۔چنانچہ بڑی تحریک کے نتیجے میں پارلیمنٹ نے 5مئی 1976کوسپریم کورٹ کافیصلہ ردکیا۔بی جے پی کے اقتدارمیں آنے کے بعدپھریونیفارم سول کوڈکاجِن بوتل سے باہرنکلاہے جواس کے منشورمیں شامل ہے۔اس کے تحت پہلے تین طلاق پرایساماحول بنایاگیاگویاکہ ہرمسلم خاتون اس پرپابندی کی بات کرتی ہو(گرچہ 10فروری2021کووزیراعظم نے پارلیمنٹ میں اشارۃََکہاہے کہ تین طلاق پرقانون سازی بغیرمطالبے کے کی گئی ہے۔اس بحث کے کئی دل چسپ پہلوہیں)اورپھراس بہانے وہ قانون بنادیاگیاجوآئین، عدالت اورعقل کے خلاف بھی ہے(کیوں کہ حکومت تین طلاق کوایک بھی نہیں مانتی گویاکہ طلاق ہوئی ہی نہیں،یعنی غیرموثرمانتی ہے،لیکن اس پرسزاکاالتزام کرتی ہے،سوال یہی ہے کہ جب جرم واقع ہواہی نہیں توسزا کس بات کی؟اسی طرح سول معاملے پرکریمنل ایکٹ لاگوکرناکتناآئینی ہے؟یہ بحث سپریم کورٹ میں ہونی ہے)اب سپریم کورٹ میں نفقہ مطلقہ،تعددازدواج(ایک سے زائدنکاح)،وراثت میںلے پالک کاحصہ جیسے پرسنل لاء سے متعلق امورزیرسماعت ہیں۔سمجھاجاسکتاہے کہ تین طلاق کی طرح یہ سارے امورنشانے پرہیں اور’تدریجی طورپر‘پرسنل لاء کوختم کرکے یونیفارم سول کوڈکی راہ آسان کردینے کی کوشش کی جارہی ہے۔کیوں کہ ہنگامی طورپربیک د فعہ اگر بل لایاگیاتوآدی واسی،درج فہرست قبائل ،دلت ،عیسائی،لنگائیت،بودھ سبھی کے روایتی اورمذہبی تشخصات متاثرہوں گے۔اوران کی طر ف سے بڑی مخالفت جھیلنی پڑسکتی ہے۔
ان تفصیلات کے بعدیہ سمجھناآسان ہوجاتاہے کہ اصل نشانہ کیاہے۔ایسے میں چنڈی گڑھ ہائی کورٹ نے آئین میں دی گئی عائلی امور سے متعلق مذہبی آزادی کوتسلیم کرتے ہوئے مسلم پرسنل لاء کوکوڈکرکے فیصلہ سنایاہے۔عدالت نے کہاہے کہ مسلم لڑکی 18سال سے کم عمرکی ہونے کے باوجودکسی بھی پسندکے لڑکے سے شادی کرسکتی ہے بس شرط یہ ہے کہ وہ جسمانی طورپربالغ ہو،گویاکہ 15/16برس سے زیادہ عمرکی مسلم لڑکی دفعہ 195کے تحت، مسلم پرسنل لاء کی روسے اپنی پسندسے شادی کے لیے آزادہے اوراس کے خاندان والے مداخلت نہیں کرسکتے۔(جب کہ شادی کی عمرملکی قانون میں18سال ہے جسے مزیدبڑھانے پرغورکیاجارہاہے)یہ فیصلہ جسٹس الکاسرین نے ایک مسلم جوڑے کی عرضی پرسنایاہے ۔معززجج نے اس ضمن میں ’پرنسپل آف محمڈن لاء ‘‘کاحوالہ دیاہے ۔لڑکی کی عمر17سال ہے،گھروالوں کی دلیل یہ ہے کہ لڑکی قانونی اعتبارسے نابالغ ہے،اس لیے یہ نکاح جائزنہیں ہوا،لیکن جوڑے نے مسلم پرسنل لاء کے تحت 15سال کی عمرمیں شادی کی اجازت کی بات کہی جسے عدالت نے تسلیم کرکے واضح حکم دیاہے۔
ہم یہاں یہ بحث نہیں کررہے ہیں کہ کم عمری کی شادی ،جسمانی اورروایتی لحاظ سے کیسی ہے؟گرچہ طلاق اور تعددازدواج کی طرح کم عمری کی شادی کی شرح مسلمانوں میں بہت کم ہے۔ویسے بھی مسلم پرسنل لاء بورڈ،کم عمری کی شادی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتااورنہ ایساکوئی عمومی رواج مسلمانو ں کے درمیان ہے،لیکن بات صرف مذہبی اورعائلی آزادی میں مداخلت کے حوالے سے کی جارہی ہے کہ کسی کے کھانے،پینے،رہنے سہنے،شادی،طلاق،وراثت،عبادت میں دراندازی کتنی درست ہے؟ہائی کورٹ کے فیصلے کے دوررس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔مستقبل میں جب پرسنل لاء کی کسی شق پربحث ہوگی تویہ عدالتی تبصرہ وحکم مفیدہوسکتاہے۔کیوں کہ جب ایک مسئلہ میں عدالت نے شرعی حکم کوتسلیم کرتے ہوئے بلوغت کے ملکی قانون سے اس کااستثناء کیاہے اوراس شادی کودرست ماناہے توظاہرہے کہ ایک سے زائدنکاح،طلاق،وراثت،نفقہ مطلقہ جیسے گھریلوامورمیں بھی اس مذہبی آزادی کوتسلیم کرناچاہیے جس کاآئینی حق موجودہے۔انسداد’مبینہ لوجہاد‘قانون کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ اوردیگرہائی کورٹوں میں بحث جاری ہے۔الہ آبادہائی کورٹ کے رجحان کودیکھتے ہوئے یوپی حکومت نے سپریم کورٹ میں پناہ لینی چاہی اورمطالبہ کیاکہ الہ آبادہائی کورٹ کی کارروائی روک دی جائے لیکن سپریم کورٹ نے جوتبصرہ کیاہے،اس کوغورسے سمجھناچاہیے۔عدالت عالیہ نے عرضی مستردکرتے ہوئے کہاہے کہ سپریم کورٹ کوہائی کورٹوں کے فیصلے کا’فائدہ اٹھانا‘چاہیے۔گرچہ اس کے ساتھ اوربھی تبصرے ہیں،لیکن بہرحال زیربحث مسئلے میں بھی چنڈی گڑھ ہائی کورٹ کے فیصلے کاحوالہ دیتے ہوئے عدالت عالیہ میں ’فائدہ اٹھایا‘جاسکتاہے۔چنڈی گڑھ ہائی کورٹ کے تاریخی فیصلے کے مثبت اثرات ہوسکتے ہیں۔آج کے ماحول اوریونیفارم سول کوڈکی تدریجاََ کوششوں کے درمیان عدالتی حکم کی اہمیت دوچندہوجاتی ہے ۔اس کی روشنی میں بھی مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کی راہ تلاش کی جاسکتی ہے۔

 

Comments are closed.