یوم محبت: دن گنے جاتے تھے اس دن کے لئے

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

وہ تاریخ آچکی ہے، جس کاانتظار وہ لوگ مہینوں سے کررہے ہیں، جن کے دلوں میں ہوس کابچاری صبح وشام گھنٹیاں بجاتاہے، جن کی آنکھوں کی چمک اس تاریخ کو سوچ کربڑھ جاتی ہے، جس کے تصورسے ایک لمبی سی مسکان ان کے ہونٹوں پرکھیلنے لگتی ہے، جس کے خیال سے ان کے چہرے گلاب ہوجاتے ہیں، جس کی تیاری اس طرح کی جاتی ہے، جیسے عیدکی کی جاتی ہے، اس کے لئے ہفتوں پہلے سے بازاروں کے چکر لگائے جاتے ہیں؛ تاکہ عمدہ سے عمدہ ایسے کارڈز خرید ے جاسکیں، جوظاہری اعتبارسے اتنے حسین ہوں کہ حسن کی پری بھی اسے دیکھ کربے ساختہ ’’ہاں‘‘ میں سرہلادے، یہ تاریخ 14؍ فروی کی تاریخ ہے، جسے یوم محبت(Valentine’s Day ) اورمحبت کرنے والوں کا تہوار (Lover’s Festival)کے طورپرمنایا جاتا ہے۔

محبت کوئی ایسی چیز نہیں ہے، جس کے ساتھ دشمنی کی جائے، اس سے دشمنی کوئی کٹھوردل ہی کر سکتا ہے، پوری دنیامیں لوگ یہی توچاہتے ہیں کہ لوگ محبت کے ساتھ رہیں، اس کے لئے کانفرنسیں کی جاتی ہیں، اس کے لئے جلسے جلوس منعقد کئے جاتے ہیں، پھراس کا دشمن کوئی کیسے ہوسکتاہے؟ ہاں اتنی بات ضرورہے کہ ہرکوئی اس کے لئے دائرہ کی تحدید کرناچاہتاہے، حدود میں رہ کراگرمحبت کی جائے تولوگ اسے سراہتے ہیں، اس کی قدردانی کرتے ہیں، ماں سے محبت کی جائے، باپ سے محبت کی جائے، بہن سے محبت کی جائے، دیگررشتہ داروں سے محبت کی جائے، بیوی سے محبت کی جائے ، اولاد سے محبت کی جائے، ہرکوئی اسے قدرکی نگاہ سے دیکھے گا، کوئی اس کومنع نہیں کرے گا، ایسی محبتوں کے لئے کوئی پابندی نہیں لگائی جاتی؛ بل کہ اس کے لئے تودعائیں کی اورکرائی جاتی ہیں۔

ان محبتوں کے لئے دن کی تعیین کی ضرورت نہیں، نہ کوئی دن کی قیدکوایسی محبتوں کے لئے پسندکرے گا، دنیا کے کسی مذہب اورقانون میں یہ نہیں ہے کہ مذکورہ لوگوں سے محبت کے لئے ہفتہ ، مہینہ یاسال میں کسی ایک دن کی تعیین کی جائے؛ بل کہ ایسی محبتیں بے قید ہوتی ہیں اوربے قید ہونی بھی چاہئیں، اگران محبتوں کوقید کردیاجائے توپھرانسان اورحیوان میں کیافرق باقی رہ جائے گا؟ ان کے لئے سال میں پیارومحبت کاموسم آتاہے، اسی موسم میں وہ ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں، وہ بھی سب حیوان نہیں؛ بل کہ صرف نراورمادہ، باقی جانوروں کے اندروہ پیاربھی نہیں ہوتا، توکیا انسانوں کو بھی حیوان بن جاناچاہئے اورڈارون کے نظریہ کومعکوسی طریقہ پرثابت کیاجاناچاہئے اورپیارومحبت کے لئے سال میں ایک دن کی تعیین کرلینی چاہئے؟ یا ایسی محبتوں کووقت اوردن کی تعیین سے آزادرکھاجاناچاہئے؟

محبت کے دن کی تعیین کاتصورمغرب سے آیاہے اورہم رہے مغرب کے نرے مقلد، وہاں کی ہرچیز کو اپنانا اپنے لئے باعث فخرسمجھتے ہیں، اب اسی یوم محبت کولیجئے! جس طرح آج اس کاتصورنئی نسل میں ہے، ویسا تصوراس سے پہلے نہیں رہاہے، اگرہم اپنے باپ دادوں کواس تعلق سے سوال کریں تووہ لاعلمی کااظہارکریں گے، اس کا تصور اس وقت سے زیادہ ہوگیاہے، جب سے کیبل اور انٹرنیٹ نے ہرگھرمیں اپنا قدم جمایاہے؛ کیوں کہ مغرب کے شاطرلوگ مشرق کے لوگوں کواپنے یہاں کی ہربرائی کوپہلی فرصت میں پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے برخلاف اپنے یہاں کی اچھائیوں کے قریب بھی لوگوں کوبھٹکنے نہیں دیتے، ہم جنس پرستی اورلیوان ریلیشن شپ کوتوپہنچادیا اورمشرق میں بھی اس کے ہم نوا پیدا ہوگئے ؛ بل کہ کورٹ اورکچہریوں میں ان کے تعلقات کوسند جواز بخش دیاگیا؛ لیکن محنت ولگن اورایمانداری جیسی چیزوں کوفروغ نہیں دیا گیا کہ اس کے ذریعہ سے ملک میں ترقی ہوجائے گی۔

جن برائیوں کومغرب نے مشرق میں فروغ دیاہے، ان میں سے ایک’’ یوم عاشقاں‘‘(Valentine’s Day) بھی ہے، خصوصیت کے ساتھ مشرق کی نئی پود نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیاہے؛ حالاں کہ اس کی حقیقت سے بھی وہ لوگ واقف نہیں؛ لیکن چوں کہ یہ نفس اورخواہش کے مطابق چیز ہے؛ اس لئے اس کواس طرح لپک لیاگیاہے، جیسے باز اپنے شکار پر لپکتاہے، تاریخ کی مناسبت سے بہترمعلوم ہورہاہے کہ اس کی حقیقت پربھی روشنی ڈالی جائے۔

اس کی حقیقت کی تعلق سے کئی باتیں کہی جاتی ہیں: ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ جس وقت روم میں بت پرستوں کی حکومت تھی، ویلینٹائن نامی شخص نے بت پرستی کو چھوڑکرنصرانیت اختیارکرلیاتھا، جس کے نتیجہ میں اس وقت کی حکومت نے اسے جیل میں قیدکردیاتھا، اس پادری کوجیلرکی بیٹی سے محبت ہوگئی تھی اوروہ اسے خط لکھاکرتاتھا، جس کی پاداش میں اسے پھانسی دی گئی، پھرجب روم میں نصرانی حکومت قائم ہوئی توویلینٹائن کویادرکھنے کے لئے اس دن کو’’یادگاردن‘‘ قراردیاگیا۔

دوسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ رومیوں کے عقیدے کے مطابق ان کے معبودوں کی ملکہ(یونو) کی وجہ سے 14؍فروری ان کے یہاں مقدس ماناجاتاہے، اسی کی مناسبت سے ان لوگوں نے اس دن کوشای بیاہ اورپیارومحبت کے لئے جشن کادن قراردیا۔

تیسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ رومیوں کے یہاں لیسیوس نام کا ایک معبودپایا جاتاہے، جودراصل ایک بھیڑیاہے، یہ معبوداس لئے ماناجاتاہے کہ شہرروم کے بانی رومیولوس اورریموس کواس نے بچپن میں دودھ پلاکران کی جان بچائی تھی، اسی مناسبت سے وہ لوگ 15؍ فروری کوجشن کادن مناتے تھے، جواب بدل کر14؍ فروری ہوگیاہے۔

چوتھی بات یہ کہی جاتی ہے کہ روم کے بادشاہ کلاڈیوس کوفوج میں جانے کے لئے لوگ نہیں ملنے لگے ، جس کی وجہ لوگوں کی شادی شدہ زندگی معلوم ہوئی تواس نے شادی بیاہ پرپابندی لگادی، اس حکم کی خلاف ورزی ویلینٹائن نامی پادری نے کی اورگرجاگھرمیں چھپ چھپاکرلوگوں کی شادی کرنے لگا، جس کی اطلاع بادشاہ کوہوگئی، بادشاہ نے اس پادری کو14؍فروری 269ء کوقتل کروادیا، اسی کی یادکے طورپراس کے ماننے والوں آج کے دن کوبطورجشن کے منایا، جوآج اس شکل میں منایاجاتاہے۔

پانچویں بات یہ کہی جاتی ہے کہ سترہویں صدی عیسوی میں روم کے ایک پادری ویلینٹائن کوایک نن سے محبت ہوگئی ، چوں کہ ان کے مابین مذہبی پابندی کی وجہ سے شادی نہیں ہوسکتی تھی؛ اس لئے ویلینٹائن نے اس نن سے کہا کہ اسے خواب میں بشارت دی گئی ہے کہ اگرراہب اورراہبہ 14؍فروری کوجسمانی تعلق قائم کرلیں توکوئی گناہ نہیں ہوگا، راہبہ اس کے جھانسے میں آگئی اورگرجاکے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دونوں نے جسمانی تعلق استوارکرلیا، افشائے راز کے بعد دونوں کوقتل کردیا گیا، بعد میں لوگوں نے انھیں ’’شہید محبت‘‘ قراردے کراس دن کوان کی یادوں کاجشن مناناشروع کردیا۔

انسائیکلوپیڈیاآف بریٹانیکامیں اس کاجوپس منظر یہ بتایاگیاہے ، اس سے مذکورہ واقعات کی تردید ہوتی ہے؛ چنانچہ اس میں لکھاہواہے کہ ’’اس کاتعلق یاتورومیوں کے دیوتا لوپرکالیاکے حوالہ سے 14؍فروری کومنائے جانے والے تہواربارآوری یاپرندوں کے موسم اختلاط (Mating Season) سے ہے۔

انسائیکلوپیڈیاآف کیتھولک ازم کے بیان سے بھی ان واقعات کی تردیدہوتی ہے اورمعلوم یہ ہوتاہے کہ ان واقعات کوان لوگوں نے گڑھا ہے، جوحقیقت میں ان جیسی چیزوں کونئی نسل میں فروغ دیناچاہتے ہیں اورجن کے دلوں میں ہوس کاعفریت چھپا ہواہے، اس میں لکھا ہے کہ ’’ویلینٹائن نام کے دومسیحی بزرگ کاذکرملتاہے، ان میں سے ایک متعلق یہ بیان کیاجاتاہے کہ وہ روم کاپادری تھا، جسے رومی دیوتاؤں کی پوجاسے انکارکرنے پر269ء میں بادشاہ کلاڈیئس دوم(Cladius-II)کے حکم پرموت کی سزادی گئی، دوسراطرنی(Terni)کاایک پادری تھا، جس کو لوگوں کوشفابخشنے کی روحانی طاقت حاصل تھی، اسے بھی کئی سال پہلے شہید کردیاگیاتھا، ابھی تک تویہی سوال قائم ہے کہ ویلینٹائن نام کے دوافرادتھے یاایک ؛ البتہ یہ ایک طے شدہ بات ہے ان دونوں کامحبت کرنے والے جوڑوں سے کوئی تعلق نہیں ہے، محبت کے پیغامات یاتحائف بھیجنے کارواج بعد میں غالباً ازمنۂ وسطی میں اس خیال کے تحت شروع ہواکہ 14؍ فروری پرندوں کی جنسی مواصلت کادن ہے، مسیحی کلینڈر میں یہ دن کسی بزرگ کی یاد میں تہوارکے طورپرنہیں منایاجاتا‘‘ (The Harber Collins Encyclopedia of Catholicism: p: 1294)

دونوں انسائیکلوپیڈیاز کی وضاحت کی تائیداس سے بھی ہوتی ہے کہ 2016ء میں مسیحی پادریوں نے اس دن کی مذمت میں سخت بیانات دئے؛ بل کہ اس سے آگے بڑھ کر بینکاک میں ایک مسیحی پادری نے اپنے بعض ہم نواؤوں کے ساتھ مل کرایک ایسی دوکان کونذرآتش کردیا، جہاں ویلینٹائن کارڈ س فروخت ہورہے تھے، سوچئے اورغورکیجئے! جس کے لئے خودپادری احتجاج کررہے ہیں، جس کے لئے دوکان جلارہے ہیں، ہم مقلدین اس کواپنانے پرتلے ہوئے ہیں۔

جولوگ اس دن کوبطورتہوارمناتے ہیں، ان میں بعض ’’ایسے روشن خیال‘‘ بھی ہیں، جوان لوگوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، جواس دن کی مخالفت کرتے ہیں، ان کی دلیل یہ ہے کہ اس دنیامیں نفرتیں کافی بڑھ گئی ہیں، اگرایک دن پیارومحبت کے نام کردیاجائے تواس میں برائی ہی کیاہے؟ یہ دلیل غوروفکرکے قابل ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں جس طرح نفرت عام ہے، اس کی مثال ماضی میں ملنی مشکل ہے؛ لیکن اس کے ساتھ یہ سوال بھی ہے کہ کیااس ایک دن کی وجہ سے نفرت میں کچھ کمی ہوگی؟ اگرکمی نہیں ہوگی توپھرفائدہ کیا؟ اس کی بجائے ایسی فضاقائم کیوں نہ کی جائے، جونفرت کے ماحول کوختم کردے، جوپیارومحبت کوبڑھاوادے؟ اس کے لئے مہم چلانے کی ضرورت ہے، نصاب میں جس طرح مارڈن ایجوکیشن داخل ہے، اسی طرح مارل ایجوکیشن کوبھی شامل کیاجائے، ان سیریلس اورفلموں پرپابندی لگائی جائے، جن میں نفرت عام کرنے کے موادپائے جاتے ہیں، ان لوگوں کی لگام بھی کسی جائے، جن کی زبان سے شعلے نکلتے ہیں، ان چیزوں کی وجہ سے واقعی طورپربدلاؤ آئے گا، ورنہ ایک دن کی’’یوم محبت ‘‘ سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔

دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ محبت کے نام سے چڑکیوں ہے؟ محبت کے لفظ سے صرف جنس کے معنی ہی تونہیں پائے جاتے ہیں؟ محبت ماں، باپ، بھائی بہن اورآل واولاد سے بھی توکی جاسکتی ہے؟ پھراس میں اعتراض کیوں ہے؟ یہ دلیل بھی ٹھیک ہے؛ لیکن اس پرسوال اٹھتاہے کہ ماں، باپ، بھائی بہن اورآل واولاد سے محبت کے لئے سال میں ایک ہی دن کوکیوں چناجائے؟ اورکیاان لوگوں کے تعلق سے ایک دن کی محبت کافی ہوجائے گی؟ جس ماں نے نومہینے بیٹ میں رکھا، اس ماں کے لئے سال بھر میں صرف ایک دن کی محبت نچھاورکی جائے؟ اس سے کیاماں کاحق اداہوجائے گا؟جس باپ نے پال پوس کربڑاکیا، بچپن سے جوانی تک پوراخیال رکھا، کیااس کے لئے بھی ایک دن کی محبت کافی ہوجائے گی؟ یاانھیں ہمیشہ کاپیارچاہئے؟

پھر اس دن جوخرافات ہوتے ہیں، ان سے جنس کاتصورنہ آئے توکیاآئے؟ کیایہ سچ نہیں ہے کہ اس دن نوجوان لڑکے اورلڑکیاں ہی آپس میں پیارومحبت کااظہارنہیں کرتے؟ کتنے لوگ ایسے ملیں گے، جواس دن ماں، باپ، بھائی بہن اورآل واولاد سے پیارجتاتے ہیں؟ ان کے لئے پھول اورکارڈز خریدتے ہیں؟ پھرجنس کاتصورنہیں ابھرے گاتواورکیاابھرے گا؟ اس لئے ڈنکے کی چوٹ پریہ کہاجاسکتاہے کہ 14؍ فروری کو یوم محبت منانے کی آڑمیں جواوباشی اورفحاشی ہوتی ہے، وہ مغرب کے ننگی تہذیب(Nude Culture)کی بھونڈی مثال ہے، مشرق جس سے ناواقف تھا؛ لیکن اب مشرق کاجنازہ بھی نکلتاجارہاہے۔

Comments are closed.