ویلنٹائن اور محبت

از قلم فردوس کھوکھر
ایک بار پھر سے اس عنوان پر لکھنے جارہی ہوں آج تک بہت سے لوگ اس پر لکھ چکے ہیں مگر پھر بھی نجانے کیوں کوئی سمجھتا نہیں، پڑھ تو لیتے ہیں مگر دل میں بات اترتی نہیں۔ شاید اس تحریر سے کسی کو سمجھ آجائے ۔۔
ماں باپ کی عزت کو روند کر، ان کے سروں کو جھکا کر، انہیں اپنی ہی نظر میں گرا کر کون سی محبت کو نبھا رہے ہیں آپ ؟؟؟؟ ماں باپ کو دکھ دے کر کیا خوشی حاصل کریں گے آپ؟ کیا کبھی ضمیر نے یہ ملامت نہیں کی کہ کیا کر رہے ہو؟؟ کیوں ماں باپ کو خود سے ہی نظریں چرانے سے مجبور کر رہے ہو؟
آج ایک باپ کے جھکے سر کا سن کر یوں محسوس ہوا کہ جیسے کسی نے قدموں تلے زمین کھینچ لی ہو۔ میں اب تک یہ سوچ رہی ہوں کہ اس باپ نے کیسے خود سے نظر ملائی ہو گی؟ کیسے اس نے اپنے مان، فخر کو یوں اپنی عزت کو روندتے دیکھا ہو گا؟ کیا قیامت ٹوٹی ہو گی اس ماں باپ پر؟؟؟؟؟ میں یا آپ اس کا اندازہ کبھی نہیں لگا سکتے ۔۔۔۔
دو میٹھے بول بولے، تعارفی کلمات کہے، دو چار قسمیں کھائیں اور لڑکی کا دل موم ہو جاتا اور اپنے قدم لڑکے کی جانب بڑھا دئیے اور ہوگئی آج کی سو کالڈ محبت کی کہانی شروع۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ لڑکی وہ ہی لڑکی ہوتی ہے جو کاکروچ اور چھپکلی سے ڈرتی ہے مگر نامحرم سے نہیں ڈرتی ۔
آج کل محبت کچھ یوں ہی شروع ہوتی ہے اور ختم جسموں پر ہوتی ہے، محبت کے نام پر ہوس کا بازار سر گرم کا، ہوس کو محبت کی چادر میں لپیٹ دیتے ہیں اور بنت حوا محبت کا وہم پال بیٹھتی ہے ۔
میری نظر میں اس کی میں سراسر غلطی لڑکی کی ہوتی ہے۔ لڑکے نے جال پھینکا اور لڑکی خود اس جال میں پھنسی، زبردستی تو کسی نے نہیں پھینکا اس جال میں، خود اپنی مرضی سے اس جال میں قدم رکھا۔ دیکھنے میں جو سہانے خواب جیسی تھی اصل میں دلدل نکلی اور پھر وہ اس دلدل میں دھنستی ہی چلی جاتی ہے ۔
ویلنٹائن ڈے کے نام پر کتنی عزتیں پامال ہوتی ہیں؟ کیا کچھ نہیں ہو رہا ویلنٹائن ڈے کے دن، ہم انجان تو نہیں ہیں نا سب سے؟ پھر بھی اس دلدل میں دھنس رہے ہیں جس کی مین وجہ رب سے دوری، دین سے دوری ہے۔ ٹھیک ہے آپ کو محبت ہے کسی سے پر اس کا مطلب یہ ماں باپ کی عزت کو روند دیں۔ پہلی بات تو اللہ نے ہمیں محرم اور نامحرم کا فرق بتا دیا ہے ، دوسرا یہ کہ اللہ کو بے نام رشتے پسند نہیں ، "جو پسند ہے اس سے نکاح کر کرلو” یہی حکم قرآن میں موجود ہے ۔ لیکن پسند اور محبت میں فرق ہوتا ہے، دونوں کے فرق کو سمجھیں۔
آج کل لوگ محبت کا دعوا کرتے ہیں اور اگر انہیں شادی کا کہا جائے تو کہتے ہیں کہ پہلے ایک دوسرے کو جان بھی تو لیں کہ آیا ایک دوسرے کے لیے سہی ہیں یا نہیں، اور ایک دوسرے کو جاننے کے چکر میں شریعت کی حدود کو پار کر جاتے ہیں۔ بات چیت سے کال تک، کال سے تصاویر ، تصاویر سے ویڈیو کالز اور پھر ملنا ملانا ۔۔۔۔۔ یہ سب دین کے خلاف ہے، نامحرم سے تو نرم لہجے میں بات تک کرنا نہیں آئی اور یہاں تو معاملہ نجانے کہاں تک پہنچ جاتا ہے ۔
ویلنٹائن اور اس سو کالڈ جھوٹی محبت کے جال سے خود کو بچائیں اپنی اور اپنے والدین کی عزتوں کو داؤ پر نہ لگائیں۔ چند لمحے کی محبت کی خاطر سالوں کی محبت کا سر شرم سے نا جھکا دینا۔ اے بنتِ حوا سنبھال کر چلنا، کہیں تیرا اک غلط قدم، جھکا نا دے سر تیرے ماں باپ کا۔
آئیں ہم سب مل کر اس بے حیائی کے دن کا بائیکاٹ کرتے ہیں اور اسے یومِ حجاب اور یومِ حیا مناتے ہیں۔ اس بے حیائی کے دور میں اللہ پاک ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور اس نئے زمانے کی ہواؤں سے بچائے جو صرف بربادی کو لا رہی ہیں ۔
Comments are closed.