حیاء :خواتین کااصل زیور ہے

نثاراحمد حصیر القاسمی
شیخ الحدیث معہد البنات بورہ بنڈہ و جامعۃ النور یوسف گوڑہ
سکریٹری جنرل اکیڈمی آف ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹیڈیز ۔ حیدرآباد۔
[email protected]
شرم وحیاء اسلام کی بنیادی عناصر اور دین کے اہم ستون میںسے ایک ہے۔ یہ ایسی بلند خصلت اور عمدہ اخلاق ہے جو انسان کے اندر مذہبی رکاوٹ وڈھال پیدا کرتا اور سماج واس کے افراد سے آلودگیوں وگندگیوںکو دور کرتا ہے جو آلودگی مذہبی زندگی کے بگاڑ کا سبب بنتی ہے، اگر کسی انسان کے اندر سے شرم وحیاء مفقود ہوجائے تو واقعہ یہ ہے کہ اس کی زندگی بے کیف وبے رونق ہوجاتی ، اس کی خوش بختی وسعادت جاتی رہتی اور اس کی امنگیں ماند پڑ جاتی ہیں، شرم وحیاء ہی بہتر زندگی کی سواری کی قیادت کرتی اور انسان کو کامیابی کے زینے طے کراتی ہے۔ اللہ کے نبی صلعم نے اسی لئے ارشاد فرمایا ہے کہ:
’’الحیاء لایاتی الا بخیر‘‘ کہ حیاء خیر ہی لے کر آتی ہے۔
ایک بار رسول اللہ صلعم ایک انصاری شخص کے پاس سے گذرے ، وہ اپنے بھائی کو کثرت حیاء پر نصیحت کررہے تھے تو رسول اللہ صلعم نے شرم وحیاء کی قدر وقیمت سے نا واقف اس شخص کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’دعہ فان الحیاء من الایمان‘‘ اسے اپنی حالت پرچھوڑدو، یعنی شرم کرنے دو کہ حیاء ایمان کا حصہ ہے اور حیاء خیر ہی لے کر آتا ہے۔
آج مسلمانوں کی اکثریت اسلام کے اقدار اور اسکے عمدہ اخلاق وخصال سے غافل ہے، جبکہ اسی کو اپنا کر پہلے کے لوگوں نے کامیابی حاصل کی تھی، اور بعد کے لوگوں نے اسے نظر انداز کرکے ناکامی ونامرادی کا سامنا کیا اور کررہے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول صلعم کو حسن اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث فرمایا تاکہ آپ اسلام کے نشان راہ اور اس کے شعائر متعین کردیں اور اس کی شروعات اونچے اخلاق بلند کردار سے ہوتاہے، اللہ کے نبی صلعم حیاء کے منبع وسرچشمہ اور حسن اخلاق کے پیکر تھے، آپ صلعم پردے میں کنوری لڑکی سے بھی زیادہ حیاء کرنیوالے تھے۔ آپ صلعم جب چلتے تو آپ کی نگاہ زمین پر ہوتی اور جب کوئی آپ سے بات کرتا تو آپ اس کی طرف مکمل متوجہ ہو کر بات کرتے صرف التفات نہیں کرتے بلکہ پورے طور پر اس کی طرف گھوم کر اس سے مخاطب ہوتے تھے، آپ سے جب کوئی ملتا تو آپ اسے چھوڑ کر نہیں جاتے، بلکہ اسکے ساتھ رہتے یہاں تک کہ وہ خود آپ کو رخصت کرکے چلا جاتا ، آپ سے اگر کوئی مصافحہ کرتا تو آپ اپنا ہاتھ نہیں چھڑاتے بلکہ ہاتھ میں ہاتھ دیئے رہتے یہاں تک کہ مصافحہ کرنے والاخود اپنا ہاتھ الگ کرلیتا، آپ کے چہرہ انور پرہر وقت مسکراہٹ تیرتی رہتی تھی، آپ ہر ایک سے ہشاش بشاش مسکراتے چہرے سے ملتے جس سے خود بخود دلوں میں انس ومحبت پیدا ہوتی اور لگائو وقربت کا احساس پیدا ہوتا تھا، جو آپ کو دیکھتا خوش ہوجاتا، اور اسکی خواہش ہوتی کہ زیادہ سے زیادہ وقت آپ کے ساتھ گذارے اور آپ کی صحبت میں اپنے لمحات گذارے، اسی لئے آپ کے بارے میں شاعر نے بجا طور پر کہا ہے:
خلقت مبرا من کل عیب
کانک قد خلقت کما تشاء
آپ ہر عیب سے پاک پیدا ہوئے ، جیسے آپ کی تخلیق آپ کی مرضی کے مطابق ہوئی ہو، آپ صلعم نے صحابہ کرام میں اسی اخلاق کا بیج بویا اور انہیں اسی طرح کے اخلاق کا پیکر بنا کر روئے زمین پر اسے عام کرنے کا نمائندہ بنایا، تاکہ اسلامی سماج انہیں بنیادوں پر قائم ہو، آپ صلعم کے صحابہ کرام دیگر اخلاق فاضلہ کی طرح صفت حیاء کے اندر بھی ضرب المثل تھے، آپ صلعم کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو تو حیاء کے اندر امامت کا درجہ حاصل ہے، خود رسول اللہ صلعم نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:
الا استحیی من رجل تستحی منہ الملائکۃ (مسلم)
کیا میں اس شخص سے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔
ایک حدیث میں اللہ کے نبی صلعم نے بعض صحابہ کے صفات عالیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میری امت کا سب سے زیادہ انصاف پسند عمر بن خطاب ہیں، اور سب سے زیادہ بہادر اور علم رکھنے والے علی بن ابی طالب ہیں اور میری امت میں سب سے زیادہ حیاء کرنے والے عثمان بن عفان ہیں۔ اور حلال وحرام کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے معاذ بن جبل ہیں، اور اس امت کے امین ابوعبیدہ عامر بن الجراح ہیں، اسی طرح سارے صحابہ اونچے اوصاف اور بلند اخلاق وکردار کے پیکر بن کر اونچے مقام ومرتبہ پر فائز ہوئے کہ کسی بھی حسن اخلاق کے نمونہ میں نگاہیں انہیں کی طرف اٹھتی تھیں اور لوگ ان سے مل کر خوش ہوتے اور سعادت محسوس کرتے تھے، وہ امت کے بہترین خلف وسلف اور اسوئہ ونمونہ تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اسی لئے پیدا کیا تھا کہ لوگ ان کی پیروی کریں اور ان کے نقش قدم پر چلیں ، ان کے اوصاف کو آنکھوں کاسرمہ بنائیں ، یہی اخلاق اور عالی صفات اللہ کے پیغام کو آفاق عالم تک پہنچانے کا ذریعہ بنا اور اسی وجہ سے لوگ ان کے ارد گرد جمع ہوتے اور ان سے کسب فیض کرتے تھے، اسی لئے اللہ کے نبی صلعم نے اپنے صحابہ کے بارے میں فرمایا:
اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیم
میرے صحابہ ستارے کے مانند ہیں ان میں سے جن کی بھی اقتداء وپیروی کروگے ہدایت پاجائوگے۔
اشجعی بن عصفر جب آپ صلعم سے ملنے آئے توآپ صلعم نے اس وفد سے فرمایا: تمہارے اندر دو صفتیں پائی جاتی ہیں، جو اللہ اور اللہ کے رسول کو بہت محبوب ہیں، اور وہ ہے حلم وبردباری اور متانت وعدم جلد بازی ، اور شرم وحیاء ۔
غرض شرم وحیاء ایسی صفت ہے جو انسان کے اندر شرف وکرامت اور عزت ووقار پیدا کرتی اور سعادت وخوش بختی کو کھینچ لاتی ہے۔ حیاء اخلاق فاضلہ کی اساس وبنیاد ، ادب وتہذیب کا سرچشمہ اور عزت وشرف کا منبع ہے، اسی لئے اللہ کے نبی صلعم نے اس کے بارے میں فرمایا کہ حیاء اپنے ساتھ خیر ہی لاتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہیکہ رسول اللہ صلعم نے ارشاد فرمایا کہ ایمان کے ستر سے زائد شعبے ہیں، اس کا سب سے بلند وافضل درجہ کلمہ شہادت لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے، اور ادنی درجہ راستہ سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹانا ہے، اور حیاء ایمان کا حصہ ہے۔ (متفق علیہ)
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے ارشاد فرمایا کہ پہلے کے کلام نبوت میں سے لوگوں کو جو ملا ہے اس میں سے ایک یہ ہے کہ اگر شرم وحیاء نہیں تو جو چاہو کرو، (ابودائود، مسند احمد)کیونکہ یہی انسان کو حیوان اور جانوروں سے ممتاز کرنے والی صفت ہے، اگر یہ مفقود ہوجائے تو انسان اور جانور میں کوئی فرق باقی نہیںرہتا۔
آج ہمارا معاشرہ سڑ چکا ہے، اس سے ناقابل برداشت بدبو پھیل رہی ہے، ایشیا ہو یا یورپ، امریکہ ہویا افریقہ، عرب ہو کہ عجم ہر جگہ عریانیت وفحاشی کا دور دورہ ہے، لوگ بدکاریوں وبے راہ روی کے دلدل میں ناکوں تک ڈوبے ہوئے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان اپنے اسلاف کے کردار سے سبق لیں ان کے اخلاق کو اپنائیں، ان کے بلند اوصاف وکردار کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں کہ اسی میں ہمارے لئے دائمی سعادت اور کامیابی ہے، ہماری کامیابی وخوش بختی مغربی تہذیب کواپنانے اور اسکے بچھائے ہوئے کانٹوں بھرے قالین پر چلنے میں نہیں بلکہ اسلام کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے میں ہے۔ اسلام نے طرح طرح سے اور مختلف اسلوب میں حسن اخلاق سے آراستہ ہونے اور بد اخلاقی وبدکرداری سے دور رہنے پر ابھارا ہے کہ یہ زندگی کو تلخ کرنے اور چین وسکون کو غارت کرنے والی چیز ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ قوم وامت کی ترقی بلند اخلاق کی مرہون منت ہے۔ اگر اخلاق اچھے ہوںگے تو ہمارا عروج وبول بالا ہوگا، ہم لوگوں کے دلوں پر راج کریںگے ، اور اگر ہمارا اخلاق بگڑ جائے تو ہم قعر مذلت میں پڑ جائیںگے، آج ہم نے حسن اخلاق کو رخصت کردیا اور دوسروں کے رسم ورواج اور عادات واطوار کو اپنانے کے پیچھے بھاگنے لگے ہیں، جس سے ہمیں کوئی فائدہ حاصل ہونے والا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس ہم اپنے اسلامی وجود اور مذہبی تشخص کو کھو رہے ہیں، آج ہم اپنی تہذیب وثقافت کو گلے لگانے کے بجائے دوسروں کی تہذیب اپنانے کی کوشش کررہے ہیں، جبکہ یہ ہمیں نہ کامیابی دینے والی ہے نہ سرخروئی ، نہ سربلندی عطا کرنے والی ہے نہ عزت ووقار ، بلکہ اس کے برعکس یہ ہمارے لئے شرم وعار ہی لانے والی ہے کہ اس مغربی تہذیب کی بنیاد ہی فحاشی وعریانیت ، بے حیائی وبے شرمی ، زناکاری وبدکاری اور روسیاہی ہے۔ اسکی دعوت ہی رزائل وسوء خلق ہے، آج ساری دنیا اس بدی سے بھری پڑی ہے، جس کا مقصد مسلم سماج کو اونچے اقدار ، عمدہ صفات اور بلند اخلاق وکردار سے تہی دست کردینا ہے، تاکہ وہ پستی میں اس طرح چلے جائیں کہ ان میں کبھی مقابلہ کی ہمت پیدا نہ ہو، وہ اپنی عظمت رفتہ کو واپس لانے کا سوچ نہ سکیں آج مسلمانوں کی بہت بڑی آبادی جو نام سے تو مسلمان ہیں مگر ان کے دل میں اسلام کا کوئی احترام نہیں ، انہوں نے ذلت ورسوائی اورکمزوری کا لباس زیب تن کرلیا اور عزت وشرف کا لباس اتار پھینکا ہے، انہوں نے اسلام کی ظاہری علامتوں اور دین کی بنیادی باتوں کو بھی پس پشت ڈال کر یہود ونصاری کے طریقوں کو اپنا لیا اور انہیں کے پیچھے آنکھیں بند کرکے بھاگ رہے ہیں، انہیں اندازہ نہیں کہ اس کا کیا انجام بد ہونے والا ہے، وہ ان کافروں وفاسقوں کے طور طریقوں کو اپنا کر سمجھتے ہیںکہ وہ اسی سے ترقی کے زینے طے کرسکتے ہیں جبکہ وہ خود راہ سے بھٹکے ہوئے اور حیران وپریشان ہیں، اور اپنے کلچر پر افسوس مل رہے اور آنسو بہار ہے ہیں، اور سعادت وسکون کی تلاش میں سرگرداں ہیںجن مسلمانوں نے سعادت کے راستے کو چھوڑ کر شقاوت وبدبختی کی راہ اختیار کی ہے انہوں نے اپنے آپ کو گم گشتہ راہ پر ڈال دیا ہے۔ آج مسلمان نوجوان بچے وبچیاں بے راہ روی وفحاشی پر نازاں وشاداں نظر آرہی ہیں، اللہ کے نبی صلعم نے انہیں کے بارے میں فرمایا ہے: کہ وہ دوسروں کی طرف مائل ہونے وجھکنے والی ہیں، اور دوسروں کو اپنی طرف مائل کرنے والی ہیں، وہ نہ جنت میں داخل ہوںگی اور نہ ہی اس کی خوشبو پائیں گی، اس حدیث کے اندر رسول اللہ صلعم نے جن مسلم بچیوں کی طرف اشارہ کیا اور اس کا تذکرہ چودہ صدی قبل ہی کردیا ہے وہ آج ہمارے درمیان ہیں، یہ نوجوان لڑکیاں مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی اور رسول اللہ صلعم کی لعنت کو دعوت دینے والی ہیں، جنہیں آپ صلعم نے رحمت خداوندی سے دور ہونے کا مژدہ سنایا ہے۔ اسی طرح نوجوان لڑکے ہیں جو لباس وپوشاک اور حلیے میں عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے ہیں، جو آخرت میں رحمت خدا وندی سے محروم رہنے والے اور دنیا میں ذلت سے دو چار ہونے والے ہیں، آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلام کا نام لینے والوں میں ہی اسلامی شریعت کا فقدان ہے، ان کے دلوں سے اسلامی اخلاق واقدار غائب ہورہے ہیں، وہ مسلمان ہونے کے باوجود خود مسلمانوں پر طعنہ زنی کرتے، پردہ نشین عورتوں پر لعن وطعن کرتے انہیں برا بھلا کہتے، انہیں پستی اورپچھڑے پن کی علامت قرار دیتے ہیں جبکہ وہ خود اس کے شکار ہیں۔
بلا شبہ آج کے ماحول کو دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ فساد وبگاڑ اور بے حیائی وفحاشی ، خشکی وتری میں پھیل چکی ہے، لوگ اسلام کے قید وبند سے آزاد ہوچکے ہیں، اس کی شریعت کو پس پشت ڈال دیا ہے ، اس کے اونچے اقدار واخلاق کو اور بلند صفات وخصلتوں کو فراموش کردیا ہے، جس سے ان کی عفت وعصمت داغدار ہوچکی ہے، ارتداد کا دروازہ کھل چکا ہے ، محض شہوانی خواہشات وشہوات کی تسکین کے لئے دین وایمان کا سودا کیاجارہا ہے، انہوں نے زندگی کا مفہوم ہی بدل دیا ہے۔ حیاء وحشمت ووقار کو پستی کی علامت کہا جارہا ہے۔ فاسقانہ وفاجرانہ افکار وخیالات کا غلغلہ ہے اور پوری قوت سے دنیا میں اسے رواج دیا جارہا ہے۔ تمام ترذرائع ابلاغ اور رابطے کے وسائل نے بگاڑ وفساد کو دنیا میں پھیلانا اپنا مقصود بنا لیا ہے ، لوگ انہیں وسائل میں ڈوبے ہوئے ہیں جو شیطان کا پھندا ہے، اس کے زیر اثر نوجوان اسی چراگاہ میں چرتے اور وہیں سے معلومات حاصل کرتے ہیں، ان کے اندر خشک وتر کی تمیز نہیں ، انہیں یہ بھی پتا نہیں کہ اس کے پیچھے کیا منصوبے اور تدبیریں چھپے ہیں، دل مردہ ہوچکے ہیں انہیں پتا نہیں کہ زندگی کا مقصد کیا ہے، شاید ایسے ہی لوگوں کے بارے میں رسول اللہ صلعم نے فرمایا ہے: لا تکونوا امعۃ ، خود غرض ومطلب پرست مت بنو، مگر آج کی نوجوان نسل بگاڑ وبے حیائی، فحاشی وعریانیت اور یہود ونصاری کی اندھی تقلید کے سمندر میں غرق ہوچکی ہے، انہوں نے شرم وحیاء کے قیمتی اثاثے کو پھینک دیا اور اسکے حسین پوشاک کو اتار دیا ہے، جس سے ہر برائی کی راہ ان کے لئے ہموار ہوگئی ہے۔ اسی لئے اللہ کے نبی صلعم نے ارشاد فرمایا ہے: اذا لم تستحی فاصنع ما شئت( مسند احمد وابودائود) اگر حیا نہیں تو جو چاہو کرو، یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیںکہ مغربی تہذیب کی جانب سے برآمد کردہ یوم عاشقاں کو غیرمسلموں کی طرح مسلم نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی مناتے ہیں، جوان کے دین بیزاری اور اسلام کی سچی تعلیمات سے نا واقفیت کیوجہ سے ہے، ان ایام میں اجنبی مردوزن کا اختلاط ہوتا، الفت ومحبت کی باتیں ہوتیں ، ہدیے تحائف کا تبادلہ ہوتا، فحاشی وبے حیائی اور عریانیت کا مظاہرہ ہوتا اور دوستی کے عہدو پیمان ہوتے اور محبت کے گیت گائے جاتے ہیں جبکہ مسلم لڑکیوں اور لڑکوں کے لئے حرام ہے کہ وہ کسی اجنبی کو دوست بنائیں ، قرآن کی زبان میں گرل فرینڈ یا بوائے فرینڈ رکھنا زنا کاری وبدکاری کے مترادف ہے، سورہ نساء میں باندی کے ساتھ نکاح کی اجازت دی گئی ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ پاکدامن ہوں، کھلے عام بدکاری کرنے والی نہ ہوں اور نہ ہی کسی مرد سے دوستی رکھنے والی ہوں۔ (سورئہ نساء:25)
اسی طرح مردوں کو کہا گیا ہیکہ وہ اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح تو کرسکتے ہیں ایسا نہیں کہ علانیہ ان سے زنا یا بدکاری کریں بلکہ باقاعدہ نکاح کریں اور نہ ہی انہیں گرل فرینڈ بنا کر ان سے بدکاری کریں۔ (المائدہ: 5)
ہمارے مسلم بچوں وبچیوں کو سمجھنا چاہیے کہ شرم وحیاء ان کا ایک نہایت قیمتی زیور اور انمول پوشاک ہے اسے کسی قیمت پر تار تار نہ ہونے دیں، غیروں کے عادات واطوار کو اپنا کر اپنے تشخص کو پامال نہ کریں اور یہ سمجھیں کہ اسلامی تعلیمات اور اس کے کلچر کا کوئی خود ساختہ کلچر مقابلہ نہیں کرسکتا ، دشمنان اسلام یہی چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنے کلچر سے دور کردیں جس کے بعد نہ ہم اسلام کے رہیں اور نہ دوسرے کے۔ اب ہمارے ہاتھ میں کہ ہم دشمنان اسلام کے منصوبوں کو کامیاب بناتے ہیں یا ناکام۔
Comments are closed.