مولانا اشفاق احمد رحمانی، بیدار مغز مصلح و داعی

تحریر: ڈاکٹر سید عروج احمد

(قاضی شہر کھاچرود و ناگدہ،ایم پی)

خطہ مالوہ میں آباد، اصلاحی ودعوتی میدان میں جہد و سعی میں مصروف مسلمانوں کے لیے 12/جنوری2021ء کی تاریخ غم واندوہ کا دن ثابت ہوا، کیوں کہ اس تاریخ کو خطہ مالوہ کے ایک بیدار مغزمصلح وداعی حضرت مولانا اشفاق احمد رحمانی اس دنیائے فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کر گئے۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔
مولانا موصوف اس دنیائے فانی سے تو رخصت ہوگئے لیکن ان کی شخصیت اور ان کی ہمہ جہت خدمات کا عکس ونقش ہمشہ مالوہ کے فکرمند مسلمانوں کے دل ودماغ میں قائم رہے گا۔

اخلاق وکردارکی بلندی

مولانامرحوم کو اللہ تعالی نے غیرمعمولی خصوصیات اور امتیازات سے نوازا تھا۔آپ حسن اخلاق،تواضع و انکساری،رحمت و رافت اور شفقت ومحبت کے پیکر تھے۔ اوربیابان وصحرا میں کھڑے ایک بوڑھے برگد کی طرح ہر ایک کو اپنے سایۂ شفقت کے آغوش میں لینے کو بیتاب رہتے،جو بھی آپ سے قریب ہوتا وہ آپ کے علم و اخلاق کااسیر ہوجاتا،کسرنفسی، تواضع اورعاجزی آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔خودنمائی اورخودسری آپ کے مزاج میں مفقود تھی۔ آپ بے نام و نشاں رہ کر متحرک و مشغول عمل رہتے۔ اور کام کا ڈھنڈورہ پیٹنے کے بجائےخاموشی سے اپنی دُھن میں لگے رہتے۔ لوگوں کےدکھ درد میں برابر شامل ہوتے۔آپ کے مزاج میں خدمت خلق کاجذبہ بدرجہ اتم موجود تھا۔مجبورو پریشان حال لوگوں کی خفیہ امداد کرتے۔ کبھی ظاہر نہیں ہوتے۔ من تواضع للہ رفعہ اللہ (جو اللہ تعالی کی رضا کی خاطر عاجزی و انکساری کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کے مقام و مرتبے کو اونچا کر دیتا ہے)

دعوت و تبلیغ اورتقریر

مولانا مرحوم نے اصالۃ اپنی زندگی کا نصب العین دعوت و تبلیغ کو بنایا ہوا تھا۔ع

میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں میں اسی لئے نمازی
کی مصداق مولانا کی زندگی کا ہر گوشہ دعوت و تبلیغ دین کی فکر میں ڈوبا رہتا تھا۔ ملت کی زبوں حالی کا بہت قریب سے مشاہدہ کرکے اس کے علاج کے لیے ہمیشہ غوروخوض میں محو رہتے۔ اور امت مسلمہ کی اصلاح کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے ، خواہ شادی بیاہ کی خوشنما تقریبات ہوں یا کسی کی موت کا غم زدہ ماحول۔مولانا ملت کی ٹیڑھی صفوں کو سیدھا کرنے کی سعی ضرور کرتے۔
اللہ تعالی نےمرحوم کو ایک درد مند دل کے ساتھ تقریر اورخطابت کا ایک سادہ اور بہترین انداز بھی عطا فرمایا تھا۔آپ کی بات ہمیشہ واضح، صاف اورپر تاثیر ہوتی تھی جو سامعین کے دلوں کو جھنجوڑ دیتی تھی۔ دینی و ملی اصلاحی پروگرام اور علمی و ثقافتی اجتماعات میں خطاب کے لیے دور دراز کا سفر کرتے۔ اس پیرانہ سالی میں بھی کبھی نہیں تھکتے۔
مرحوم نے اپنی تقریروں سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حق ادا کرنے کی حتی الامکان کوشش کی۔سماجی و معاشرتی اصلاح کے کیمپ لگاتے، آپ کی تقریروں کی حکمت بیانی اہل علم اور عوام الناس کےلئے ہمیشہ نفع بخش ہوتی تھیں۔ پیشہ ور مقرروں کی طرح مولانا کی آواز میں گھن گھرج نہیں ہوتی بلکہ نہایت شیریں، دلکش و دردمند انداز میں پر مغز خطاب فرماتے۔
آپ کا اسلوب بیان اور انداز خطابت دلپزیر و پٌر تاثیر ہوتا تھا۔جس میں غیر معیاری اور سوقیانہ الفاظ کے لیے جگہ نہیں ہوتی۔

قوم کی زبوں حالی پر کڑھن
مولانا مرحوم اپنے ضعف و پیرانہ سالی میں بھی ملک کے سیاسی حالات پر گہری نظر رکھتے اور قوم کی زبوں حالی انھیں کڑھن و غم میں مبتلاءرکھتی۔آئے دن رونما ہونے والے سیاسی حادثات اور اس پر رہنمایان قوم کی غفلت مولاناکے غم میں اضافہ کردیتی۔ آپ ملی حالات پر ہمیشہ فکرمند رہتے،اور کبھی کبھی تو زاروقطار رو پڑتے۔ یہی نہیں بلکہ موجودہ سیاسی احوال اورزوال وادبار پر حسب ضرورت اظہار خیال بھی فرماتے۔

اقبال کی شاعری سےجرأت و ہمت کی تعلیم

علامہ اقبال علیہ الرحمہ کے کلام سے مولانا کو بڑا شغف تھا، وہ نوجوانان ملت کے لیے کلام اقبال کو مشعل راہ گردانتے،اور علامہ کےاشعار۔۔۔

جلال آتش برق وسحاب پیدا کر
اجل بھی کانپ اٹھے وہ شباب پیدا کر
خدا اگردل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
کی روشنی میں ہمیشہ نوجوانان قوم وملت کوان کی زندگی کا مقصد حاصل کرنے کی سعی کرنےپر آمادہ کرتےاور بگڑتے حالات میں انہیں حوصلہ دیتے۔ اس بوڑھے کمزور اور ضعیف جسد میں ہمیشہ ایک متحرک،دردمند اور پرشباب جواں دل دھڑکتارہا، جو آخری دم تک اپنی قوم کے نوجوانوں کواٹھ کھڑا ہونے کا پیغام دیتا رہا۔جیسے وہ کسی حکیم حاذق کا مجرب نسخہ ہو۔۔
سفر میں مشکلیں آئیں تو جرأت اوربڑھتی ہے
کوئی جب راستہ روکے تو ہمت اور بڑھتی ہے
میری ناکامیوں پرجب کوئی تنقید کرتا ہے
وہ دشمن کیوں نہ ہو اس سے محبت اور بڑھتی ہے
اگر بکنے پہ آجاؤ تو گھٹ جاتے ہیں دام اکثر
نہ بکنے کا ارادہ ہو تو قیمت اوربڑھتی ہے

مولانا سے خاندانی مراسم

مولانا کے داغ مفارقت نے جہاں تحریک سے جڑے متوالوں کو رنجیدہ و غمگین کیا، وہیں راقم الحروف کو بھی دہرا صدمہ پہنچا،کیونکہ مولانا محترم کا میرے ساتھ چچا بھتیجے کا رشتہ تھا اور مجھے فخر ہے کہ اس عبقری شخصیت کی ابتدائی تعلیم و تربیت میرے آباؤ اجداد کی نگرانی میں بھی ہوئی ہے۔میرےابا مرحوم قاضی سید عبدالماجد صاحب عمر میں مولانا مرحوم سے بڑے تھے۔اور مولانا انہیں ہمیشہ ‘بھائی صاحب’ کہہ کر پکارتے،مولانا جب بھی اپنے بچپن کو یاد کرتے تو ہمارے دادا مرحوم سید عبدالوارث صاحب کی شفقت اور دادی مرحومہ زینب خاتون کی مامتا کو یاد کرتے ہوئےان کی آنکھوں میں چمک آ جاتی ، دادی صاحبہ کو مولانا ‘اماں’ کہہ کر پکارتے تھے۔ چونکہ اپنے والد صاحب کے سایۂ شفقت سے مولانا بچپن میں ہی محروم ہوگئے تھے اس لیے ان کی والدہ انہیں لے کر اپنے میکے کھاچرود آ گئی تھیں۔یہیں ہمارے دادا دادی کے پاس دن بھر رہتے،تعلیم و تربیت کے ساتھ ہمارے ابا اور چچا مرحوم سید محسن علی صاحب (جو ان کے ہم عمر تھے) کے ساتھ کھیلتے، کودتے، دوڑ بھاگ لگاتے اور ہماری بکریوں کو چرانے ان کے ساتھ جنگل میں جاتے، درختوں پر چڑھ جاتے، لکڑیاں توڑ کر لاتے۔۔ دیواروں کو پھاندتے اور کئی بار اپنے ان بھائیوں کے ساتھ ہی سو جاتے۔ مولانا کے ساتھ یہ اپنا پن اور قلبی تعلق راقم الحروف نے ہمیشہ محسوس کیا ہے اور اس رشتے کی پاسداری مولانا مرحوم نے ہمارے پورے گھرانے کے ساتھ ہمیشہ رکھی۔
یہاں ایک واقعہ نقل کرناضروری سمجھتا ہوں کہ جب ہماری دادی صاحبہ اخیر عمر کو پہنچی تو شدید بیماری میں مبتلا ہو گئیں انہیں ناگدہ کے جن سیوا ہاسپٹل میں ICU وارڈ میں ایڈمٹ کرایا گیا جہاں ان کے بچنے کے امکانات کم ہی تھے۔غنودگی طاری تھی اور اسی غنودگی کی حالت میں ان کی زبان پر بس ایک ہی رٹ تھی کہ۔۔ "اے اللہ تو نے مجھے اپنا گھر نہیں دکھایا” دادی صاحبہ کا یہ جملہ سن کر ابا زار و قطار رونے لگے اور اپنے اللہ کے حضور سر بسجود ہو کر گڑ گڑانے لگے۔۔ کبھی اپنی قلیل تنخواہ اور بھرے پورے خاندان کی کفالت کی ذمہ داریوں کو دیکھتے اور کبھی بستر مرگ پر اماں کی آخری خواہش کی اپنے مالک حقیقی سے التجا کرتے۔اس قاضی الحاجات نے ذہن میں مولانا مرحوم کا خیال ڈالا جو کہ ایک عرصے سےحج ٹورس کی خدمات انجام دے رہے تھے۔ ابا نے فوراً ارادہ کیا کہ۔۔ اللہ تو اماں کو صحت دے تو میں انہیں حج کا سفر کراؤں۔۔۔ اور مولانا سے رابطہ قائم کیا، مولانا مرحوم چونکہ اماں سے بہت محبت اور عقیدت رکھتے تھے، غمگین ہوگئے اور بھائی صاحب یعنی میرے ابا مرحوم کو حوصلہ دیا کہ آپ اللہ کے بھروسے ہمت کریں، وہی سارے انتظام کر دے گا۔ پھر ہمارے بڑےبھائی سید سہیل احمد کو اماں کی خواہش اور اپنی بےبسی کا ذکر کیا ، تو بھائی جان نے بھی لبیک کہا اور اس طرح اس ارحم الراحمین نے اپنے فضل سے دادی صاحبہ کو صحت بخشی اور اسی سال اپنے گھر کا دیدار نصیب فرمایا اور مزید کرم یہ کیا کہ ان کے توسط سے خاندان کے چار پانچ اور لوگوں کو بھی یہ مبارک سفر نصیب ہوا۔۔ اللہ تعالی قبول فرمائے سہیل بھائی جان بھی چھٹی لے کر ان کے ساتھ حج میں شریک ہو گئے اور اپنے والدین اور دادی صاحبہ کی خوب خدمت کی۔ وہ کہتے ہیں کہ مولانا دادی صاحبہ کا بہت ادب و احترام کرتے۔۔اور اس بات سے بہت خوش تھے کہ آج میں اماں کے ساتھ حج کا فریضہ ادا کر رہا ہوں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت کی راحتیں عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

مورخہ: 8 فروری 2021ء

Comments are closed.