جامع مسجد مولانا کمال، دھار کی زیارت (قسط 2)

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی
(مہدپور ضلع اجین،ایم پی)
ہم تقریبا ساڑھے بارہ بجے دھار پہونچ گئے،وہاں ہمارے میزبان تھے؛ محمد ریاض (الیکٹری سٹی ڈپارٹمنٹ، حکومت مدھیہ پردیش)، حیدر محمد عرف بابوبھائی،ایڈوکیٹ محمد خالد۔
پروگرام ”عذبہ ویلفیئر فاؤنڈیشن“ کے زیراہتمام ”ربک میریج ہال،نزدرحمت مسجد،دھار“ میں دو بجے ہونا تھا۔ ناشتہ وغیرہ سے فراغت کے بعد مولانا اشفاق صاحب ندوی کی معیت میں ان کے اور میرے اہل خانہ کو مانڈو کے قابلِ دید مختلف
مقامات کی دیدار کے لیے بھیج دیا گیا۔ بھائی ابو الحسن ناگوری اور میں نے ”جامع مسجد مولانا کمال“ کودیکھنے کا پروگرام بنایا۔ ارادہ کیا کہ بائک سے وہاں تک جائیں، لیکن میزبانوں میں حیدرمحمد عرف بابو بھائی اپنی کار لے کر آگئے، ہم لوگ اس گاڑی میں سوار ہوکر منزل مقصود کی طرف روانہ ہوئے تو معلوم ہوا کہ آج ہاٹ (ہفتہ وار ی بازار) ہے، جس کی وجہ سے عام شاہراہوں پر بھیڑ زیادہ ہے۔ اس لیے عقبی راستے سے ہمیں منزل تک لےجایا گیا ہے۔ اندر داخلہ سے قبل قبروں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ وہیں پھول ومالا وغیرہ فروخت کرنے والوں کی دکانیں ہیں۔ میزبان نے ایک قصعہ بھرکر بڑے بڑے پتوں والے،خوشبو دار،تازہ تازہ گلا ب کاپھول خریدکر قصعہ کو میری طرف بڑھا دیا، جب میں نے اسے لینے میں تأمل کیا تو رفیق سفر نے آگے بڑھ کر اُسے لے لیا۔ اب ہم اندر مزار کے قریب ہیں۔ ہمیں میزبان نے جوتے اُتارنے کے لیے کہا، جوتے اُتارتے ہوئے ہم دیکھ رہے تھے کہ اکثر لوگ اُلٹا چل کر مزار سے باہر نکل رہے ہیں۔ ہم اندر داخل ہوئے،فاتحہ پڑھی اور اللہ سے اِن بزرگوں کے وسیلے سے اپنے لیے اور مسلمانوں کے لیے دعائیں کیں۔ پھر یہاں سے مسجد میں داخلے کے لیے مغربی جانب بڑھے، گیٹ پرجانچ مشین لگی ہوئی ہے،اس سے گزرے،اسی گیٹ پرجو کہ برآمدہ کی شکل میں ہے، ایک کنارے کھڑے سرکاری اہلکار نے ٹکٹ کے لیے کہا،تو میزبان نے فورا ٹکٹ لیا، اور ہم اندر داخل ہوگئے۔ اندر اولاً فنائے مسجد ہے، وسط میں حوض ہے، چاروں طرف دالان، قبلہ رخ پر کھڑے ہونے کی صورت میں بائیں جانب دالان کی دیوار سے لگ کر ٹوٹے ہوئے ستونوں کی شکل کے کچھ پتھر رکھے ہوئے تھے۔میزبان نے بتایا کہ جالی توڑ کر کچھ محروم الایمان افراد نے ان پتھروں کو مسجد کے اس حصے میں لاکر رکھا ہے اور اپنے معبود کے طور پر ان کی پوچاکرتے ہیں۔ ان پتھروں کو آئرین فینس یا جالی دارلوہے کی دیوار سے گھیرا ہوا ہے۔
صحن میں بطور فرش بچھے ہوئے پتھر موٹے موٹے بڑے بڑے سل معلوم ہوتے تھے۔ لیکن ان کے کنارے وکونے تقریبا چارچار انگشت تک گہرائی میں گھسے ہوئے تھے۔ مسجد کے احترام میں ہم لوگ اپنے جوتے باہر ہی نکال کرآئے تھے؛لیکن اندر پہرہ داری کرنے والے ملازمین جوتے پہنے ہوئے تھے، حتی کہ محروم الایمان افراد جو غیر اسلامی اور مشرکانہ مناسک ورسوم کی ادائیگی کے لیے مسجد میں داخل ہورہے تھے وہ بھی جوتے پہن کر داخل ہورہے تھے۔ اندر منبر اور محراب کے پاس ہم کھڑے ہو کر دیکھتے ہیں تو منبر پر اوپرچڑھنے کی ممانعت کی عبارت ہندی میں لکھی ہوئی ہے، اور محراب کی کمانی پر نیچے سے اوپر تک عربی عبارات (کلمات طیبہ وغیرہ) لکھی ہوئی ہیں، جن پر دودِھیا رنگ کے کانچ یافائبر کو لگا کر چُھپایا گیا ہے، اس کے باوجود وہ عربی تحریریں دکھائی پڑتی ہیں۔ محراب کی بائیں جانب غیر مسلم جوڑے (غالباًمیاں بیوی تھے) قبلہ رُخ ہو کر پوجا کررہے تھے۔ ہم لوگوں کو دیکھ کر وہ رُک گئے، ہم آگے بائیں جانب بڑھے تو وہ پھر پوجا میں لگ گئے، ہم کو مُڑ تا دیکھ کر پہرہ دار نے انہیں کہا ”تم لوگ یہاں بیٹھو مت! کھڑے رہو“۔
ہم نے اس مسجد میں نماز پڑھنی چاہی؛ لیکن میزبان نے بتایا کہ جمعہ کے علاوہ دوسرے دنوں میں یہاں نماز پڑھنے پر پابندی ہے۔ع
بے کسی ہائے تماشا کہ عبرت ہے نہ ذوق
بے بسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں
مسجد کی پوری تعمیر خلجی طرز کی تھی۔ اس لیے میں نے کہا کہ: ”ابھی تک ہماراخیال تھا کہ یہ مسجد راجہ بھوج کا کوئی مرکز تھی۔ راجہ نے معجزہ شق القمر کے بعد اسلام قبول کرنے بعد اُسے مسجد میں تبدیل کردیا تھا، یہ خیال درست نہیں ہے۔ “ مسجد کو دیکھنے کے بعد معجزہ شق القمر دیکھ کر ایمان لانے والے راجہ بھوج کی تعمیر کے بارے میں جو خیال تھا وہ بالکل کافور ہوگیا اور یقین ہو گیا کہ یہ راجہ بھوج کے دور کی تعمیر ہے ہی نہیں۔ کیوں کہ اس میں کسی بھی زاویہ سے مسجد کے علاوہ کسی دوسری عمارت سے مماثلت نہیں پائی جاتی ہے۔ یہ مسجد قبلہ رُخ بنی ہوئی ہے، اور آگے محرابیں ہیں،ممبر ہے۔ انہیں پتھروں سے وسط صحن میں حوض بنا ہوا ہے۔ صحن کی چاروں طرف دالان اور برآمدہ ہے۔ اجمیر،جون پور اور دوسرے مختلف مقامات پر بعض قدیم مساجد کی دیواروں اور ستونوں میں میں بندے نے ذی روح کے نقوش دیکھے ہیں،لیکن اس مسجد کی دیوار، ستون،چھت وغیرہ پر اور نہ ہی جگہ کسی پتھر میں ذرہ برابر بھی غیر اسلامی اور مشرکانہ آثار نہیں ہیں۔ حتی کہ مسجد کی جنوبی سمت دالان میں دیوار سے لگا کر جو باطل معبود رکھے گئے ہیں وہ بھی عام سلیں معلوم ہوتی ہیں۔ ان میں بھی ذی روح کی شکل نہیں بنی ہو ئی ہے۔
ہم مسجد سے باہر نکلنے کے لیے صحن سے گیٹ تک آئے،یہاں گیٹ سے متصل دالان میں کچھ غیر مسلم خواتین بیٹھی ہوئی تھیں، باہر آتے ہوئے دائیں ہاتھ پر اسی دالان کی دیوار میں بنے دو طاقوں پر اُسی طرح جس طرح محراب پر دودھیا رنگ کے شیشے تھے یہاں بھی شیشے لگے تھے،ان شیشوں پراندرجانب دیوناگری رسم الخط یا اسی طرف سے لکھی جانے والی کسی زبان میں چھوٹے چھوٹے حروف میں طویل عبارتیں لکھیں ہوئی تھیں۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ یہ نہ سنسکرت ہے اور نہ ہی مراٹھی ہے اور نہ پنجابی، شاید کہ یہ پالی زبان ہے۔ ہم یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ پالی زبان کی پیدائش اور ابتدا اُجین میں ہوئی تھی اور مہاتماگوتم بدھ سنسکرت کے مخالف تھے اس لیے گوتم بدھ کی تعلیمات کو سب سے پہلے پالی زبان میں مدون کیا گیا تھا۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments are closed.