انسان کو اپنا گزرا کَل نہیں بھولنا چاہیے!!

محمد صابر حسین ندوی

[email protected]
7987972043

ہر انسان کی اپنی ایک تاریخ ہوتی ہے، بچپن سے لیکر جوانی، ادھیڑ عمر سے ہو کر بڑھاپا اور موت تک اس کی ایک داستان ہوتی ہے، عموماً لوگوں کی زندگی کے ان مراحل کی کہانیاں عجب، حیران کن اور تجربات سے بھرپور ہوتی ہیں، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان ابتدائی دور میں غربت و افلاس اور لاچاری و بے یاوری کے دور میں تھا، پھر اس نے محنت و جفاکشی کے ساتھ ایک مقام پایا، مگر یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اکثر و بیشتر وہ مقام انہیں ہضم نہ ہوپایا، وہ پھر اَنا اور ضمیر کے پجاری بن جاتے ہیں، نفس ان کا بادشاہ اور یہ اس کے غلام ہوجاتے ہیں، جو کبھی پیوند لگے کپڑے پہنتا تھا اب برانڈیڈ کپڑے میں وہ کسی کو کچھ نہیں آنکتا، جو کبھی سوکھی روٹی اور نمک کھا کر گزارا کیا کرتا تھا، اب حاتم طائی کا دسترخوان لگاتا ہے اور خود کو ہی اس کا موجد سمجھتا ہے، جو کبھی ایک عام سی جھونپڑی اور گھاس پھوس کی کُٹیا میں بسیرا کیا کرتا تھا اب عالیشان گھر کی زینت ہے جس کی چھت آسان سے باتیں کرتی ہے؛ مگر وہ خود کسی اور سے بات نہیں کرتا، انسانی نفس کا یہ بڑا المیہ اور بحران ہے کہ وہ اپنا ماضی بھول جاتا ہے، جس دور نے اساس کا کام کیا اسی کو فراموش کرجاتا ہے؛ جبکہ ماضی ایک نسب کی طرح ہے جو جتنا زیادہ مقدس اور پاکبازی کے ساتھ رکھا جائے، اسے سینے سے لگایا جائے اور اسے مشعل راہ بنا کر اگلی راہوں پر چلا جائے اتنا ہی اچھا ہوتا ہے، یادش بخیر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ نے الفاروق میں لکھا ہے کہ وہ ایک دفعہ اچانک ممبر پر جلوہ افروز ہوئے اور کہنے لگے کہ میں ایک ایسی ماں کا بیٹا ہوں جو مکہ مکرمہ میں سوکھے گوشت پر گزارا کیا کرتی تھی، تو ساتھیوں نے کہا: یہ تو ہم جانتے ہیں، کہنے کی کیا ضرورت ہے، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ میں خود سے کہہ رہا ہوں؛ تاکہ میں اپنا ماضی نہ بھول جاؤں، اگرچہ یہ روایت کا مفہوم ہے، تاہم اس سے سبق لینا چاہئے! جو لوگ اونچائیوں پر پہنچ اس سے متصل لگی سیڑھیاں بھول جاتے ہیں، جن سہاروں اور اسباب و ذرائع سے انہوں نے طویل ترین سفر کیا تھا وہی فراموش کرجاتے ہیں، اور وہ یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ کل اگر اترنا پڑا تو یہی زینے ساتھ دیں گے، تب وہ گرتے ہیں اور ان کا گرنا اتنا دردناک ہوتا کہ ہے زمانہ کیلئے عبرت بن جاتے ہیں، وہ ناشکری کی مثال اور کہاوت بن کر زبان زَد ہوجاتے ہیں.
استاذ گرامی قدر فقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی مدظلہ نے اس طرف توجہ دلائی ہے، آپ رقمطراز ہیں:”انسان دوسرے انسان کو انسان سمجھنا چھوڑ دے اور کوئی ادنیٰ مخلوق تصور کرنے لگے یاخود اپنے آپ کو انسان سے بڑھ کر کوئی اور مخلوق خیال کرنے لگے تو دوسرے انسانوں کے غم کی چوٹ اپنے کلیجہ پر محسوس نہیں کرسکتا ، یہی چیز انسان کے مزاج کو غیر متوازن اور طریقۂ فکر کو نامنصفانہ بنا دیتی ہے، پھر انسان اپنے ماضی کو بھولتا چلا جاتا ہے اور جوں جوں وہ اپنے ماضی سے دور ہوتا جاتا ہے، کبر و تعلی بڑھتی جاتی ہے، اس لئے جب انسان دولت و ثروت، حکومت واقتدار اور شہرت وناموری کے بام پر چڑھنے لگے تو ہر زینہ پر قدم رکھتے ہوئے پچھلا زینہ اوراس زینہ کے نیچے بچھی ہوئی زمین کو دیکھتا جائے اور یاد رکھے کہ اس نے یہیں سے اپنا سفر شروع کیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی کے ہم نام فرمانروا حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ ہیں، ان کا نانہالی سلسلہ بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی سے ملتا ہے، رجاء بن حیوہ، حضرت عمر بن عبد العزیزرضی اللہ عنہ کے قدر شناسوں میں تھے، انھیں کے مشورہ سے باگِ خلافت آپ کو سونپی گئی تھی، زمانہ خلافت میں رجاء ایک شب آپ کے پاس مقیم ہوئے، ایک معمولی سا چراغ تھا جو روشن تھا، چراغ بجھنے لگا تو رجاء اُٹھے کہ چراغ درست کردیں، حضرت عمر بن عبد لعزیزرضی اللہ عنہ نے قسم دی کہ رجاء ہرگز نہ اُٹھیں، ناچار بیٹھ گئے، خلیفۃ المسلمین خود اُٹھے اور چراغ درست فرمایا، بنو اُمیہ کے ابتدائی دور ہی سے بادشاہان مملکت کی شوکت و سطوت جس طرح روز بروز بڑھتی جاتی تھی، اس کے تحت حضرت عمر بن عبد العزیزرضی اللہ عنہ کا یہ عمل نہایت باعث حیرت تھا، رجاء نے عرض کیا: آپ امیر المومنین ہونے کے باوجود چراغ درست کرنے کا کام کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میں جب اُٹھا تب بھی عمر بن عبد العزیز تھا اور جب واپس آیا تب بھی عمر بن عبد العزیز ہی تھا !!! حضرت عمر بن عبد العز یز نے امیر المومنین ہونے کے بعد بھی اس کو یاد رکھا کہ وہ ’’امیر المومنین‘‘ بعد میں ہیں، ’’عمر بن عبد العزیز‘‘ پہلے، اگر انھوں نے عمر بن عبد العزیز ہونے کی حیثیت کو بھلا دیا ہوتا تو ان کے لئے چراغ بجھانے کے لئے اُٹھنا اور خود اپنی ضرورت پوری کرنا دشوار ہوتا؛ لیکن ماضی کو یاد رکھنے نے ان کی زندگی کو ایک سادہ، بے تکلف اور تصنع سے خالی مومن کی زندگی بنا دیا تھا، یہ ایک ضروری وصف ہے جس کی قدم قدم پر ضرورت ہے، رشتہ داروں سے رشتہ باقی رکھنے کے لئے، دوستوں سے محبت کی فضاء قائم رکھنے کے لئے، اپنے ماتحت کام کرنے والے مزدوروں اور ملازمین کا دل جیتنے کے لئے اور سب سے بڑھ کر اس لئے کہ خدا کے یہاں اس کا شمار کبر کرنے والوں میں نہ ہو !” (شمع فروزاں -)

14/02/2021

Comments are closed.