ہاں ! مضبوط سرکارچاہئے

محمد ہاشم القاسمی
خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال
فون نمبر ۹۹۳۳۵۹۸۵۲۸
۲۰۱۴ ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی میں وزیر اعظم کے عہدہ کے امیدوار نریندر مودی صاحب نے اپنے ریلیوں میں بارہا یہ سوال کیا تھا کہ ’’ ہمارے بھائیوں، بہنوں اور متروں کیاآپ اس ملک میں کمزور سرکار چاہتے ہیں یا مضبوط سرکار ؟ آپ نے ستر سال کمزور سرکار دیکھے مجھے ایک بار موقع دیں میں آپ کو ایک مضبوط سرکار دونگا اور انہوں نے مضبوط سرکار کے بے شمار اوصاف گنوائے تھے ‘‘ ریلیوںمیں آئے ہزاروں لوگوں نے جواب دیا تھا ــ ــ’’ہمیں مضبوط سرکار چاہئے ‘‘اس وقت جن لوگوں نے مضبوط سرکار کی خواہش کا اظہار کیا تھا وہ سمجھتے تھے کہ مضبوط سرکارکا مطلب ایک ایسی سرکارہوگی جو ہر ہندوستانی کو پندرہ پندرہ لاکھ روپے دینے والی سرکارہوگی ،سال میں دو کروڑ جوانوں کو سرکاری نوکری دینے والی سرکارہوگی ،کسانوں کی آمدی دوگنی کر دینے والی سرکارہوگی ،جو بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ کی سرکار ہوگی ،کالا بازاری اور رشوت سے پاک صاف سرکار ہوگی،مہنگائی اور گھوٹالوں سے مکت سرکار ہوگی ، ایک ایسی سرکار ہوگی جو پاکستان کو لو لیٹر لکھنا بند کر کے اس کی آنکھ میں آنکھیں ڈال کر جواب دیگی ،ایک ایسی سرکار ہو گی جو چین سے لال آنکھ دکھا کر بات کریگی ، ایک ایسی سرکار ہوگی جس میں اچھے دن آئینگے ،ہر طرف ہریالی اور خوشیالی ہوگی ،ایک ایسی سرکار ہوگی جو واقعی وشو گرو کا کردار نبھائیگی، وغیرہ وغیرہ۔
چنانچہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکار بن گئی ،وزیر اعظم کا تاج نریندر مودی کے سر میں سجانے کے لئے حلف برداری کی تقریب نہایت تزک و احتشام کے ساتھ منعقد ہوئی اب ہندوستان کو ایک مضبوط سرکار کا مضبوط وزیر اعظم مل چکا تھا ، ایک سو پینتیس کروڑ ہندوستانی ہر دن ایک نئی امید لیکر صبح کرنے لگے کہ نہ معلوم کب ہمارے مقدر کا ستارہ چمک جائے ،دن گزرتے گئے امیدیں بڑھتی گئیں ابھی دو ہی سال گزرے تھے کہ ایک روز رات ۸ بجے وزیر اعظم نریندر مودی ٹی وی پر آکر اعلان کرتے ہیں کہ ــــ’’ آج رات بارہ بجے کے بعد پانچ سو اور ایک ہزار روپے کے نوٹ سادہ کاغذ کے مانند ہوجائینگے ، اور اس کے تین اہم فائدے گنائے (۱) سارا کالا دھن پکڑا جائیگا (۲) سارے فرضی نوٹ پکڑے جائینگے (۳) دہشت گردی اور نکسلزم ختم ہو جائینگا ‘‘ اور یہ تٔاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ کوئی کمزور سرکار ایسا کٹھن فیصلہ لینے کی جرأت نہیں کر سکتی ،اس طرح کا فیصلہ کوئی مضبوط سرکار ہی لے سکتی ہے۔
لیکن سچ تو یہ ہے کہ جہاں ایک طرف نوٹ بندی نے کسان ، نوجوان ،خواتین ، چھوٹے کاروباری اور دوکانداروں کی کمر توڑ ڈالی تو دوسری طرف کالے دھن والوں کی عیش ہوگئی جنہوں نے راتوں رات ساری نقدی کو سفید کرلیا ۔اب تک وزیر اعظم نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہے کہ سارا کالا دھن کہاں گیا ؟ ۱۰ ؍ دسمبر ۲۰۱۶ ء کو مودی حکومت نے ملک کے سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ ۴۴۔۱۵ لاکھ کروڑ پرانے نوٹوں میں تین لاکھ کروڑ کالا دھن ہے جو جمع نہیں ہوگا اور ضبط کرلیا جائیگا ،کیا وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کا جھو ٹ رنگے ہاتوں نہیں پکڑا گیا ؟تین لاکھ کروڑ روپے کا کالا دھن پکڑنا تو دور کی بات رہی ،حکومت آر بی آئی کے ریزرو کھاتے سے اربوں روپے نکال چکی ہے جو ۷۳ سالوں میں کبھی نہیں ہوا ،فرضی نوٹ کہاں گئے ؟ سال ۱۸۔۲۰۱۷ ء کی آر بی آئی رپورٹ کے مطابق ۴۴۔۱۵ لاکھ کروڑ روپے کے پرانے نوٹوں میں سے ۳۰۔۵۸ کروڑ کے نقلی نوٹ پائے گئے ، اس کا مطلب ۰۰۳۔۰ فیصد ، کیا حکومت بتائیگی کہ نقلی نوٹ کہاں گئے؟۔
۲۵ ؍ اپریل ۲۰۱۹ ء صداٹو ڈے کی ایک رپورٹ کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کراتا ہوں ’’ آٹھ نومبر ۲۰۱۶ ء کو بغیر سوچے سمجھے یا کسی بھی جانکار سے مشورہ کئے بغیر اچانک ملک کے دو بڑے پانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹ بند کر کے وزیر اعظم نریندر مودی نے جو غلطی بلکہ ملک کے عوام کے ساتھ گناہ کیا اس میں پھنسے عام لوگ آج تک نکل نہیں سکے ہیں ۔لوگوں کو گھروں سے نکال کر بنکوں کے دروازوں پر لائنوں میں کھڑا کردیا ،کروڑوں لوگوں کے روزگار چھن گئے ،سو سے زیادہ لوگ موت کے شکار ہوگئے ،نوٹ بندی کے وقت اور اس کے تقریباََ ایک سال تک وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک کی نوٹ بندی کے جو فائدے گنوائے ان میں ایک بھی فائدہ کسی کو حاصل نہیں ہوا ۔‘‘ عوام کو فائدہ ہو یا نقصان مضبوط سرکار کو اس سے کو ئی فرق نہیں پڑتا ۔
دوسرا بڑا فیصلہ جی ایس ٹی کا مانا گیا ، اس کا نفاذ بڑے دھوم دھام سے کیا گیا اور اس کے بھی بے شمار فائدے گنائے گئے ،لیکن آج تک اس کے ایک بھی فائدہ نہ حکومت کو ملا اور نہ ہی کاروباری کو آج بھی حکومت اس حقیقت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں جبکہ اس کی وجہ سے چھوٹے کاروباری کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ،بہت سارے کاروبار ٹھپ ہوئے اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا،مہنگائی دسترس سے باہر ہوگئی،مگر مضبوط سرکار ہونے کی وجہ سے کاروبار کا بند ہوجانا ،بے روزگاری میں اضافہ ہونا اور عوام کا مہنگائی سے پریشان ہونا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا ۔
تیسرا بڑا فیصلہ تین طلاق کا لیا گیا ،حکومت کا ماننا ہے کہ ہم نے اس کے ذریعہ مسلم خواتین کو انصاف دلایا جو ایک لمبے زمانہ سے مردوں کے ظلم کی شکار تھیں ۔اب تک کوئی بھی کمزور سر کار کے بس کی بات نہیں تھیں ،اس طرح کا بڑا فیصلہ تو ملک کا ایک مضبوط سرکار ہی لے سکتی ہے جو ہم نے لیا ۔
جبکہ اس کے خلاف لاکھو ں خواتین سڑکوں پر آگئیں اور ــ’’ ہم کو ایسا انصاف نہیں چاہئے ،یہ ہمارے اوپر ظلم ہے،یہ ہمارے پرسنل لاء پر کھلی مداخلت ہے ‘‘ کا نعرہ بلند کرتی رہیں ،ملک میں مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموں نے اس قانون کو واپس لینے کا دباؤ بنانے کی کوششیں کیں مگر چونکہ ملک کی مضبوط سرکار تھی نہیں مانی اور زبردستی ایک ناکردہ گناہ کی سزا تھوپا گیا۔
چوتھا بڑا فیصلہ سی اے اے ( سیٹیزن ایمٹمینٹ ایکٹ ) لاگیا ،اور پھر پارلیمنٹ کے دونوں ایوان میں ڈرامائی انداز سے اس کو پاس کروا لیا گیا اس پر پورا ہندوستان احتجاج میں اتھل پتھل ہوگیا ،سو دن سے زیادہ چلنے والا ’’ شاہین باغ‘‘ کا احتجاج کی گونج پو ری دنیا میں سنائی دی ، گویا احتجاج کا دوسرا نام شاہین باغ پڑگیا ہے،ہندوستان کا کوئی کونہ شایدہی بچا ہو جہاں اس بل کے خلاف احتجاج نہ ہوا ہو ۔مگر مضبوط سرکار کی آنکھ کا پانی سوکھ چکا تھا اور مضبوط سرکار کے زعم نے کوئی بھی آواز سننے سے بہرہ کردیا تھا اس لئے کچھ نہیں سنا اور اپنے ناجائز فیصلہ پر اٹل رہے ،یہاں تک کہ کرونا وئرس کی فضا عام ہوئی اور احتجاج کو روکا گیا اور ادھر حکومت بظاہر خاموش ہوئی ۔
پانچواں بڑا فیصلہ کشمیر کا خصوصی درجہ دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی کا لیا گیا جس کے نتیجے میں کشمیر کو پوری دنیا سے الگ تھلگ کردیا گیا ۔کشمیر کے بڑے نیتاؤں کو پیشگی قید میں ڈالا گیا ،پورے کشمیر کو ایک قید خانہ میں تبدیل کردیا گیا ، ایک دوسرے سے رابطہ کی سارے وسائل کاٹ دئے گئے ،گویا لوگوں کی زندگی کال کوٹھری میں ڈال دی گئی ۔اور یہ واضح کردیا کہ مضبوط سرکار ایسے اہم اور کٹھور فیصلہ لیا کرتی ہے۔
چھٹا بڑا فیصلہ نہایت عجلت میں لیا گیا لاک ڈاؤن تھا ،جبکہ کرونا وائرس کی وبا چین سے نکل کر کئی ملکوں تک اپنا اثر دکھانا شروع کردیا تھا ،ہندوستان کے ماہرین بار بار متنبہ کر رہے تھے کہ اس پر اتفاقِ رائے کرکے کچھ فیصلہ لیا جائے مگر حکومت کے اس وقت کئی اہم پروگرام تھے جس کو ملتوی کرنا آسان کام نہیں تھا ، جیسے ’’ نمستے ٹرمپ ‘‘ کا پروگرام جسمیں احمد آباد کے اسٹیڈیم میں لاکھوں لوگوں کو جمع کرکے اپنے جگری دوست ڈونل ٹرمپ کا استقبال کرنا تھا ،پھر دوسرا اہم کام مدھ پردیش کی کانگریس حکومت کی تابوت میں آخری کیل ٹھونک کر اپنی سرکار بنانا تھا وغیرہ وغیرہ ۔جب یہ سب کام پورے ہوگئے تب جاکر ملک کے وزیر اعظم ٹی وی پر آ کر اعلان کرتے ہیں ۔ اور وقت وہی آٹھ بجے کا ہوتا ہے ،کہ آج رات بارہ بجے سے پورے ملک میں لاک ڈاؤن کیا جاتا ہے ۔
جس میں لوگوں کو پانچ گھنٹہ بھی وقت نہیں دیا گیا اور پورے ہندوستان کو لاک کردیا گیا، گاڑیاں بند دکانیں بند بازار بند ،اسکول ، کالج ، یونیور سیٹیاں بند ،مندر ، مسجد ،گردوارے،چرچ بند گویا سب کچھ بند ،جس کی وجہ سے پورے ملک میں ہاہاکار مچ گیا ،ہر طرف افرا تفری مچ گئی ،بلا سوچے سمجھے لوگ سڑکوں پر نکل گئے،منزل سے بے خبر ہوکر بوڑھے بیمار کمزور ماں باپ اور معصوم ،نوزائدہ بچوں کو لے کرمرد عورت بچے جوان سب کے سب ہزار پندرہ سو کیلومیٹر کے سفر کے لئے بے یار و مددگار پیدل نکل پڑے ،راستے میں کہیں پولیس نے ڈنڈے برسائے اور کہیں انہیں اکھٹا کرکے سینیٹائزرسے نہلا دیا گیا ،بھوک اور پیاس کی شدت نے سیکڑوں جانیں لے لیں ،پیروں پہ چھالے پڑنا اس سے پہلے سنا تھا مگر لاک ڈاؤن کے زمانے میں لوگوں نے اس کا مشاہدہ کیا جو بہت دردناک صورتِ حال تھی،میڈیا میں اور خاص کر شوسل میڈیا میں سب کچھ دکھائے جانے لگا مگر حکومت نے اس کا کوئی ٹھوس حل نہیں نکالی ،اور عوام کو رونے بلکنے کے لئے یونہی ایک لمبے زمانہ تک چھوڑ دیا گیا،ہم سے تالی تھالی بجوایا گیا ، موم بتی ،دیا اور موبائیل کے ٹارچ جلوائے گئے ۔مگر مضبوط سرکار تھی اس لئے اس پر کوئی اثر ہونے والا نہیں تھا نہیں ہوا ،رضاکارانہ طور پر لوگوں نے چھپ چھپا کر کھانے پینے کا انتظام کیا چونکہ ہر طرف پولیس ڈنڈے لے کر دندناتے پھر رہی تھی، اور رحمد لی کرنے والوں پر بے رحمی سے پٹائی کی جا رہی تھی،ایک عجیب حالات تھیں جو نہ دنیا نے پہلے کبھی دیکھی تھی اور نہ ہی مستقبل میں شاید کبھی دیکھیگی، سال مکمل ہونے کو ہے مگر ابھی تک اس کی مار سے لوگ کراہ رہے ہیں ۔
ساتواںبڑا فیصلہ اس مضبوط سرکار کا لاک ڈاؤن کے زمانے میں آرڈیننس کے ذریعے تین زرعی قوانین ہیں ۔اس کا فائدہ شمار کراتے ہوئے کہا گیا کہ ’’ یہ قانون ایک ایسا نظام قائم کریگا جس میں کسانوں اور تاجروں کو کسانوں کی زرعی پیداوار کی خرید و فروخت کے سلسلے میں آزادی حاصل ہوگی ۔اس سے کسانوں کی زرعی پیداوار کو بلا رکاوٹ بین ریاستی اور ریاست کے اندر تجارت کو فروغ ملے گا اور ریاستی زرعی پیداوار کی مارکیٹنگ سے متعلق قوانین کے تحت قائم شدہ منڈیوں کی حدود کے باہر بھی تجارت کو بڑھاوا ملیگا ۔ یہ ملک میں بہت زیادہ منضبط زرعی منڈیوں کو کھولنے کی سمت میں ایک تاریخ ساز قدم ہے ۔
اس سے کسانوں کو زیادہ مواقع ملیں گے ،ان کی مارکیٹنگ کے خرچ کم ہونگے اور ان کو بہتر دام حاصل کرنے میں مدد ملے گی اس سے مختلف علاقوں کے کسانوں کی زائد پیداوار کے لئے بہتر دام ملیں گے اور جن علاقوں میں اشیاکی کمی ہوجائے گی وہاں دام کم رکھنے میں مدد ملے گی۔اس سے بل میں الیکٹرونک واسطے سے تجارت کرنے کے لئے لین دین کے پلیٹ فارم اور ای ٹرڈنگ کی بھی تجویز رکھی گئی ہے ۔
اس قانون کے تحت کسانوں کی زرعی پیداوار کی فروخت کے لئے کسی قسم کا ٹیکس یا محصول نہیں لیا جائیگا ۔ اس کے علاوہ کسانوں کی شکایات کے ازالے کے لئے ایک علٰحدہ نظام ہوگا ۔ایک بھارت ایک زرعی مارکیٹ ؛بنیادی طور پر بل کا مقصد اے پی ایم سی منڈیوں کے احاطوں سے باہر تجارتی مواقع پیدا کرنا ہے تاکہ زیادہ مسابقت کسانوں کو زیادہ دام مل سکیں ۔ یہ موجودہ ایم ایس پی خریداری نظام کا تتمہ ہوگا جو کسانوں کو مستحکم آمدی فراہم کرتا ہے ۔اس سے یقیناََ ایک بھارت ایک زرعی مارکیٹ بنانے کی راہ ہموار ہوگی اور ہمارے محنت کش کسانوں کو ان کی سنہری فصلیں یقینی بنانے کے لئے بنیاد فراہم ہوگی ۔کسانوں کو زرعی خدمت اور مستقبل میں زرعی پیداوار بیچنے کے لئے ایک منصفانہ اور شفاف طریقے سے زرعی کاروبار کی کمپنیوں ، زرعی پیداوار کو پروسس کرنے والے اداروں ،تھوک خریداروں ،برآمدکنندگان وغیرہ کے ساتھ کام کرنے کے لئے خود مختار کام کرنے کے لئے ہموار مواقع فراہم کرتے ہوئے اور استحصال کے خوف کے بغیر خود مختار بنائے گا ۔ یہ بازار کے غیر یقینی پن کے خطرے کو کسانوں سے ہٹا کر اسپانسر پر ڈال دیگا اور کسانوں کو جدید ٹکنالوجی کی رسائی اور بہتر آمدنی کے حصول کے قابل بنادے گا ۔یہ قانون بھارتی زرعی پیداوار کو قومی اور عالمی منڈیوں تک لے جانے کے لئے سپلائی چین بنانے اور زرعی بنیادی ڈھانچہ تیار کرنے میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری کو بھی راغب کرنے میں مدد کریگا ۔ کسان ٹکنالوجی کی رسائی اور مشورے حاصل کرکے ایسی پیداوار کے لئے بازاروں میں اترنے کے لئے تیار ہو سکیں گے ۔ کسان براہِ راست مارکیٹنگ کر سکیں گے جس سے بچولیوں کی ضرورت ختم ہوجائے گی اور پورے دام مل سکیں گے ۔ مذکورہ بل کے ذریعہ کسانوں کو مناسب تحفظ فراہم کیا گیا ہے ۔کسانوں کی زمین فروخت ، پٹّے اور رہن پر رکھنا مکمل طور پر ممنوع ہے،اور زرعی زمین کو کسی بھی طرح کی بازیابی سے تحفظ فراہم کیا گیا ہے ۔ تنازعات کے حل کے لئے موثرنظام کا التزام کیا گیا ہے اور ان کو نمٹائے جانے کے لئے واضح نظام اوقات کا التزام بھی کیا گیا ہے۔
ستمبر کے تیسرے ہفتے میں حکومت نے زرعی اصلاحات کے حوالے راج سبھا میں بل پیش کیا اور شور شرابے اور اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باوجود بل پا س کروا لئے گئے ۔اپوزیشن پارٹیوں نے صدر سے ملاقات بھی کی اور ان پر زور دیا کہ وہ ان قوانین پر دستخط نہ کریں لیکن صدر نے ان کی رائے کا احترام نہیں کیا اور نئی اصلاحات کے مسودہ پر دستخط کردئے۔
زراعت کا شعبہ پچھلے کئی سالوں سے احتجاج کرتا آرہا ہے ۔اب تک کئی ہزار کسان معاشی تنگیوں سے مجبور ہوکر اپنی جان گنواں چکے ہیں ۔ ان کے خاندان اس وقت بھی حکومت ِوقت سے امید رکھتے تھے ۔مذاکرات ہوتے تھے ،کسانوں کو سمجھا لیا جاتا تھا اور وہ اپنے گھروں کو لوٹ جاتے تھے ،لیکن اس مرتبہ شروع ہونے والے تازہ ترین ـــ’’ دہلی چلو‘‘ احتجاج میں اب تک سو سے زیادہ جانیں جانے کے باوجود کسان کسی طور پر رکتے نظر نہیں آ رہے ہیں ۔
ملک کی جی ڈی پی میں ۲۳ فیصد حصہ رکھنے والا شعبہ سڑکوں پر نکل آیا ہے اور جاڑے کے سخت دنوں میں ہزاروں کا مجمع پیدل ، ٹرکٹروں اور ٹریلیوں پر دہلی کے لئے نکل پڑا ۔ ایک طرف ہریانہ کی انتظامیہ اس جم غفیر کو دہلی میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتی تو دوسری طرف انتظامیہ کا لاٹھی چارج، آنسو گیس اور واٹر کینن بھی جاری رہا ،لیکن یہ سب اقدامات بھی انہیں قابو نہیں کر سکے اور انہوں نے بالآخر دہلی کی سرحد پر احتجاجی مقام رام لیلا گراؤنڈ سے ۲۰۰ کیلو میٹر دور سنگھو باڈر پر پڑاؤ ڈال دیا ۔ ہریانہ، یوپی وغیرہ کے کسانوں نے بھی اس احتجاج کا حصہ بنتے چلے گئے ۔ اب کیا عورتیں کیا مرد اور کیا بوڑھے اور بچے ، ان کسانو ں نے دہلی کی طرف جانے والے تینوں راستوں کو بند کر دیا ۔
۸۰ دنوں سے چل رہے یہ احتجاج اب ایک تحریک کی شکل اختیار کرچکا ہے ۔چند صوبوں سے نکل کر اب تقریباََپورے ملک میں پھیل چکا ہے ۔گیارہ بارہ مرتبہ کی بات چیت کا دور کسان اور حکومت کے درمیان ناکام ہوچکی ہے ۔کسان تینوں متنازعہ قوانین کو واپس لینے سے کچھ بھی کم پر رضامند نہیں ہیں ۔دوسری طرف حکومت نے بھی یہ واضح اشارہ دے دیا ہے کہ یہ قوانین کسی بھی صورت میں واپس نہیں لئے جائیں گے ۔تو اب ہم کو سمجھ میں آجانا چاہئے کہ نریندر مودی کے مضبوط سرکار دینے کا کیا مفہوم تھا ، اور ہم کیا سمجھ رہے تھے۔
ہم جسے سمجھا کئے ابرِ بہار وہ بگولے کتنے موسم کھا گئے
Comments are closed.