Baseerat Online News Portal

ویلنٹائن ڈے اسلام کی نظر میں 

ازقلم: جویریہ امانت (سیالکوٹ) 

14 فروری کا دن پوری دنیا میں ویلنٹائن ڈے(Valentine Day) کے نام سے منایا جاتا ہے۔ نئی نسل بے حیائی کے اس دن کو محبت کاعالمی تہوار مانتے ہیں۔ یوں تو آج کے اس دور میں جہاں حیا اور پردے کو جاہلیت اور کُند ذہنیت کہا جاتا ہے، یہاں ہر دن ویلنٹائن ڈے ہو گیا ہے۔ روز یہاں بنتِ حوا اپنی عزت داغدار کر رہی ہے، روز یہاں ابنِ آدم اپنی ہوس پوری کرنے کے ناجائز حربے استعمال کرتا پھرتا ہے لیکن ویلنٹائن ڈے کو مخصوص کر کے بے حیائی کا عالمی دن کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ مغربی ممالک، بھارت اور اب تو مسلم ممالک جن میں پاکستان جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کہا جاتا ہے، اس ملک کی نوجوان نسل بھی اس بے راہ روی کا شکار ہوگئی ہے۔قوم و ملت اور مذہب کی تقسیم کو کہیں بہت پیچھے چھوڑ کر لوگ اس تہوار کو بڑے جوش و خروش سے منانے لگے ہیں۔ اس دن کو محبت کے اظہار کا دن کہا جاتا ہے، تحائف بانٹے جاتے ہیں، خواتین و حضرات خصوصی ملاقات کے لئے جاتے ہیں۔ رومی تہذیب کے عشق کے نشان ’’سُرخ پھول‘‘ ایک دوسرے کو پیش کئے جاتے ہیں۔Cupid نام کے ایک پرندہ جس کے بارے میں رومی مشرکین کا عقیدہ تھا کہ وہ محبت کاخدا ہے اسکی تصویر کارڈز پر لگا کر اظہارِ عشق کیا جاتا ہے۔ عشق و محبت کی شاندار محفلیں سجائی جاتی ہیں، بدکاری کا ارتکاب ہوتا ہے، سرِعام بے حیائی کی ساری حدیں پار کر دی جاتی ہیں۔ اور پھول فروشوں اور رومانوی تحائف بیچنے والوں کی تو جیسے اس دن لاٹری نکل آتی ہو۔ یہ کاروباری حضرات دس دن پہلے ہی اپنا کاروبار جمانے کے لیے پھول اور تحائف مہنگے کرلیتے ہیں کہ بیمار ذہن لوگوں نے آنا ہے خریدنا ہے اُنکا رومانوی دن اِس کے بغیر ادُھورا جو ہوتا ہے تو جہاں ایک طرف لعنت کمائی جا رہی ہوتی وہاں دوسری طرف عزت بیچی جا رہی ہوتی ہے۔ اور کوئی نہیں اس کے ذمہ دار ہم سب ہیں اور ہمارا نام نہاد معاشرہ، جس میں میڈیا اور سوشل میڈیا سرِفہرست ہے

2017 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سرکاری سطح پر ویلنٹائن ڈے منانے اورمیڈیا پر اس کی تشہیر کرنے سےروک دیا ہے اور اسلام آباد کی انتظامیہ کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ عوامی مقامات پر ویلنٹائن ڈے نہ منایا جانے دے۔ یہ فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی نے ایک شہری عبدالوحید کی درخواست پر دیا۔درخواست گزار کا کہنا تھا پاکستان اسلام کے نام پہ بنا اور یہاں یہ تہوار منانا سراسر بےحیائی کی دعوت ہے اسلامی اقدار کے خلاف ہے اور مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں اور عدالت ایسے تمام عوامل کو روکنے کا اختیار رکھتی ہےجو مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائے۔ نامہ نگار شہزاد ملک نے بتایا کہ قانونی ماہرین کے مطابق پاکستان میں اس سے پہلے ویلنٹائن ڈے کو منانے سے روکنے سے متعلق کسی عدالتی حکم نامے کی نظیر نہیں ملتی۔کچھ نام نہاد لبرل پارٹی نے اس کی مخالفت بھی کی اور نجی سطح پر منایا بھی، البتہ سرکاری سطح پر پابندی عائد کردی اور ٹی وی چینلز کو نشر کرنے سے بھی روکا گیا۔

تہوار کسی بھی مذہب کا خاصہ ہوتے ہیں اور ہمارا تہوار عیدین ہیں۔ اسلام ایک مکمل باضابطہ حیات ہے جہاں آغاز سے رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے رہنمائی ہے، یہ الگ بات ہے کہ امتِ مسلمہ اب رہنمائی کا یہ بوجھ اُٹھانے کو تیار نہیں! ہمارے تہوار ہمارا کُل اثاثہ ہیں کسی دوسرے تہوار کی کوئی گنجائش نہیں اور خاص طور پہ مشرکین اور کافرین کے تہوار اپنانا ہمارے مسلمان ہونے پہ سوالیہ نشان ہے۔ ہمیں ایسے تمام تہواروں سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے جس کا تعلق کسی مشرکانہ یا کافرانہ رسم سے ہو، ہر قوم کا ایک الگ خوشی کا تہوار ہوتا ہے، اور اسلام میں مسلم قوم کے لئے واضح طور پر خوشی پر مبنی تہوار عیدین ہیں۔ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالفطر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ:

’’یَا أبابَکر ان لکل قوم عیدا و ھذاعیدنا‘‘ (صحیح بخاری، رقم: ۹۰۴)

اے ابوبکر ہر قوم کی اپنی ایک عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے۔

ویلنٹائن ڈے منانے کا مطلب مشرک رومی اور عیسائیوں کی مشابہت اختیار کرنا ہے۔ اور کسی قوم کی مشابہت اختیار کرنا اسی قوم میں سے ہونے کے مترادف اور برابر ہے۔رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’من تشبه بقوم فھو منھم‘‘ (سنن ابی داؤد، رقم: ۳۵۱۲)

جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہے۔

سورۃ المجادلۃ کی آیت ۲۲ میں ہے کہ:

«لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ»

’’تم نہ پاؤگے ان لوگوں کو جو یقین رکھتے ہیں اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر کہ دوستی کریں ان سے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مخالفت کی اگرچہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان والے ہوں۔‘‘

تہوار کی حقیقت، اس کے پس منظر اور اس کے ساتھ وابستہ تاریخی روایات سے کم ہی لوگ واقف ہے، اور اکثر لوگ تو جاننا بھی نہیں چاہتے۔ لیکن امتِ مسلمہ چنانچہ حق و باطل اور صحیح و غلط کی تمیز سکھانے والی امت کا نام ہے۔ ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ سراسر بے حیائی ہے جس کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری عالمی برادری کو صحیح رہنمائی دی جائے۔ اسلامی روایات کی پاسداری کی جائے، اسلامی تعلیمات کو زندہ رکھنے کیلیے اقدامات کئے جائیں اور اِس دن کو یومِ حیا کے طور پر منایا جائے تاکہ آنے والی نسلوں میں 14 فروری کے نام پر کسی گندے دن کا خیال نہ آئے۔ 14 فروری کو جو نام نہاد ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے اور اسلامی روایات کی پاسداری نہ کرتے اسلام مخالف کام کیے جاتے ہیں، عالمی برادری کو پیغام دیں کہ اسلام اور پاکستان کا اس سے کوئی تعلق نہیں نہ ہم اسکے حق میں ہیں اپنی روایات اپنے تک رکھیں امتِ مسلمہ اسکی سخت مخالف کرتی ہے۔ چناچہ دنیا فساد سے محفوظ رہ کر امن و سکون کا گہوارہ بن سکے۔‌ اللہ تعالیٰ دینِ اسلام کی حفاظت فرمائے۔

Comments are closed.