جامع مسجد مولاناکمال دھارکی زیارت (قسط نمبر 5)

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی

(مہدپور، اجین، ایم پی)

قاضی عبدالقدوس صاحب کی کتاب پر ریسرچ کی ضرورت

قاضی عبد القدوس صاحب فاروقی کو مولانا اسحق جلیس ندوی مرحوم نے اس علاقہ کی تاریخی معلومات کے سلسلے میں ”چلتے پھرتے انسائیکلو پیڈیا “ قرار دیا ہے۔
(تحفہ انسا نیت[حدیث مالوہ]ص177/ [سفرنامہ حضرت مولانا ابو الحسن علی ندیؒ] مرتب:مولانا اسحق جلیس ندوی،مجلس تحقیقات ونشریا ت اسلام لکھنؤ1413ھ مطابق1992ء)
کچھ لوگوں نے بتایا کہ جس طرح بابری مسجد کے سلسلے میں مسلمانوں نے مسجد کی قانونی تعمیر کے لیے طاقتور ثبوت وشواہد پیش کیے تھے۔ اُس طرح ”جامع مسجد مولانا کمال“ کے سلسلے میں دستاویزی ثبوت وشواہد پیش کرنے سے مسلمان قاصر ہیں۔ میں تحقیق کاروں (Academicians and scholars)
اور قانونی ماہرین( Lawyers)
کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ قاضی عبد القدوس فاروقی کی کتاب ”مالوہ کی کہانی تاریخ کی زبانی“ سے کافی مواد حاصل ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ اس کتاب کے ماخذ(Reference)
میں تقریبا دس انگریزی دستاویزات وکتب شامل ہیں جو برٹش حکومت کے قوانین و ہدایات کے مطابق لکھی اور مرتب کی گئی ہیں۔ نیز تقریبا31/اردو، فارسی اور ہندی کی ایسی کتب سے استفاد کیا گیا ہے، جن کے مصنفین کسی نہ کسی لحاظ سے حکامِ وقت کی ہدایات کے پابند تھے۔ لیکن اس کتاب پر نئے سر سے تحقیق کی ضرورت ہے؛ کیوں کہ اس کتاب میں پیش کیے گئے شواہد کا حوالہ کہیں بھی نہیں دیا گیا ہے۔ جدید اصول تحقیق میں بقید صفحات، کتاب ومصنف کے اسماء اور سن طباعت کو نہ لکھنا بڑی معیوب بات مانی جاتی ہے۔(میں نے”لاک ڈاؤن کی یادداشت“ میں اس کتاب پر بھی تبصرہ لکھا ہے۔ جس میں کتاب کی اس کمزوری کو ذکر کیا ہے۔)
اگر اس کتاب پرنئے سرے سے تحقیقی کام ہوجائے تو”جامع مسجد مولاناکمال“ اور مسلم حکمرانوں پر لگائے جانے والے لغو الزامات کی تردید میں بے شمار شواہد تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔ع

مَیں کہ مری غزل میں ہے آتشِ رفتہ کا سُراغ
میری تمام سرگزشت کھوئے ہُوؤں کی جُستجو
(علامہ اقبالؒ)

جاری۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments are closed.