بیٹی

ازقلم میمونہ لیاقت
(خوشاب)
بیٹی کیا ہے؟ بیٹی اللہ کی خاص رحمت ہے۔ بیٹی کی ذات اگر مقدس نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ کبھی ہمارے نبی ﷺ کی اولاد کا سلسلہ حضرت فاطمہؓ سے شروع نہ کرتے۔ نبی پاکﷺ نے فرمایا! جس شخص کی بیٹیاں ہوں اسے برا مت سمجھو۔ کیونکہ میں بھی ایک بیٹی کا باپ ہوں۔ بیٹی ماں باپ کے آنگن میں پھول بن کر کھلتی ہے۔باپ ایک شجر ہے۔ اور اسی شجر کا پھل۔ ایک بار حضرت موسیٰ نے اللہﷻ سے پوچھا! اے اللہﷻ! جب آپ اپنے بندے سے خوش ہوتے ہیں تو کیا عطا کرتے ہیں۔اللہﷻ نے فرمایا! بیٹی۔ آپ نے پھر پوچھا! اگر آپ اپنے بندے سے اس سے زیادہ خوش ہوتے ہیں تو کیا عطا کرتے ہیں۔ اللہﷻ نے فرمایا! دوسری بیٹی آپ نے پھر پوچھا کہ اگر آپ اپنے بندے سے اس سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں تو کیا عطا کرتے۔اللہﷻ نے فرمایا ! تیسری بیٹی عطا کرتا ہوں۔ سبحان الله کیا شان ہے بیٹی کی۔ حدیثِ پاک میں ہے: نبی کریمﷺ نے فرمایا! جس شخص نے تین بیٹیوں کی پرورش کی، انہیں ادب سکھایا، ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ احسان کا معاملہ کرتا رہا، تو اس کے لیے جنت ہے۔ جب کسی کے گھر میں بیٹی پیدا ہو تو مایوس مت ہوں۔ جس نے بیٹی دی۔ رزق بھی وہی دیتا ہے۔ نبی پاکﷺ نے فرمایا! جب کوںٔی لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے لڑکی تو زمین پر اتر میں تیرے باپ کی مدد کروں گا۔ نبی پاکﷺ فرماتے ہیں: عورت کے لیے یہ بہت ہی مبارک ہے کہ اس کی پہلی اولاد بیٹی ہو۔ بیٹی وہ پھول ہے جو ہر باغ میں نہیں کھلتا۔ اولاد کے لیے جو بھی چیز گھر لاٶ پہلے بیٹی کو دو۔ بیٹی رحمت کا دروازہ ، بخشش کا ذریعہ اور جہنم کی ڈھال ہے۔ نبی پاک ﷺ کا فرمان ہے: جس کے گھر بیٹی پیدا ہو اور وہ اسے ایذا نہ دے اور نہ برا جانے اور نہ ہی بیٹے کو بیٹی پہ فضیلت دے تو اللہﷻ اس شخص کو جنت میں داخل فرمائے گا۔ جو شخص بیٹیوں کی وجہ سے آزمایا گیا پھر وہ انکی اچھی تربیت کرے تو قیامت کے دن یہ بیٹیاں اس کے لیے جہنم سے آڑ بن جاٸیں گی۔ ایک ماں کے لیے سب سے قیمتی خزانہ اس کی بیٹی ہے۔ بیٹیاں ماں کی پرچھاںٔی ہوتی ہیں۔ ایک بیٹی کی سب سے اچھی دوست اس کی ماں ہوتی ہے۔ زمانے بھر کی ساری نعمتیں موجود ہوں۔ لیکن اگر بیٹی نہ ہو تو گھر اچھا نہیں لگتا۔ بیٹیاں باپ کا درد سمجھتی ہیں، ماں کے آنسو پونچھتی ہیں، بھاٸی کے دکھ لے کر اپنے سکھ لُٹا دیتی ہیں۔ بیٹی کا بہترین محافظ اسکا اپنا باپ ہوتا ہے۔ بیٹیاں اپنے باپ کا غرور ہوتی ہیں۔ باپ اور بیٹی کی ایک عادت مشترکہ ہوتی ہے، دونوں کو اپنی گڑیا سے بہت پیار ہوتا ہے۔بیٹیاں بڑی ہو جاںٔیں تو شک کی دیوار اونچی کرنے کی بجائے محبت کی رسی کو دراز کر لینا بہتر ہوتا ہے کیونکہ محبت کی لگام تربیت پر آنچ نہیں آنے دیتی۔صورت سانولی ہو یا پھر چاند سی ، ہمیشہ اپنے ماں باپ کے لیے شہزادیاں اور پریاں ہی ہوتی ہیں۔آپ اپنی بیٹی کو بیٹا کہہ کر بھی پکار سکتے ہیں مگر اپنے بیٹے کو کبھی بیٹی کہہ کر نہیں پکار سکتے۔اگر ماں باپ کو اللہ تقدیر لکھنے کا موقع دیتا تو وہ اپنی بیٹی کی تقدیر میں دنیا جہاں کی خوشیاں لکھ دیتے۔ اللہ سے بیٹیاں بہت کم لوگ مانگتے ہیں اور جو مانگتے ہیں وہ پہلے بیٹی کا اچھا نصیب مانگتے ہیں۔ کیونکہ ڈر بیٹی سے نہیں اس کے نصیب سے لگتا ہے۔ بیٹیاں تو پریوں جیسی ہوتی ہیں، اللہ کی رحمت بن کر ماں باپ کے آنگن میں اترتی ہیں، اپنی باتوں سے اپنی چہکار سے آنگن کو مہکاتی اور رونق بخشتی ہیں۔ اور پھر ایک چلی جاتی ہیں، کسی اور کے آنگن کو رونق بخشنے۔ پریاں بھلا ہمیشہ کب ساتھ رہتی ہیں۔ یہ پریاں تو بس کچھ دیر کے لیے بیسرا کرتی ہیں لیکن اپنی خوشبو اور یادیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ جاتی ہیں۔ بیٹیوں کا دکھ سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ان کے لیے تو اس گھر میں ہی جگہ نہیں رہتی جہاں وہ پیدا ہوتی ہیں۔ بیٹیاں جب بڑی ہو جاتی ہیں تو پھر اپنے دکھ نہیں بتایا کرتی۔ جو بیٹیاں سر جھکا کر چلتی ہیں ان کے ماں باپ کا سر کبھی نہیں جھکتا۔ بیٹیاں اپنی خواہشیں دل میں چھپا کر، سر کو جھکا کر اپنے والدین کے ہر حکم کو آنکھوں پہ سجا لیتی ہیں۔ بیٹی جب سسرال جاتی ہے تو پھر بہت کچھ اپنے ماں باپ سے چھپاتی ہیں۔ بیٹی سب کچھ چھوڑ کر اپنے سسرال جاتی ہے پھرجب گھر کی یاد آتی ہے تو چپکے سے روتی ہے کسی کو کچھ نہیں کہتی۔ وہ بیٹیاں تم جس کے ہاتھ میں ان کا ہاتھ دے دو وہ اف کیے بغیر تمہاری پگڑیوں اور داڑھیوں کی لاج رکھنے کے لیے ان کے ساتھ ہو لیتی ہیں۔ سسرال میں جب میکہ یاد آۓ تو چھپ چھپ کر رو لیتی ہیں۔ کبھی دھوٸیں کے بہانے تو کبھی آٹا گوندھتے آنسو بہتے ہیں وہ آٹے میں جذب ہو جاتے ہیں، کوںٔی نہیں جانتا کہ ان روٹیوں میں اس بیٹی کے آنسو بھی شامل ہیں، غیرت مندوں! ان کی قدر کرو یہ آبگینے بڑے نازک ہیں۔
چڑیاں ہوتی ہیں بیٹیاں مگر پنکھ نہیں ہوتے بیٹیوں کے
میکے بھی ہوتے ہیں سسرال بھی ہوتے ہیں مگر گھر نہیں ہوتے بیٹیوں کے،
میکہ کہتا ہے بیٹیاں پراٸی ہیں، سسرال کہتا ہے پراۓ گھر سے آٸی ہیں،
اے خدا! اب تو ہی بتا یہ بیٹیاں کس گھر کے لیے
بناٸی ہیں۔
Comments are closed.