کتاب بہترین دوست

 ایمن عائشہ

انسان زندگی گزارنے کے لیے دوستوں کا سہارا لیتا ہے۔ اپنے غموں اور دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے ہمدرد تلاش کرتا ہے۔ اپنی خوشیوں کو بانٹنے کے لیے دوست بناتا ہے۔ اپنی کامیابیوں کی داد وصول کرنے کے لیے مخلص دوست چنتا ہے۔ اپنی تنہائی کو مٹانے کے لیے بہترین دوست کی تلاش میں گامزن رہتا ہے۔ لیکن یہ دوست تو ملتے ہیں اور بچھڑ جاتے ہیں۔ یہی کائنات کا اصول ہے۔ زندگی جو کانٹوں کی سیج, دکھوں سکھوں کی مالا ہے، اس میں سب سے مخلص دوست ” کتاب” ہے۔ 

کتاب اور انسان لازم و ملزوم ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کتاب نے ہر دور میں انسان کے تجربات و مشاہدات کو محفوظ کر کے جنگ میں بھی ہتھیاروں کا کام سر انجام دیا۔ انسان کا اس سے ناطہ فطری ہے۔  بحثیت مسلمان ہمارے لیے سب سے عظیم کتاب ” قرآن مجید” ہے۔ جو ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ جس میں زندگی کے ہر پہلو کو بہترین انداز میں گزارنے کا طریقہ درج ہے۔ اگر ہم اس کتاب پہ عمل کریں تو زندگی کو آسان اور پرسکون بنا سکتے ہیں۔
کتابیں ایک آئینہ ہیں جو ماضی کے خیالات و افکار، جذبات و احساسات، تجربات و مشاہدات کی عکاس ہوتی ہیں۔ جن کی بدولت ہم گم نام ہستیوں کو جان سکتے ہیں۔ گم نام شاعر اور ادیب انہیں کتابوں کی بدولت زندہ و جاوید نظر آتے ہیں۔ عظیم تاریخ سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔ کتابیں ایک مرکز پر رکنے کی بجائے انسان کے لیے بہتر سے بہتر سفر کا باعث بنتی ہیں۔ اچھی کتابوں کے مطالعے سے انسان کے دماغ کی گرہیں کھل جاتی ہیں، ان رازوں سے پردہ فاش ہونے لگتا ہے جن کا تصور بھی نہیں کر سکتا انسان اور پھر وہ ہر شے کو نئے انداز سے محسوس کر سکتا ہے۔ اپنا ایک نظریہ، نقطۂ نظر رکھتا ہے، تنقیدی نگاہ سے ہر شے کو دیکھنے کا ہنر سیکھ لیتا ہے، اپنی اور دوسروں کی اصلاح کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
عظیم لوگ وہ ہیں جو اپنے معمولات میں کتاب کے مطالعے کو شامل کرتے ہیں۔ اس کو مخلص دوست ہونے کی حیثیت سے وقت دیتے ہیں اور پھر بدلے میں بے حد فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کتاب زندگی کی وہ رفیق ہے جو ہمہ وقت شفیق ہے۔ اچھی کتاب تنہائی کی بہترین ساتھی، ہمدرد، خیر خواہ اور سکون کا باعث بنتی ہے۔
کتب بینی سے ہی انسان کو زندگی گزارنے کا سلیقہ آتا ہے۔ ذہنی ارتقاء میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ انسان کو اچھائی اور برائی میں تمیز سیکھاتی ہے۔ اس کو دونوں راستوں کا فرق، اور ان پر چلنے کا نفع نقصان سمجھاتی ہے۔
کتاب ماضی سے رشتہ جوڑ کر حال اور مستقبل کو بہتر بنانے کا سلیقہ بتاتی ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس قسم کی کتابیں ان تمام فوائد کا باعث ہیں۔ مذہبی کتابیں انسان کو روحانی سکون مہیا کرتی ہیں۔ اس کے لیے مشکل سے مشکل حالات میں راہ نکالنے کا باعث بنتی ہیں۔ انسان کے ذہن کو زرخیز کر دیتی ہیں۔ وہ اچھے برے کے درمیان بہترین فیصلہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اس کی شعور کی حس وسیع سے وسیع تر ہو جاتی ہے۔ ادبی و معاشرتی کتابوں کے مطالعے سے انسان وقت کی کروٹوں کو بھانپ سکتا ہے۔ معاشرتی رویوں سے آگاہ ہو سکتا ہے، اس طرح انسانی رویوں، رشتوں کی پہچان اور شناخت کرنے میں مدد ملتی ہے۔
ہر انسان اپنے کردار سے پہچانا جاتا ہے۔ کردار سازی میں کتاب معاون ثابت ہوتی ہے۔ لیکن دورِ حاضر پر نظر دہرائی جائے تو بہت مایوسی کا سامنا ہوتا ہے۔ لوگ موبائل، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا سے اس قدر جڑ چکے ہیں کہ کتاب تو پس پشت نظر آتی ہے۔ یونیورسٹیوں اور کالجز کی لائبریریاں سنسان نظر آتی ہیں۔ کتاب خریدنے کا شوق تو دور کی بات کتاب کا مطالعہ کرنے سے بھی کتراتے ہیں۔ یہی وجہ ہے ہم لوگوں کو اخلاق و کردار سے عاری پاتے ہیں۔ عصرِ حاضر میں ہم جن مسائل کا شکار ہیں اس کا بہترین حل کتب بینی میں ہے۔اچھے اخلاق، اچھے کردار اور نیک اعمال کا فروغ کتب بینی میں ہی مضمر ہے۔ کتاب ایک عظیم انسان کی شخصیت کا لباس ہے۔ وہ اپنی شخصیت کا نکھار مطالعہ کتب سے حاصل کرتا ہے۔
دنیا کے کئی ممالک میں طالب علموں کے لیے مطالعہ کتب ضروری ہے۔ وہ کوئی نا کوئی کتاب ایک ہفتے میں لازمی پڑھتے ہیں۔ انگلستان میں 15 گھنٹے روزانہ مطالعہ کیا جاتا ہے۔ جاپان اور کینیڈا میں ہر طالب علم کے لیے لازم ہے کہ وہ ہر روز 15 صفحات کا مطالعہ کرے۔ مگر افسوس ہمارے پاکستان میں ایسی پابندی نہیں ہے۔ آج کے طالب علم کا رشتہ کتاب سے زیادہ موبائل سے مضبوط نظر آتا ہے۔ لائبریریوں میں کتابیں خالی آنکھوں سے طالب علموں کی راہ دیکھتی رہتی ہیں۔
اگر ہمیں تعلیمی دور میں ترقی یافتہ بننا ہے، اپنے کردار و عمل کو مثال بنانا ہے تو ضروری ہے ہم کتابوں سے رشتہ استوار کریں، کتب دوستی کو فروغ دیں۔ کتاب کو اپنا مخلص دوست سمجھ کر پڑھیں اور اس سے بھرپور استفادہ حاصل کریں۔
میں نے اپنی اب تک کی گذشتہ زندگی میں کتاب سے بہترین دوست کوئی نہیں پایا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کی بہترین کتابوں سے دوستی قائم کرے۔ آمین

Comments are closed.