اردو کی بقاء کے لئے جاری جد وجہد کا حصہ بنیں

ارشد فیضی قاسمی
ڈائریکٹر اسلامک مشن اسکول جالے
موبائل نمبر: 9708285349
…………………………………………………………
گرامی قدر ایڈیٹر صاحب ۔۔۔۔۔السلام علیکم
دن رات کے بدلتے حالات نے ذہن میں کئی ایسے عنوان کو جگہ دے دیا ہے جن پر گفتگو کی بروقت ضرورت تھی لیکن سر دست جس معاملے کے پورے ملک خاص کر بہار کا دانشور طبقہ ان دنوں کافی پریشان ہے وہ اردو زبان کی بقاء کا ہے،امارت شرعیہ پٹنہ سے لے کر کئی چھوٹی بڑی تحریکیں اس موضوع کو لے کافی فکر مند ہیں،اس لئے دل چاہا کہ اس مناسبت سے آپ کو دل کا احساس لکھ بھیحوں،شاید یہ پیغام نئی نسل کے اندر نئی روح ڈالنے میں معاون بنے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حقیقت سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے کہ اردو ہمارے ہندوستان کی قدیم گنگا جمنی تہذیب وروایت کا نہ صرف ایک اہم حصہ اور اس کے وقار واعتبار کی علامت ہے بلکہ اس زبان سے ملک کے وجود واستحکام اور اس کی تعمیر و ترقی کے اتنے یادگار اور تاریخی واقعات وابستہ ہیں جنہیں نظر انداز کر کے آگے نہیں بڑھا جا سکتا،بلکہ یہ کہنا بہت مناسب ہوگا کہ جب سے اس زبان نے ہندوستان کی پر امن سرزمین پر قدم رکھ کر اپنے سفر کی شروعات کی ہے اس وقت سے لے کر آج تک جب اور جس سطح پر بھی ضرورت پیش آئی اس زبان نے ہندوستان کی آبرو کو بچانے اور یہاں اخوت وہمدردی کا ماحول پیدا کرنے میں اپنی ذمہ داری کا ثبوت پیش کیا اور اس طویل تاریخی دور میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس ملک کی اجتماعی ضرورتوں کو نظر انداز کر کے اس زبان نے اپنا قدم پیچھے کھینچ لیا ہو یا ہندوستان کے مفادات سے جڑی کسی اہم ضرورت کو تسلیم کرنے اور اس کے مطابق قدم بڑھانے سے اس زبان نے انکار کر دیا ہو، اسی لئے مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر آزادی کی طویل تاریخ میں اس زبان نے اپنی ذمہ داری کا ثبوت نہ دیا ہوتا اور اردو داں طبقہ کی جانب سے مستحکم پیش رفت نہ کی جاتی تو شاید ہندوستان کی آزادی کا خواب بھی کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوپا تا اور نہ ہی اسے ترقی کی وہ سمت مل پاتی جو اس کے مقدر میں آئی ،کیونکہ اس حقیقت سے ہر کوئی واقف ہے کہ آزادی کی جنگ کے دوران "انقلاب زندہ باد” اور "سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے” کا وہ نعرہ جس نے ہندوستانی باشندوں کے اندر آزادی کا جوش و جذبہ پیداکر کے حصول آزادی کی مہم کو ایک اہم سمت دی تھی اور جس نے پوری ہندوستانی قوم کو ایک اتحادی لڑی میں پرو کر انہیں اپنے ملک کی آزادی کے لئے فیصلہ کن جنگ کا حصہ بننے پر مجبور کیا تھا وہ اسی زبان کی دین ہے ۔
اس زبان کی تاریخ سے جڑی سچائیوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس زبان نے جب سے اس ملک کی بیشتر زبانوں کے بیچ اپنی موجودگی کا احساس دلایا اس وقت سے لے کر آج تک پوری احساس ذمہ داری کے ساتھ نہ صرف بحیثیت زبان اپنا فرض نبھانے میں مصروف ہے بلکہ اس زبان سے وابستہ شعراء ،ادبا،سوانح نگار ،تبصرہ نگار ،تجزیہ نگار ،افسانہ نگار ،ناول نگار سمیت سینکڑوں اردو اخبارات ورسائل اور افراد نے اپنی اپنی دلچسپی کے مطابق اس زبان کے حوالے سے ہندوستان کے وقار واعتبار کی بحالی میں جو عظیم کارنامے انجام دئے وہ بذات خود اس زبان کی اہمیت ومعتبریت کا یقین دلانے کے لئے کافی ہیں۔یہی وہ زبان ہے جسے نہ صرف بابائے قوم نے اپنی پسند بنایا بلکہ حسرت موہانی،فراق گورکھپوری،مجاز لکھنوی ،اشفاق اللہ خان،منشی پریم چند،منٹو،مولانا آزاد ،علی عباس حسینی، کرشن چندر، عصمت چغتائی اور راجندر سنگھ بیدی، پنڈت دیا شنکر نسیم ، پنڈت برج نرائن ، چکبست، پنڈت جگن ناتھ آزاد ،دیا نرائن نگم ، گیان چند جین،گوپی چند نارنگ،رام نرائن موزوں،کالی داس گپتا،مالک رام ، ماسٹر رام چندر،درگا پرساد سمبل اور علامہ اقبال جیسے ہزاروں ادیبوں اور شاعروں نے بھی اس زبان کی انگلی پکڑ کر زندگی کے سفر میں چلنے کا ہنر سیکھا ہے،اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں اردو زبان کے عروج کی قابل رشک تاریخ ملتی ہے کیونکہ بات چاہے اس ملک کی آزادی کی ہو یا اس کے جمہوری اقدار کے استحکام کی ہر جگہ اس زبان کے ناقابل فراموش خدمات کے نمایاں نقوش نظر آتے ہیں۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ اردو کے فروغ میں ہندوستان کی مختلف ریاستوں کی قابل اعتبار حصہ داری و نمائندگی رہی ہے اور ان ہی کی کوششوں سے آج تک یہ زبان مسلسل خود اعتمادی کے ساتھ نہ صرف اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے بلکہ عام بول چال سے لے کر مدارس و مکاتب اور اسکول وکالج کے نصاب کا حصہ بن کر اپنا ترقیاتی سفر جاری رکھنے میں کامیاب ہے ۔لیکن اگر صوبہ بہار کے حوالے سے اردو کی تعمیر وترقی کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے سامنے یہ تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے جس زبان نے اس ریاست کو ایک انفرادی شناخت عطا کی تھی وہ آزادی کے بعد سے لے کر ابتک مسلسل حکومت کی متعصبانہ سازش کا شکار ہوکر اپنی بدحالی کا شکوہ کر رہی ہے ،اردو کو بہار کی دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہونے کے باوجود اس پر تعصب کی ایسی دبیز چادر ڈال دی گئی ہے کہ اس نے اس زبان کے شاندار مستقبل پر کئی طرح کے سوالیہ نشان لگا دئے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر یہی صورت حال قائم رہی تو یہ زبان کسی بھی وقت دم توڑ کر تاریخ کا حصہ بن جائے گی ۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ آج بھی اردو زبان بہار کی دوسری سرکاری زبان ہونے کے حق کے ساتھ جانی پہچانی جاتی ہے اور اس کے لئے تمام سر کاری ونیم سرکاری اداروں میں اردو کے وقار واعتبار کی بحالی کے لئے مختلف نوعیت کے قابل ذکر شعبے بھی قائم ہے مگر اسی کے ساتھ سچ کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس وقت اس زبان کو خالص مسلمانوں کی زبان قرار دے کے اس کے وجود کو مٹادینے اور اپنے ہی گھر میں اسے بیگانہ بنا دینے کی ایسی گھناونی سازشیں رچی جارہی ہیں جسے کسی بھی اعتبار سے مناسب یا حق بجانب نہیں کہا جا سکتا ،اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ آج نہ صرف بیشتر تعلیمی ادارے حکومت کی غیر ذمہ دارانہ پالیسی کے سبب قابل واردو کے تجربہ کار اساتذہ سے خالی ہوتے جارہے ہیں بلکہ ان میں اردو کےساتھ برتی جارہی ناانصافی بذات خود ایک سوال بن کر کھڑی ہے ۔اور اگر کہیں بعض اداروں میں اس کا وجود قائم ہے تو اس کی حیثیت آٹے میں نمک سے زیادہ نہیں ادھر اردو داں طبقہ بلکہ اردو کی روٹی کھانے والے افراد نے بھی اس زبان کے وجود وبقا کے سامنے آہنی دیوار کھڑ ی کر دی ہے عوام وخواص سے بھی اردو کا رشتہ افسوسناک حد تک کمزور ہوتا جارہا ہے ،اردو تعلیم کے حوالے سے اسکول و کالج کی حالت بھی دگر گوں ہے جن اداروں میں کل تک اردو کی آوازیں گونجا کرتی تھیں آج ان پر مایوسی ،افسردگی اور بے اعتمادی کی چادر پڑی ہوئی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ قوم کی نئی نسل اور اردو زبان کے بیچ کے فاصلے دن بدن وسیع سے وسیع تر ہوتے جارہے ہیں ،کل تک جن تعلیم گاہوں میں درس وتدریس کی زبان اردو تھی آج وہاں ہندی انگریزی کے ساتھ دوسری زبانوں کی حکمرانی ہے اور بس یہی نہیں بلکہ معصوم بچوں کے تھیلیوں اور بیگوں سے بھی اردو کی کتابیں دن بدن غائب ہوتی جارہی ہیں ،اب سرکاری ،نیم سرکاری اور پرائویٹ اداروں میں اردو کی کتابیں نصاب کا حصہ سمجھ کر نہیں بلکہ مجبوری کے تحت داخل کی جارہی ہیں غرض یہ کہ جس بہار نے بڑی محبت اور خود اعتمادی کے ساتھ اردو کی پروش کی تھی اور اسے اپنی گود میں آرام کی سانس لینے کا موقع دیا تھا اسی کی چہار دیواری سے اردو کو نکال باہر کردینے کا متعصبانہ کھیل جاری ہے ،اردو اخبارات ورسائل تو اپنی قسمت کاماتم تو کر ہی رہے ہیں اردو چھاپے خانے بھی حکومتی نا انصافی کی زد میں آکر بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں ،عالم تو یہ ہے کہ کل تک جہاں اردو زبان عام طور پر بولی اور سمجھی جاتی تھی آج وہاں اردو کے نام سے لوگوں کو وحشت سی ہو رہی ہے،اس حقیقت سے تو شاید ہی کسی کو انکار ہوگا کہ اردو زبان کی چاشنی اور اس کی سادگی میں ڈوبی معنویت نے ہر خاص وعام کے دل و دماغ پر دستک دے کر انہیں اپنا گرویدہ بنایا ہوا ہے مگر افسوس کا قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ آج اردو کی روٹی کھانے اور اس زبان کے سہارے اپنے کامیاب مستقبل کا سپنا دیکھنے والے بیشتر افراد کی دوہری پالیسی اور ان کی بے رخی نے اردو زبان کو اس نزع کی حالت میں پہنچادیا ہے کہ بسا اوقات اس صورت حال کی بنیاد پر ماتم کو جی چاہتا ہے ،کیونکہ کہنے کو تو ہم اردو کو پڑھ سمجھ اور بول رہے ہیں مگر اس کو وہ حیثیت حاصل نہیں ہے کہ اس پر اعتماد کیا جاسکے ۔
اسلئے موجودہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اردو کے وقار کی حفاظت کے لئے بڑے پیمانے پر تحریک چھیڑی جائے اور امارت شرعیہ کی جانب سے اٹھائے جارہے قدم کی مضبوطی کا سبب بنیں،تاکہ کسی خوشگوار نتیجے تک پہنچ پانا آسان ہو،ورنہ اس زبان کے خلاف ملکی سطح پر جو سازش کا جو جال بنا جا رہا ہے اگر اگر وہ کامیاب ہو گیا تو نہ صرف اس زبان سے محبت رکھنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا مستقبل سوالیہ نشان کے دائرے میں آجائے گا بلکہ اسی طرح دھیرے دھیرے یہ زبان نفرت کی بھینٹ چڑھ کر دم توڑ دے گی۔
Comments are closed.