بہار میں اردوکے مسائل

سید محمدعادل فریدی
دنیا کی ہر زبان کا اس کے بولنے والوںکے ساتھ ایک جذباتی لگاؤ ہوتا ہے اور اپنی زبان کے تئیں ان کی حساسیت انتہائی درجے کی ہوتی ہے ۔ لیکن ارد و کا معاملہ دیگر ہے ، حکومت وقت کی نا انصافیوں سے پرے اس زبان کو اپنوں کی بے اعتنائیوں نے بھی کم مجروح نہیں کیا ہے ۔ حکومت کی بے توجہی اور بے انصافی تو طشت از بام ہے ، خواہ ریاستی حکومت ہو یا مرکزی سب نے اپنی جانب سے اس کی بیخ کنی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔اب تو مرکزی حکومت کی طرف سے نئی تعلیمی پالیسی آگئی ہے ،جس میں اردو کو دیش نکالا دینے کی پوری پوری منصوبہ بندی کر لی گئی ہے،بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ درجہ صرف کاغذ پر ہی ہے ، حکومت کے کسی عمل سے تو ایسا نہیں لگتا ہے کہ دوسری زبان کا درجہ اردو کو ریاست میں حاصل ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ کئی تحریکوں کے زیر اثر اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دے تو دیا گیا لیکن نہ تو کبھی یہ درجہ حکومت کے گلے سے نیچے اترا اور نہ ہی افسر شاہی نے اسکو دل سے قبول کیا۔ذیل میں چند مثالیںصرف بہار کے تعلق سے پیش کی جا رہی ہیں جس سے اندازہ ہو گا کہ کس طرح اردو کو ریاست میں مشق ستم بنانے کا دو طرفہ سلسلہ جاری ہے ۔
اسکولوں کے نصاب سے اردو کی لازمیت ختم کرنے کا معاملہ
بہار میں محکمہ تعلیم کی جانب سے اردو کے بارے میں جو نیا سر کولر جاری ہوا ہے اس میں ریاست کی دوسری سرکاری زبان کو جڑ سے کاٹنے کی سازش کی گئی ہے۔ محکمہ تعلیم نے صوبہ کی دوسری سرکاری زبان اردو کو علاقائی زبانوں کی فہرست میں رکھا ہے ، اسکولوں کے نصاب سے اردو کی لازمی مضمون کی حیثیت ختم کردی گئی ہے ۔ اب اردو اختیاری مضمون کا حصہ ہے ، اختیاری مضمون کا مطلب یہ ہوا کہ طلبہ کی مرضی ہے ؛اردو پڑھیں یا نہ پڑھیں ،،اب جب لازمی مضمون کی حیثیت سے اردو کو ہٹا دیا گیا ہے اور اختیاری مضمون میں شامل کردیا گیا ہے، تو ایسے میں اختیاری مضمون سے اردو پڑھنے والے طلبہ ویسے بھی دھیرے دھیرے کم ہوجائیں گے اور اسی طرح دھیرے دھیرے تمام اسکولوں میں اردو ٹیچروں کی بحالی کا راستہ خود بہ خود بند ہوجائے گا۔ خاص بات یہ ہے کہ ریاستی حکومت نے تمام اسکولوں میں اردو کے ٹیچرس کو بحال کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ ہر اسکول میں اردو ٹیچر بحال ہوں گے ،تاکہ اردو اور غیر اردوداں بچوں کو وہ اردو پڑھا سکیں ، لیکن محکمہ تعلیم نے وزیر اعلیٰ کے اعلان کی دھجیاں اڑاتے ہوئے یہ فرمان جاری کردیا کہ چالیس بچوں پر ہی اب اردو کے ٹیچر بحال ہوں گے ، محکمہ تعلیم کی اس جانبدارانہ پالیسی کی چوطرفہ مذمت ہو رہی ہے ۔
محکمہ تعلیم کا نوٹیفکیشن
محکمہ تعلیم کے ذریعہ جاری کردہ نوٹیفیکیشن ۷۹۹؍کے ذریعہ مادری زبان کی حیثیت سے بہار کے سکنڈری وہائر سکنڈری اسکولوں میں اردو کی لازمیت کو ختم کردینے کے بعد ۲۸/ اگست ۲۰۲۰ء کو ہی محکمہ تعلیم نے اسی ضمن میں ایک اور نوٹیفیکیشن ۱۱۵۵؍جاری کیا جس میں اردو کی لازمیت برقرار رکھنے کی کوئی بات نہیں کی گئی البتہ اردو کی تعلیم کے لئے اسکولوں میں چالیس بچوں کی قید لگادی گئی ۔اس کا سیدھا سا مطلب ہے کہ اگر اُنتالیس بچے اردو والے ہوں گے توبھی انہیں اردو نہیں پڑھائی جائے گی ۔نئے معیار کے مطابق(5+1)کے مطابق چھ میں سے پانچ مضامین(Subjects) میں اساتذہ کی بحالی میں طلبہ کی گنتی کی کوئی قید نہیں ہے ،لیکن بہار کی دوسری سرکاری زبان اردو کے سلسلے میں اساتذہ کی بحالی کے لئے چالیس طلبہ کے ساتھ مشروط کر نا اردو کے ساتھ کھلی نا انصافی اور اس کو ختم کرنے کی سازش ہے ۔
اردو مترجمین کی بحالی کا معاملہ
۲۰۱۸ء؁ میں بہار حکومت نے اعلان کیا کہ بلاک سے لے کر گورنر ہاؤس تک سبھی سرکاری محکموں میں اردو زبان کا سیل ہو گا ،اس کے لیے کابینہ کی میٹنگ میں اردو مترجمین کے مختلف عہدوں کے لیے ۱۷۶۵؍ عہدے منظور ہوئے ، اور سبھی بلاکوں ،سب ڈویزن اور ضلع کی سطح کے سرکاری آفسوں میں جہاں اب تک اردو کا سیل قائم نہیں ہے وہاں اردو کا سیل قائم کرنے کی منظوری دی گئی۔۲۰۱۹ء؁ میں حکومت نے ۱۲۰۴؍ معاون اردو مترجم، ۴۰۴؍ اردو مترجم ، ۱۱۹؍ سینئر اردو مترجم اور ۳۸؍ ٹرانسلیشن آفیسر ز کی بحالی کے لیے اشتہارات نکالے،فارم بھرایا گیا، کئی مراحل میں امتحانات کی تاریخیں طے ہوئیں اور ملتوی ہوتی رہیں ، ابھی تازہ صورت حال یہ ہے کہ سینئر اردو مترجم، ٹرانسلیشن آفیسر ز اور اردومترجم کے عہدے کے لیے امتحانات حال ہی میں منعقد ہوئے ہیں ، ریزلٹ نہیں آیا ہے ، جبکہ معاون مترجم کے عہدے کے لیے اب تک امتحان بھی نہیں ہوا ہے۔
اردو اساتذہ کی بحالی کا معاملہ
بہارحکومت نے ۲۰۱۳ء میں ۲۷۰۰۰؍ ہزاراردو کے خالی عہدوں کے لیے خصوصی اردو اساتذہ اہلیتی امتحان کا انعقاد کروایا تھا ،جس میں پہلی مرتبہ صرف ۵۳۱۰؍ امیدواروں نے کامیابی حاصل کی تھی ،بہار اگزامنیشن بورڈ کی لا پرواہی کے سبب کئی بار ریزلٹ شائع ہوا۔ آخری ریزلٹ کے مطابق صرف ۱۶۸۸۱؍ امیدوار اہل قرارپائے، جبکہ تقریباً بارہ ہزار کامیاب امیدواروں کو بورڈ کی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑا ،ہزار کوشش اور تگ و دو کے بعد ۲۰۱۵ء؁ میں پرانے شرائط کے ساتھ بحالی کا نوٹیفکیشن جاری ہوا ، لیکن سات سال گزرنے کے بعد بھی اب تک پوری بحالی نہیں ہو سکی ہے ۔ بارہ ہزار سے زائد امیدوار ابھی بھی بحالی کی آس لیے ہوئے در در کی ٹھوکر کھا رہے ہیں۔
پورے بہار کے روسٹر (عہدوں کی فہرست) کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ روسٹر غیر متوازن ہے حتی کہ ریزرویشن کی آڑ میں مسلم اکثریتی علاقوں میں زیادہ سیٹیں ایس سی ، ایس ٹی کی کیٹگری میں شامل کر دی گئیں، جس سے ۲۷۰۰۰؍ ہزار خالی عہدہ ہونے کے باوجود صرف ۱۶۸۸۱؍امیدواروں کے لیے سیٹیں کم پڑ گئیں، شمالی مشرقی بہار کا مسلم اکثریتی اضلاع کٹیہار ، پورنیہ ،ارریہ اور کشن گنج میں اکثریت اردو آبادی کی ہے ،اس لیے یہاں امیدواروں کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی، لیکن ان اضلاع میںامیدوراوں کے تناسب سے سیٹیں ہی نہیں تھیں، یعنی امیدوار ہے تو سیٹ نہیں ، سیٹ ہے تو امیدوار نہیں۔( عبد الغنی شیخ کے مضمون ’’اردو امیدواروں کی مکمل تقرری ، ٹھوس اقدامات کی ضرورت ‘‘ کے حوالہ سے )
غور طلب ہے کہ بہار میں۷۳؍ ہزار پرائمری اور مڈل اسکول ہیں جبکہ انٹر اور سیکنڈری اسکولوں کی تعداد قریب چار ہزار ہے ۔حکومت نے سبھی اسکولوں میں ایک ایک اردو ٹیچر کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن اب تک پچاس فیصدی سیٹوں پر بھی بحالی نہیں ہوسکی ہے، اعداد وشمار پر غور کریں تو قریب ۷۷؍ ہزار اسکولوں میں ۷۷؍ہزار اردو کے اساتذہ کی بحالی ہونی چاہئے، جبکہ موجودہ حکومت ۲۰۰۵ء؁ سے لیکر اب تک محض تیس ہزار اساتذہ کی بحالی کرسکی ہے ۔
اردو میڈیم اسکولوں کے مسائل
اردو میڈیم اسکولوں کو بھی بہت سے مسائل کا سامنا ہے، اکثر اسکولوں کو اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے، زیادہ تر اسکول ایسے ہیں جن میں برسوں سے سیٹیں خالی پڑی ہیں اور کوئی بحالی نہیں ہو رہی ہے ، اردو اسکولوں میں بحالی کی شرائط اس قدر سخت ہیں کہ اہل امیدوار ہی نہیں مل پاتے ۔ اس وقت پورے ملک میں ۲۸۲۷۶؍ اردو میڈیم کے اسکول ہیں، جن میں سے ۱۶۳۸۲؍ اردو میڈیم کے اسکول سرکاری ہیں۔ بہار کی بات کریں تویہاں اردو اسکولوں کی کل تعداد۳۶۲۴؍ ہے ، جس میں سے ۲۵۹۷ اسکول سرکاری ہیں۔اساتذہ کی کمی کے علاوہ سرکاری اردو میڈیم اسکولوں میں ایک بڑا مسئلہ اردو میں کتابوں کی دستیابی کا ہے ،این سی آر ٹی اور ایس سی آر ٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اردو میڈیم اسکولوں میں تمام مضامین کی کتابیںاردو میں شائع کر کے وقت پر پہونچائے ، مگر نہ تو صحیح تعداد میں کتابیں چھپتی ہیں ، اور اگر چھپ بھی جاتی ہیں تو وقت پر اسکول پہونچ نہیں پاتیں، وقت کے بعد پہونچتی ہیں اور اسٹور روم میں سڑ جاتی ہیں ، طلبہ کو نہیں دی جاتیں ، اور اگر با دل نا خواستہ طلبہ تک کتابیں پہونچ بھی گئیں تو ان کو پڑھانے والے اساتذہ میسر نہیں ، اردو میڈیم کے اسکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ خود ہندی یا انگریزی میڈیم سے پڑھے ہوئے ہوتے ہیں ، نہ انہیں اردو میں ریاضی کے اصطلاحات کا علم ، نہ سائنس کے ، اس لیے وہ عافیت اسی میں محسوس کرتے ہیں کہ ہندی یا انگریزی میں ہی پڑھایا جائے۔ اردو میڈیم کے کتنے اساتذہ ایسے ہوں گے جن کو ذو اضعاف اقل ،زاویہ متساوی الساقین ، زاویہ قائمہ یا عاد اعظم مشترک جیسے ریاضی کے مبادیات کا علم ہو گا اور وہ اس زبان میں طلبہ کو ریاضی پڑھا سکتے ہوں گے ۔ اسوقت صورت حال یہ ہے کہ تقریباً بہار کے تقریباً سو فیصد سرکاری ارد و میڈیم اسکولوں میں ہندی میڈیم میں تعلیم ہو رہی ہے ۔
پرائمری اسکولوں کو ضم کرنے کا معاملہ
۲۰۱۷۔۲۰۱۸ء میں یو ڈائز(Unified District Information System for Education (U-DISE)) نے اسکولوں کے سلسلہ میں اپنی رپورٹ میں بتایا کہ بہار میں 1140 پرائمری اسکول ایسے ہیں جہاں طلبہ کی تعداد چالیس سے کم ہے ۔ان میں سے ۱۳؍اسکول تو ایسے ہیں جہاں ایک بھی داخلہ نہیں ہے ، ۱۷۱؍اسکولوں میں بیس سے کم داخلے ہیں ،متعینہ معیار یعنی چالیس سے کم داخلہ والے پرائمری اسکولوں کی تعداد ۱۱۴۰؍ ہے۔اس کے علاوہ ۱۷۷۳؍سرکاری پرائمری اسکول ایسے ہیں جن کے پاس اپنی عمارت نہیں ہے ؛ان میں سے ۹۰؍ اسکول تو صرف پٹنہ میں ہیں۔حکومت نے ایسے سبھی اسکولوں کو ان سے اونچے درجے کے اسکولوں میں ضم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، حال ہی میں حکومت کی طرف سے مختلف اضلاع کے ایجوکیشن آفیسروں کو دوبارہ نوٹس دی گئی ہے کہ وہ اسکولوں کو ضم کرنے کی کارروائی جلد مکمل کریں ۔غور طلب ہے کہ اسکولوں کو ضم کرنے کی اس کارروائی میں سب سے زیادہ اردو کا نقصان ہونے والا ہے ، کیوں کہ ہندی اسکولوں کے ہندی اسکولوں میں ضم کرنے سے ان کی حیثیت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا ، لیکن اردو اسکول کو اگر ہندی اسکول میں ضم کیا جائے گا تو لازماً اس کی اردو اسکول کی حیثیت متاثر ہو گی ۔اور یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ ضم ہونے والے اسکولوں میں زیادہ تر تعداد اردو اسکولوں کی ہی ہے ، کیوں کہ انہیں اسکولوں کو دو طرفہ مشق ستم بنایا جا رہا ہے ، حکومت کی توجہ اور مراعات سے بھی وہ محروم ہیں اور عوام کی طرف سے بھی بے توجہی کا شکار ہیں ۔عوام کی بڑی تعداد، خاص کر پڑھے لکھے اور اپنے آپ کو مہذب خاندان میں شمار ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کا حال یہ ہے کہ ان کے بچے اپنے علاقہ کے اردو اسکولوں میں داخل نہیں ہوتے ، اردو کے نام پر عہدوں ، تمغوں اور امتیازات سے سرفراز اشرافیہ کی کہانی یہ ہے کہ وہ اردو اسکولوں میں اپنے بچوں کو داخل کرنا کسر شان سمجھتے ہیں ،اور اب جب حکومت نے اپنا ڈنڈا چلا دیا اور ایسے اسکولوں کو اوپر کے ہندی اسکولوں میں ضم کرنے کا نوٹیفکیشن آگیا تو اب انہیں کی طرف سے یہ رونا رویا جا رہا ہے کہ حکومت نے ارد و کا حق مار لیا۔
اعداد و شمار کی کمی
اردو کے ساتھ نا انصافیوں کی فہرست میں اس حقیقت کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے کہ اردو زبان اور اردو تعلیم سے متعلق کوئی قابل ذکر تحقیقی معلومات یا اعداد وشمار نہ تو سرکار کے کسی محکمہ میں دستیاب ہے اور نہ ہی کسی پرائیوٹ ایجنسی نے اس میدان میں کوئی ریسرچ کرنے کی کوشش کی ہے ،اس کے برخلاف آزادی کے بعد سے اردو کو ختم کرنے کی بے شمار کوششیں حکومتی سطح پر کی جا چکی ہیں ۔
بہار ایس ٹی ای ٹی ویکنسی کی صورت حال
۲۰۲۰ء؁میں بہار اسکول اگزامنیشن بورڈ پٹنہ نے سکینڈری(نویں اور دسویں جماعت) اور سینئر سکینڈری(گیارہویں اور بارہویں جماعت) کے لیے ۳۷۳۳۵؍ اساتذہ کی ویکنسی نکالی ، اس میں ۲۵۲۷۰؍ عہدے سکینڈری اساتذہ کے لیے اور ۱۲۰۶۵؍ عہدے سینئر سکینڈری اساتذہ کے لیے مختص کیے گئے۔ سکینڈری سطح پر اردو کی بھی ایک ہزار سیٹیں تھیں ، ۲۰۲۰ء؁ کے اواخر میں ایس ٹی ای ٹی کا امتحان بھی ہوا۔ مگر کسی وجہ سے امتحان ہی رد ہو گیا اور ہنوز بحالی کا یہ معاملہ زیر التوا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے مسائل ہیں، بہار اردو اکیڈمی میں کئی سالوں سے سکریٹری نہیں ہے ،ابھی جن کو اضافی ذمہ داری دی گئی ہے ، ان کو بھی محدود اختیار دیے گئے ہیں ، جس کے نتیجے میں لائبریری کو جو گرانٹ اور مصنفین کو کتاب کی طباعت کے لئے جو رقم ملتی تھی سب بند ہے ، انعام وغیرہ کا سلسلہ بھی موقوف ہے ، سرگرمیاں تقریباً رک سی گئی ہیں، اس کے احاطے میں گورنمنٹ اردو لائبریری ہے ،وہاں کے لائبریرین کے سبکدوش ہونے کے بعد وہاںان دنوں لائبریرین بھی نہیں ہے ، لائبریرین کے نہ ہونے کی وجہ سے لائبریری کاکا م ٹھپ پڑا ہوا ہے ۔بہار میں اردو کے فروغ میں ضروری مشورے دینے کے لیے مشاورتی بورڈ بھی قائم ہے ، لیکن دو سال سے اس کے صدر نشیں کا عہدہ خالی ہے ۔ حکومت کی توجہ اب تک اس طرف نہیں ہے ، ظاہر ہے یہاں صدر نشیں ہی اصل ہوتا ہے اور اس عہدہ کے خالی ہونے کی وجہ سے بورڈکی افادیت ختم ہو کر گئی ہے۔‘‘
اردو زبان تنہا کسی قوم کی زبان نہیں ہے ، یہ بھارت کی مشترکہ زبان ہے ، اس لیے ملک کی تمام قوموں کو اس کی ترقی و اشاعت میں برابر کا حصہ لینا چاہئے اور چونکہ اس زبان کے ساتھ ہماری ملی تہذیب و ثقافت وابستہ ہے ، اس لیے خاص طور پر ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اردو زبان کے فروغ کے لیے خود آگے بڑھیں ، ارد و کی ترقی و تحفظ کے لیے اجتماعی و انفرادی سطح پرمضبوط حکمت عملی اورتحریک کی ضرورت ہے ، تبھی اس زبان کو اس کا لازمی حق مل سکتا ہے اور ہندوستان میں اس کا مستقبل محفوظ رہ سکتا ہے ۔

Comments are closed.