جہیز۔۔۔ایک چھوت کی بیماری

ناصرہ نواز (سرگودھا)
زندگی تب جنت ہوتی ہے جب والدین اپنے اولاد کے فرض سے سبکدوش ہو جائیں۔یہ تبھی ممکن ہے جب ہم ذات برادری یا جہیز سےاوپراٹھ کر سوچیں۔جو اصلی مرد ہوتے ہیں وہ غریب والدین سے جہیز کا مطالبہ نہیں کرتے۔ایک اچھے مرد کے خوابوں کی قیمت چند لاکھ روپے نہیں ہوتے۔ آج کے دور میں لوگ بیٹی کم اور جہیز لینے زیادہ جاتے ہیں۔ جہیز کی لمبی لسٹ لڑکی والوں کو دیتے وقت ہم اسلام اور اسلامی تعلیمات کو بھول جاتے ہیں ،ہاں حق مہر دیتے وقت ہم ضرور اسلام کو سامنےلے آتے ہیں۔عام لفظوں میں ہم دین سے سرکش لوگ دین اور دینی تعلیمات کو اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق ہی مانتے ہیں۔کئی لاکھوں کا جہیز،اعلیٰ ترین کھانا،سونے کی انگوٹھی،ولیمے کے دن کا ناشتہ،سسرال والوں کے کپڑے،مہنگے زیورات،فرنیچر کے ٹرک بھر کے دیتے ہیں کہ غریب والدین کا بال بال قرض میں ڈوب جاتا ہے۔یہاں تک کہ والدین اپنی بیٹی کے جہیز کے لیے اپنے گھر کو بیچ کر بیٹی کی شادی کرتے ہیں، خود سڑک پر آ جاتے ہیں۔
لڑکی کی شرافت،تعلیم،جہیز،جائیداد کا حصہ یہاں تک کہ اُس کی پیدائش سے جوانی کہاں گزری،محلے والوں سے انکوائری کرنا،خصوصی طورپرپیغام بھیجا جاتا ہے کہ لڑکی دیکھنے آ رہے ہیں۔اُس کے چلنے پھرنے،اٹھنے بیٹھنے،کھانے پینے پکانے،عادات واطوار سب کی مکمل تفتیش وتحقیق کی جاتی ہے۔کیا بیٹی کی عصمت اور عزتِ نفس اتنی سستی ہے؟خدا کے بندوںکیا تم لوگ فرشتے ہو۔ لڑکیاں تو اتنی نازک ہوتی ہیں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو دل پر لے لیتی ہیں۔اُن معصوم لڑکیوں کا کبھی سوچا ہے کہ ان کے دل پر کیا گزرتی ہو گی جب تم کھا،پی کے دوسرے دن جا کے انکار کر دیتے ہو، دن بہ دن وہ احساسِ کمتری کا شکار ہوتی جاتی ہے۔اپنے لیے ضرور ڈھونڈیں وہ جو آپ چاہتے ہیں،مگر کم از کم کسی کی بیٹی کو عیب مت لگائیں۔لڑکوں کی ماؤں کو اس بات کی فکر زیادہ ہوتی ہے کہ بہو چاند سی آئے،جہیز میں بہت کچھ لے کر آئے، اگر بہو کچھ نہ لائی تو وہ رشتے داروں اور آس پاس کےلوگوں کو کیا منہ دکھائیں گی۔آج کی ماں نہ تو بیٹی کو کم دینا چاہتی ہےاور نہ بہو سے کم کی امید رکھنا جانتی ہے۔یاد رکھیے یہ منہ آپ نے دنیا کو نہیں رب کو دکھانا ہے۔ آج کل پسند کامعیار یہ ہے کہ لڑکی کے والدین کے مطابق لڑکا غریب نہ ہو،نوکری پکی ہو،گھر اپنا ہو،برادری اپنی ہو،اور لڑکے والوں کی پسند کا معیار لڑکی بہت خوب صورت ہو،زیادہ لمبی یا زیادہ چھوٹی نہ ہو،لڑکی بہت موٹی اور بہت پتلی نہ ہو،نخرے نہ کرتی ہو، لڑکی کے گھر اور باپ بھائیوں کی حیثیت سے جہیز کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔
اور ایسی ہی بہت سی باتیںجو میرے خیال سے مہذب اور اچھے خاندان کو زیب نہیں دیتیں۔جب آپ کی تلاش کا مقصد ہی صرف جہیز ہوتا ہے۔میری آپ سب سے گزارش ہے خدارا سب مل کر ان رسومات کا سماجی بائیکاٹ کریں۔ جہیز اور کاروباری شادی سے اجتناب کریں۔ اس بات کو عام کرنے کی ہمیں بہت ضرورت ہے کہ مطالبات لڑکی اور لڑکے دونوں کی طرف سے غلط ہیں۔یہ کام ہم سب مل کر کر سکتے ہیں۔آج کل کورونا کی وجہ سے شادی ہال میں شادی پر پابندی لگی تھی تو کیا ہم اس بات پر پابندی نہیں لگا سکتے کہ جہیز جیسی جاہلانہ رسم کو ختم کریں اور سادگی کے ساتھ شادی کا اہتمام کریں۔والدین کے لیے ان کی بیٹیوں کو بوجھ نہ بنائیں۔بیٹیاں رحمت ہوتی ہیں ان کو رحمت ہی رہنے دیں۔ماں باپ زیور تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں کہ وہ تمہاری نسلوں کو سنوار دے گی ۔
اپنے ارمان تھوڑا کم کریں۔جہاں جہیز پر پابندی ہونی چاہیے وہاں یہ بات لازم ہونی چاہیے کہ لڑکی والے بھی لڑکے والوں پر رحم کریں، جہاں جہیز منع ہے وہاں لڑکے والے تین تین،چار چار سو بندوں کا کھانا نہیں بنا سکتے۔اپنی زندگی کو خود آسان بنائیں۔ہمیشہ دوسروں پر انحصار مت کریں ۔اپنے آپ سے تبدیلی کا سفر شروع کریں۔جب تک ہم خود کو نہیں بدلیں گے تب تک ہمارا معاشرہ نہیں بدل سکتا۔ایک بڑے گھر کی بہو لا کر یا داماد بن کر آپ اچھے یا قابلِ عزت نہیں بنتے۔آپ قابل عزت ہیں۔ لیکن تب جب آپ اپنے ساتھ جڑے رشتوں کو عزت دیں۔آج روز ہم یہ خبریں سنتے ہیں کہ جہیز کم لانے پر لڑکی کو آگ لگا دی یا کسی بھی طریقے سے مار دیا۔سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات میں ایک رواج ہے کہ وہاں شادی سے پہلے لڑکا اپنا جہیز خود بناتا ہےیا لڑکی والوںکو جہیز بنانے کے پیسے دیتا ہے وہاں لڑکی والوں کا کوئی خرچ نہیں ہوتا۔غریب ہیں یا امیر سب کی بیٹیوں کے رشتے آرام سے ہو جاتے ہیں۔ کچھ دن پہلے ہی ایک بہن سے ملاقات ہوئی انہوں نے بتایا کہ ان کا رشتہ اپنی پھوپھو کے ہاں طے ہوا تھا۔ پھوپھو نے ہمارے والد صاحب کو سامان کی لسٹ پکڑائی اور ساتھ دو سال کے وقت کی مہلت دی۔دو سال بعد جب وہ مزدور آدمی جہیز کی بنائی گئی لسٹ کا سامان نہ پورا کر سکا تو رشتے سے انکار کر دیا اور اسی صدمے سے ان کا انتقال ہو گیا۔یہ اب گناہ نہیں ہے تو کیا ہے ؟ہم نے اپنوں سے ہی مقابلے شروع کر دیے ہیں۔یہ جاہلیت نہیں ہے تو کیا ہے؟
اسلام کے نقطہ نظر کے مطابق جہیز کا سارا سامان جوبیوی شوہر کے گھر لائے وہ سب کچھ بیوی کی ملکیت ہے۔اس پرزکوٰۃ فرض ہے تو اس کی ادئیگی بیوی کی ہی ذمہ داری ہے۔لڑکی کے سسرال والوں کو لڑکی کی اجازت کے بعد اس کےسامان کو استعمال کی اجازت ہے۔ اسلام کی رو سے بیوی کا نان و نفقہ اس کے شوہر کی ذمہ داری ہے ۔عورت پر ہر گز یہ فرض نہیں ہے وہ زیادہ سے زیادہ مال لے کر آئے۔آج ہمارا معاشرہ جس ڈگر پر چل رہا ہے وہاں خاندان والے اپنی ضروریات کا بوجھ بھی لڑکی کے گھروالوں کے ذمہ عائد کرتے ہیں۔جہیز نام ونمود کا ایک نام اہل ثروت لوگ بھی ہیں جو دولت کی نمودونمائش یا اپنی بیٹی اور داماد سے بے پناہ محبت کی نمائش کی خاطر بذات خود اتنا جہیز دے ڈالتے ہیں کہ مڈل کلاس لوگ سارا کچھ بیچ بھی دیں تو شاید آدھا بھی نہ خرید سکیں۔ان اہل ثروت کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی زیادہ سے زیادہ جہیز دینے کی فکر کرتے ہیں اور اپنی زندگی کو قرض کے بوجھ تلے جکڑ لیتے ہیں۔ہمارے پیارے نبیﷺ نے اپنی پیاری بیٹی کی رضا مندی لینے کے بعد ان کا رشتہ طے کیا اور ان کی شادی نہایت سادگی کے ساتھ کی۔حضرت فاطمہ کا حق مہر حضرت علی سے لے کر ان کے گھر کا ضروری سامان خریدا گیا جسے جہیز کے طور پر ان کو دیا گیا جس میں مٹی کے چند برتن،چمڑے کا بستر،چرخہ،چکی،پانی بھرنے والی مشک،خرمے کی چھال کے تکیے شامل تھے۔حضرت فاطمہ کا حق مہر ایک سو سترہ تولے چاندی قرار پایا۔جسے حضرت علی نے اپنی زرہ فروخت کر کے ادا کیا۔اتنی خوب صورت اتنی اچھی مثال ہمارے لیے دی گئی ہے۔ہمارے رب نے ہمارے دین کو بہت آسان بنا کے بھیجا ہے۔ ہمارے رسولﷺ نے اتنی اچھی مثالیں قائم کی ہیں۔ کیا ہم سچ میں اندھے،گونگے اور بہرے ہو چکے ہیں؟ہم کبھی اپنے دین کو پڑھیں تو سہی ہمارا دین بہت سادہ بہت خوب صورت ہے۔جہیز جیسی قاتل رسم کو جڑ سے اتار پھینکیں ورنہ بہت سے گھر اجڑتے رہیں گے۔ہماری بہت سی بہنیں،بیٹیاں گھروں میں بیٹھی بوڑھی ہو جائیں گی۔اہل ثروت سے بس یہ کہوں گی کہ رب تعالیٰ نے آپ کو دولت دی ہے۔جہیزضرور دیں اپنے بچوں کو، بس نمائش نہ کریں کسی غریب کی دل شکنی نہ کریں۔بس کبھی کبھی ان بیٹیوں کی مدد کر دیا کریں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا اور معاشرے میں بے حیائی اور آوارگی کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔

Comments are closed.