عشق!!!!

نبیل طاہر
عشق لفظ لکھنے میں بولنے میں بہت آسان اور محض اپنی فیلنگز کا اظہار کرنے کے لیے سب سے آسان ترین لفظ ہے جو ہم آسانی سے ادا کرکے اظہار محبت کرتے ہیں۔ شاعر ہوں یا کوئی بھی دورِ حاضر کا لکھاری اس لفظ کے بغیر اپنی تحریر کو نامکمل سمجھتا ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ کتنے لکھنے والے پڑھنے والے بولنے والے سننے والے اس عشق سے واقف ہیں وہ عشق حقیقی ہو یا عشق مجازی آج کے دور میں میری نظر میں اس مقام تک پہنچ جانا نا ممکنات میں سے ایک ہے ہم تو ذاتی مفادات میں ہی ایسے عشق میں شرابور ہیں کہ ہم اپنے ذاتی مفاد سے ہی باہر نہیں نکل سکتے تو عشق تو بہت دور کی بات ہم تو محبت کا دعوی نہیں کر سکتے۔ محبت میں شرک حرام ہے مطلب دو میں تیسرا نہیں آنا کبھی بھی۔ میں اور میرا محبوب بس۔۔۔ لیکن عشق میں اپنی ذات کی بھی نفی کرنا پڑتی ہے بس بس اور بس ذات محبوب کی۔ عشق حقیقی دیکھ لیں بیٹا اسماعیل ہے ماں اماں حاجرہ ہے باپ ابراھیم نبی عشق حقیقی دیکھیں کیسے اجاڑ میں چھوڑ کر حضرت ابراھیم ذات خدا کے لیے وہاں سے چل پڑے جہاں ذات خدا کی آئی نہ بیٹا دیکھا نہ بیوی دیکھی صرف محبوب کی رضا دیکھی وہ کہتے ہیں نا جیسے یار کا مزاج اسی مزاج میں ڈھل جائیں گے ہم خدا کیلۓ بیٹا چھوڑا بیوی کو وہاں چھوڑا مطلب عشق میں رشتے بھی چھوڑنے پڑتے ہیں پھر جب آتش نمرود جلی حضرت ابراھیم بے خطر اس آتش میں جا رہے ہیں یہاں بھی صرف اور صرف رب کی ذات کے لیے مسکرا کر آگ میں جا رہے ہیں مطلب کوئی ڈر نہیں خوف نہیں۔بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق !!!! عقل ہے محوِ تماشائے لب بام ابھی !!!مثالیں تو اور بھی بہت ہیں عشق حقیقی کی لیکن سمجھانے کے لیے یہ مثال دی کہ عشق کی منزل آسان نہیں اور رہی بات عشق مجازی کی تو اب کہیں ہزاروں میں ایک شاید ایسا ہو جو عشق کی منزل تک گیا ہو بلکہ عشق کے راستے پر ہی چلا ہو کیوں کے محبت جسم سے، دولت سے، مطلب پرستی سے، ذاتی مفاد سے ہے کوئی محبت نہیں کرسکتا مخلصی سے عشق کیسے کرے گا باتیں تو بہت ہیں اس پر بات کرنے کو لیکن بس ایک ہی بات کہوں گا جسم کی پوجا کو محبت سمجھتا ہے آج فلسفی اقبال!!!یہی دور حاضر کی محبت تو میں جاہل اچھا!!!!
Comments are closed.