انٹرویو

از قلم: مخدومہ کرن
یہ ایک سرکاری افسر کا کمرہ تھا۔جہاں ایک بڑی میز کے گرد دو کرسیاں رکھی گئی تھی جس پر براجمان دو ادھیڑ عمر آدمی اپنی نشستوں پر براجمان ہر آنے والے کا تفصیلی انٹرویو لے رہے تھے۔۔۔
یکے بعد دیگرے کئی لوگ گئے اور منہ لٹکائے واپس آتے دیکھائی دیے۔
وہاں پر موجود ایک کونے میں بیٹھی ہوئی لڑکی سیاہ عبایا پہنے براجمان تھی۔ جگہ جگہ سے اڑا ہوا رنگ اس کی خستہ حالی کی کہانی چیخ چیخ کر بیان کر رہا تھا۔ اتنے میں اسکے نام کی پکار ہوئی تھی۔وہ جو اپنے دھیان میں بیٹھی خود کو حوصلے دے رہی تھی انگلیاں چٹخاتی اٹھ کر دروازے کی اوور چل دی۔
مے آئی کم ان سر؟؟
دروازہ پر کھڑی وہ سامنے موجود کمرے کے افسران سے اجازت کی طلبگار تھی۔
یس !(یک لفظی جواب آیا تھا)
دروازہ کھولے وہ آگے بڑھی۔۔
اسلام علیکم سر!
وعلیکم سلام،، جواب دینے کے ساتھ ہی سامنے بیٹھے آدمی نے ہاتھ سے اسے بیٹھنے کا اشارہ دیا تھا۔
جی تو فائل دیکھائیے اپنی مس ۔۔۔؟
کرسی پر بیٹھی اپنے ہاتھوں سے اپنے ماتھے پر آئے پسینے کو صاف کرتی ان کی مکروہ نظروں سے بچنے کی اپنی سی کوشش کررہی تھی۔۔۔
فائل کا معائنہ کرنے کے بعد اس سے چند ایک سوال پوچھے گئے تھے جن کے جواب نجانے پاکستان کے پی۔ایچ۔ڈی حضرات کو بھی پتہ ہوں گے یا نہیں۔۔
خیر۔۔!
اس سے پہلے کہ وہ اسے جانے کا کہتے وہ خود اٹھ کھڑی ہوئی تھی جب ایک بار پھر اسے بیٹھ جانے کو کہا گیا تھا۔۔۔
دیکھیے میڈم جی ویسے تو آپ چونکہ ہمارے سوالوں کے جواب دینے میں ناکام رہی ہیں لیکن پھر بھی ہم آپ کو ایک چانس دینے کو تیار ہیں ،، ان دو ادھیڑ عمر کے مردوں میں سے ایک نے زرا آگے جھک کر کہا تھا۔۔
کک،، کیسے سر؟؟؟ وہ گھبرا گئی تھی
دوسرے نے اپنے موبائل سے اک کال ملائی تھی ۔۔جس کے فورا بعد ایک بندہ سیاہ پینٹ کوٹ پہنے اندر داخل ہوا۔۔
"”یہ رؤوف صاحب ہیں آپ انکے ساتھ دوسرے آفس میں جا کر بیٹھیں ہم پھر بات کرتے ہیں آپ سے۔۔””
وہ ہونق بنی اس بندے کے ساتھ چلتی جا رہی تھی جب وہ دو راہداریاں مڑ کر ایک کمرے کے سامنے جا کے رک گیا۔۔دروازہ کھول کر اسے اندر آنے کا کہا گیا تھا۔۔۔
س،سس،،سر پلیز مجھے آپ ادھر ہی بتا دیں جو بھی بات ہے؟(نجانے کیوں اس کا دل گھبرا رہا تھا)
وہ لڑکی بجائے اندر جانے کے دروازے میں ہی رؤوف صاحب سے سوال کر رہی تھی ،،،
مقابل گھاگ شکاری تھا لہجے میں شیرینی گھولے اسے پچکار رہا تھا۔۔
ارے بیٹا !
آپ اندر تو آئیں ،، پھر بیٹھ کر بات کرتے ہیں نا ۔۔تب تک سر بھی آجائیں گے۔۔۔
جج،، جی بمشکل تھوک نگل کر اس نے اپنے خشک ہوتے حلق کو تر کیا تھا۔۔۔
اسے بیٹھے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی جب رؤوف صاحب نے اس کے نام کا جاب کنفرمیشن لیٹر اس کے سامنے ٹیبل پر لا کے رکھا تھا۔۔۔
وہ لڑکی سب کچھ بھول کر اس لیٹر کو ہاتھ میں پکڑے بے یقینی اور خوشی کی ملی جلی کیفیت میں تھی،
"جب عقبی دروازے سے اندر آتے ان افسران میں سے ایک نے اس کے ہاتھ سے وہ کاغز کا ٹکڑا اچک لیا تھا۔۔””
اتنی بھی کیا جلدی ہے میڈم جی؟؟ اپنی ہی بات پر اس نے بے ہنگم قہقہ لگا کر اس لڑکی کی کرسی کے دونوں بازووں پر اپنے ہاتھ ٹکائے تھے۔۔۔
وہ لڑکی اس اچانک آئی آفت پر بھونچکا کہ رہ گئی تھی۔۔
بھوری آنکھیں یکایک پانیوں سے بھر گئی تھیں ۔۔
اسکا دل مسلسل کچھ غلط ہونے کی نشاندہی کر رہا تھا۔
"”دیکھو بی بی پہلی بات تو یہ ہے کہ یہاں کوئی بھی میرٹ پر بھرتی ہوتا نہیں ،، اور بالفرض اگر ہو بھی جائے تو زیادہ دن ٹک نہیں پاتا ۔۔یا تو ساری زندگی کسی جھوٹے کیس میں پیشیاں بھگتتا رہتا ہے یا پھر کسی دور دراز علاقے میں ٹرانسفر کر دیا جاتا ہے۔۔”
وہ چپ ہوا تو باقی بات رؤوف نے جاری رکھی۔۔
دو ہی طریقے رہ گںٔے ہیں سرکار کی نوکری کے ۔۔۔
"”پہلا طریقہ ایک نوٹوں سے بھرا ہوا بریف کیس اور جیب میں کسی وزیر ،مشیر یا پھر کم سے کم کسی ایم این اے ،ایم پی اے کی سفارش ،،،”
کرسی پر بیٹھی ہوئی لڑکی کا سارا حوصلہ وقفے وقفے سے گرتے آنسووں میں بہتا جا رہا تھا۔۔اس کی آواز حلق میں ہی کہیں پھنس رہی تھی،،
رؤوف نے اسے دوسرے طریقے کے بارے میں بتانا شروع کیا۔
وہ لڑکی مسلسل اپنی انگلیاں چٹخا رہی تھی ۔۔۔
کرسی کی دوسری جانب سے رؤوف آکر اس کے سرہانے کی طرف رک گیا تھا۔۔
مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی سر ؟؟
رؤوف نے اچانک ہی سامنے کھڑے
اپنے ہائی پروفائل افسر پہ سوال داغا تھا،،،
کونسی بات رؤوف؟؟
یہی سر کہ اللہ ان نچلے طبقے کے لوگوں کو اتنی خوبصورت بیٹیاں کیوں دیتا ہے ؟؟
اور سب سے اہم خوابوں سے بھری چمکتی آنکھیں ۔۔۔
انکی باتیں اس لڑکی کے سر پر ہتھوڑے کی ماند برس رہی تھیں۔۔
وہ کیا سوچ کر آئی تھی یہاں؟ پر یہاں تو جیسے شکاری تاک میں بیٹھے تھے۔۔۔
"”گدھ سے بھی بدتر لوگ تھے یہ تو ۔۔۔وہ کہاں آن پھنسی تھی ،، اس کی ذرا سی غلطی اس کا بھاری نقصان کروا سکتی تھی۔۔ اسے ہوش سے کام لینا ہو گا ،،”
مگر کیسے؟
وہ کیا کرے کہ یہاں سے بچ نکلے؟؟
اس کی آنکھوں کے سامنے بوڑھے ماں باپ کا چہرہ گھوم رہا تھا، کتنی محنت سے ایک ایک پیسہ جوڑ کر انہوں نے اسے پڑھایا تھا،،
پڑھ لکھ کر اپنے ماں باپ کو اپنے خاندان کو غربت کی بھٹی سے نکالنے کا خواب وہیں کہیں اس کمرے کے ایک کونے میں پڑا سسک رہا تھا۔۔۔۔
آج صبح تک کتنا خوش تھی وہ اپنے پاس ہونے پر ،،
اس کی آنکھوں نے خواب بنے تھے ،،
اور جب ان کی تکمیل کا وقت آیا تو ،
ہائے! قسمت کی ستم ظریفی ،،
غریبی ہی جرم بن گئی،،
گویا عورت ہونا بھی اس کی سزا ٹھہرا ؟؟
من ہی من میں خود سے سوال جواب کرتی ،،
کسی کے اجنبی لمس سے وہ ہڑبڑائی تھی !!!
اس کے علاوہ کمرے میں تین نفوس اور بھی تھے جو اپنی غلیظ نظریں اس پر جمائے اس کی حالت سے خوب لطف اٹھا رہے تھے۔۔
رؤوف نے اس کے ہاتھ پر ہلکا سا اپنا ہاتھ رکھنے کی سعی کی تھی جب وہ ہوش میں آئی،،
وہ سر ؟،
سر وہ؟؟ مجھے پانی پینا ہے؟
ہکلا کر کہتی وہ انکا دھیان بٹانے کی سعی کر رہی تھی۔۔
افسر کے اشارے پر رؤوف سر خم کرتا دروازے سے باہر نکل گیا تھا۔۔
یہ کمرہ زرا ہٹ کے تھا اسی لیے رؤوف کو پانی لانے میں دیر ہو گئی تھی۔۔
دونوں افسران میز کی دوسری جانب نصب کرسیوں پر براجمان ہو گے تھے۔۔
شاید انھیں لگا تھا کہ ان کا شکار انکے پاس محفوظ ہے وہ کبھی بھی جھپٹ سکتے ہیں اس پر ،،
لیکن گھر میں بیٹھی اس لڑکی کی ان پڑھ ماں کی دعاؤں میں اتنی تو طاقت تھی کہ اپنی بیٹی کو بچا سکے،،
اسے لگا تھا کسی غیر مرئی طاقت نے اسے قوت دی ہو،
تبھی اک جھٹکے سے اٹھتی بھاگتی ہوی کمرے کی دہلیز پار کر گئی تھی،،
چند سیکنڈ کا کھیل تھا ،
وہ ہکا بکا رہ گںٔے تھے،،
وہ دونوں راہداری تک اس کے پیچھے آئے تھے ،،
مگر افسوس !
وہ تو اپنی حالت کی پروا کیے بغیر بس بھاگتی جا رہی تھی۔۔۔
اور وہ دونوں اس سے آگے جا کر باہر بیٹھے لوگوں کے سامنے اپنی نام نہاد عزت کا جنازہ نہیں نکال سکتے تھے تبھی بکتے جھکتے واپس کمرے کی جانب بڑھ گے ۔۔
ابھی باقی لوگوں کے انٹرویو بھی تو باقی تھے۔۔۔
Comments are closed.