زمانہ جدید میں بڑھتی ہوئی بے حسی

از قلم: ملائکہ جعفر
یہ قصہ کوئی فرضی کہانی نہیں بلکہ آج صبح میری آنکھوں کے سامنے ہونے والا ایک دلخراش واقعہ ہے۔ آج صبح میں اپنے بابا کے ساتھ کسی کام سے باہر نکلی راستے میں کافی ٹریفک تھی۔ گاڑیاں دوسری گاڑیوں کے ساتھ ٹکراتی ہوئی آگے جانے کی تگ و دو میں تھیں۔ وہاں ایک سائیکل سوار اپنی سائیکل پر زمانے بھر کا کچرا لیے اسی ٹریفک میں آگے بڑھنے کی کوشش میں تھا۔ اور وہ کچرا بھی کسی اور کا نہیں انہی بڑے لوگوں کا تھا جو اپنی بڑی بڑی گاڑیاں لیے اسی ٹریفک میں موجود تھے اچانک اس سائیکل سوار کو چکر آگیا اور وہ اپنی سائیکل سمیت لڑکھڑانے لگا وہاں بہت سے لوگ تھے مگر سب اپنی اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے بے تاب تھے۔ ہم دور کھڑے اس منظر کو ہمدردی بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ ٹریفک اس قدر تھی کے ہم چاہتے ہوئے بھی اس کی مدد کو نہیں جا پا رہے تھے۔ مگر افسوس جو نوجوان اس کے پاس کھڑے تھے وہ اس کی بےبسی پر ہنس رہے تھے اور بجائے اس کی مدد کرنے کے اس کا مذاق اڑانے لگے مگر جہاں بے درد بے حس زمانہ ہے وہاں کچھ حساس اور ہمدرد لوگ بھی موجود ہیں۔ جو اپنے دل میں خوفِ خدا رکھتے ہیں۔ ایک شخص جلدی سے اپنی گاڑی سے اترا اور اس شخص کو پکڑا اور اسے سامنے موجود ایک ہوٹل پر لے گیا اور اسے وہاں بیٹھا کر پانی پلایا۔ اتنی دیر میں ٹریفک بھی کم ہونے لگی اور ہم اس کی بےبسی اور اس زمانے کے مرتے ہوئے احساس کا دکھ دل میں لیے وہاں سے چلے گئے۔ کاش اس بھلے آدمی کی طرح یہ سارا زمانہ بھی ویسا ہی ہو جائے تو اس زمانے سے غربت مٹ جائے گی اور لوگ خوشحال بھی رہیں


گے۔ مگر شاید جب تک لوگوں کو اس بات کی سمجھ آئے گی تب تک بہت دیر ہو جائے گی اور تب شاید وہ چاہ کر بھی کسی کے کام نہیں آسکے گے اور سوائے پچھتاوے کے ان کے پاس کچھ نہیں رہے گا۔


 

Comments are closed.