سینما انڈسٹری

میمونہ لیاقت (چکنمبر24 ایم بی)
سنیما انڈسٹری ہمارے معاشرے میں بہت فروغ پارہی ہے۔ یہی براٸیوں کی جڑ ہے۔ کیوں کہ یہ مغربی تہذیب ہے۔ ہم مشرق میں رہتے ہوۓ مغرب کے نقشِ قدم پہ چل رہے ہیں۔ بہت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہماری حکومت نصف خرچ سینما کو بہتر سے بہتر بنانے میں خرچ کر رہی ہے۔ عوام الناس اس کو اور فروغ دے رہی ہے۔ یہ تو میرے رب کا فیصلہ ہے جیسی عوام ہوگی ویسے حکمران ہوں گے۔ ہمارے نوجوانوں نے اپنے دین کو پسِ پست ڈل دیا ہے۔ ہمارے نوجوان فلموں، ڈراموں میں کچھ اس طرح مگن ہیں کہ اپنی زندگی کا مقصد بھول بیٹھے ہیں۔ افسوس ہے آج کل کے نوجوان تو کیا بوڑهے بھی اپنا ٹائم پاس فلمیں اور ڈرامے دیکھ کے کر رہے ہیں۔ اپنے دل کو بہلانے کا ذریعہ سمجھتے ھیں۔افسوس ہے ایسی عوام پہ جو اس منہگائی کے دور میں اپنا پیسہ غلط رستے پہ لگا رہے ہیں۔
افسوس صد افسوس! عوام اس پیسہ کو صدقہ کی بجائے کسی کی مدد کرنے کی بجائے مغرب کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک ترقی یافتہ ملک میں شامل نہیں ہو پارہا۔ ہمارے ملک کے نوجوان باہر کے ممالک میں جا کے ڈرامے اور گانے گاتے ہیں۔ اپنے دین کو چھوڑ کر ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ انہیں فلموں کی وجہ سے فحاشی عام ہوگںٔی ہے۔ ماں باپ کی قدر رشتے داروں کی قدر کھو چکے ہیں۔ گانےسننا تو دل میں اس طرح نفاق پیدا کرتا ہے جیسے کھیتی فصل۔ ہمارے دل اور ضمیر مردہ ہو چکے ہیں۔
اس فلم انڈسٹری کا سب سے بڑا نقصان ”ڈپریشن“ انہیں فلموں ڈراموں کی وجہ سے ڈپریشن عام ہو گیاہے۔ ہماری نوجوان نسل ڈپریشن کا شکار ہوکر خودکشی کررہی ہے۔ آج کل کی ماٸیں بچوں کو فلموں، ڈراموں سے بہلا کر گھر کا کام کرتی ہیں۔ بچہ روتا ہے تو ڈرامہ لگا دیتی ہیں۔ بعض دفعہ تو ایسا ہوتا ہے۔ بچہ روتا رہتا ہے ماں فلم دیکھ رہی ہوتی ہے کوںٔی پرواہ نہیں بچے کی۔ جب بچہ بڑا ہوکے اسی طرح کرتا ہے ماں پکارتی رہتی ہے بچہ فلم میں مگن۔ تو کہتے اولاد بے وفا۔ افسوس مسلمانوں نے اللہ کے ذکر کی بجائے گانے سننے کو اپنے دل کا سکون سمجھ رکھا ہے۔جبکہ یہی سکون انہیں خودکشی تک لے جاتا ہے۔ ہماری نوجوان نسل کی تعليم اسی وجہ سے بے اثر ہے۔تعلیم کے بعد فحاشی کے دور میں چلے جاتے ہیں۔ افسوس آج کل کے والدین بچوں کو تحفے میں سل فون اور بڑی وال سکرین دیتے ہیں۔ہمارے نوجوان اس ملک کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ ہمارے ملک کا نام اسلامی جہموریہ پاکستان ہے۔ افسوس دین کا مذاق بنا کے رکھ دیا ہے۔ قرآن و احایث کو چھوڑ کر دین کو چھوڑ کر مغرب کی راہ پہ چل رہے ہیں۔ میری درخواست ہے اپنے ملک کے حکمران اور والدین سے کہ اپنے بچوں کا گلہ اپنے ہاتهوں سے مت گھونٹیں۔ اور خود بھی اس گندگی اور دلدل سے باہر نکلیں۔ اپنےبچوں کی تربیت قرآن و احادیث کے مطابق کریں توبہ کا دروازہ موت تک کھلا ہے۔ اپنے رب کو راضی کر لیں۔
Comments are closed.