زندگی کو رشتوں کے ذریعے خوبصورت کیسے بنایا جائے؟


زنیرہ ارشد(سیالکوٹ) 

رسولؐ نے فرمایا (مفہوم) کہ رحم (رشتہ داری) رحمٰن سے ملی ہوئی شاخ ہے، چنانچہ خداوند تعالیٰ نے فرمایا کہ: جو تجھ سے ملے میں اس سے ملتا ہوں اور جو تجھ سے قطع تعلق کرئے میں اس سے قطع تعلق کرتا ہوں۔ (صحیح بخاری:جلد سوم#٩٣٣)

رشتہ! آخر اس لفظ کا مطلب کیا ہے.. میرے خیال سے اس کا مطلب ہے اُمید۔ جب رشتے بنتے ہیں تو اُمید بھی بندھ جاتی ہے۔ جیسے والدین کو اولاد سے نیک ہونے اور ان کے لیے نفع بخش ثابت ہونے کی اُمید، اولاد کو والدین سے مثبت رویے کی اُمید، میاں بیوی کو ایک دوسرے کے ساتھ اچھی زندگی گزارنے کی اُمید اور رشتہ داروں کو مشکل وقت میں آپ کا ساتھ پانے کی اُمید وغیرہ۔ رشتے چاہے جیسے بھی ہوں ان کے ساتھ اُمید کا بندھ جانا ایک فطری عمل ہے لیکن ان اُمیدوں کو زیادہ ہوا نہیں دینی چاہیے کیونکہ سامنے والا آپ کی اُمیدوں پر پورا اترے یہ ضروری نہیں، ہو سکتا ہے وہ آپ سے مختلف سوچ رکھتا ہو اور اس کے نقطہ نظر کے مطابق وہ بھی ٹھیک ہو۔

ایک بچے کی پہلی درس گاہ اس کی ماں کی گود ہوتی ہے ویسے ہی وہ رشتوں کے بارے ميں سمجھ بوجھ بھی والدین سے ہی لیتا ہے جیسے والدین میاں بیوی کے لحاظ سے آپس میں کیسے گفتگو کرتے ہیں اور زیادہ نوک جھونک کرتے ہیں یا بات کو سلجھاتے ہیں، مشکل وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں یا الزام کشی کرتے ہیں، رشتہ داروں کے ساتھ کتنے مخلص ہیں ان کی مدد کرتے ہیں یا چغلیاں، قریبی رشتہ داروں کے بارے ميں کیسی سوچ ہے اور دور کے رشتہ داروں کے بارے میں کیسی سوچ ہے، مہمان کی عزت کرتے ہیں یا اس کے جانے کے بعد اس کی برائی وغیرہ ان سب چیزوں کو بچے نامعلوم طریقے سے سیکھ رہے ہوتے ہیں، آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بچوں کو تو سمجھ نہیں وہ کیسے سیکھ سکتے ہیں، وہ ایسے ہی جیسے آپ کے سکھانے کے بغیر آپ کا بچہ آپ کی ہی زبان بولتا ہے، آپ کو بچوں کو اپنی زبان سیکھانے کے لیے کوئی کورس یا ٹیوشن تو نہیں پڑھانی پڑتی، اسی طرح یہ چیزیں ان میں آہستہ آہستہ سرائیت کر رہی ہوتی ہیں اور ایسے میں بچوں کے اندر جھوٹ لالچ بغض منافقت جیسی برائیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور اگر ماحول اس سے مختلف ہو تو نتیجہ مثبت بھی ہوسکتا ہے اور فیصلہ ماں باپ کے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ وہ اپنی نسل کو کیا دینا چاہتے ہیں۔

رشتوں کو خوبصورت بنانا ایک ہنر ہے۔ اس فن کا ہر انسان کو آنا ضروری ہے کیونکہ رشتے ہر انسان کی زندگی میں ہوتے ہیں۔ یہ سوال ہر کسی کے ذہن میں آتا ہے کہ آخر رشتوں کو کیسے بچایا جائے لیکن میرے ذہن میں اس وقت صرف ایک بات آتی ہے کہ وہ ایک عزیز رشتہ جس کے بغیر ایک وقت ایسا تھا جب ہم جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے اور آج اپنی انا کے لیے اس کا سر قلم کرنے چلے ہیں۔ کبھی کبھی انسان چھوٹی سی بات کو انا کا مسئلہ بنا لیتا ہے اور کبھی انسان بڑی سے بڑی بات کو اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے درگزر کر دیتا ہے۔ رشتوں کو بچانا انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے اور ضروری نہیں کے سامنے والا آپ کو سمجھے جیسا آپ چاہتے ہیں ویسا ہی ردعمل دکھائے ممکن ہے کہ وہ اس وقت کسی اور کیفیت میں مبتلا ہو اگر مثالی رشتے قائم کرنا چاہتے ہیں تو سامنے والے کی پہل کا انتظار مت کریں اپنا ظرف بڑا کریں اور سامنے والے کو منا کر اس کا مان رکھ لیں۔صلہ رحمی اختیار کریں یعنی سامنے والے کی امید سے بڑھ کر اس کے ساتھ اچھا کریں۔ رشتے توڑنے والے نہیں بلکہ جوڑنے والے بنیں کیونکہ جب ہم ایک رشتہ توڑتے ہیں اس وقت تو ہم اپنی انا کی تسکین کر لیتے ہیں لیکن جب ہمیں احساس ہوتا ہے اس وقت سوائے پچھتاوے کے کچھ باقی نہیں رہتا۔ ناراضگی کو زیادہ دیر تک نہ رکھیں جلد از جلد ختم کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اس سے دل میں گرہیں بندھ جاتی ہیں جو ناراضگی ختم ہونے کے بعد بھی کم گفتگو یا خاموش کی جگہ لے لیتی ہیں اور قطع تعلقی کو الله تعالیٰ نے سخت ناپسند فرمایا ہے الله تعالیٰ ہم سب کو اپنے رشتوں کے ساتھ انصاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

Comments are closed.