یورپ پر تہذیب اسلامی کے احسانات

نثاراحمد حصیر القاسمی
شیخ الحدیث معہد البنات بورہ بنڈہ
سکریٹری جنرل اکیڈمی آف ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹیڈیز ۔ حیدرآباد۔
[email protected]
انسانیت کی تاریخ میں جو تہذیبیں اپنے انمٹ نقوش چھوڑتیں اور مادی واخلاقی اور فکری جیسے دیگر گوشوں میں اپنا رول ادا کرتی ہیں وہ زندہ وباقی رہتی ہیں، اور جو اپنے نقوش چھوڑنے اور اہم رول ادا کرنے سے قاصر رہتی ہیں وہ فنا ہوجاتی ہیں۔
اسلامی تہذیب نے ترقی کی تاریخ میں اہم رول ادا کئے اور اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، عقیدہ ہویا علم وہنر، سائنس ہو یا طب وحکمت ، فلسفہ ہو یا فن وادب یا دیگر گوشے ہر ایک کے اندر تہذیب اسلامی کے اثرات نمایاں ہیں اور آج کی تہذیب اپنے علم وہنر اور دریافت میںجہاں پہنچی ہے وہ صدیوں پہلے وہاں پہنچ چکی تھیں، اور اسکی بدولت ہی آج کی تہذیب ترقی یافتہ کہلاتی ہے کہ یہ اسلامی تہذیب ہی سے خوشہ چینی کرنے والی واستفادہ کرنے والی ہے۔ کوئی میدان ایسا نہیں جسے اسلام اور اس کی تہذیب نے تشنہ چھوڑا ہو ، اور اس کی ترقی میں اہم رول ادا نہ کیا ہو، یہ گوشے تو بے شمار ہیں مگر ان میں سے چند گوشوں کو بطور خاص ہم یہاں ذکر کرنا چاہتے ہیں۔
عقیدہ:
مذہبی اصلاحات کی تحریکیں جو یورپ میں ساتویں صدی عیسوی میں شروع ہوئی تھیں اور موجودہ ترقی کے زمانہ تک جاری رہیں اسلامی تہذیب کے اصول ومبادی اور اس کے قواعد وضوابط نے اس پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے ، اسلام کا اعلان عام اور اس کا بنیادی عقیدہ ہے کہ اللہ ایک ہے، ساری قدرت اور سارے اختیارات اسی کے ہاتھ میںہے، اصل حکمرانی اور مکمل اتھاریٹی اللہ ہی کے پاس ہے۔ وہ جسم اور جہات سے پاک ہے، وہ ظلم ونا انصافی کو ناپسند کرتاوہ ہر عیب سے پاک ہے، اس میں کوئی نقص وکمی نہیں ہے، اسلام نے یہ بھی واضح کیا کہ انسان اللہ کی عبادت کرنے اور اس سے تعلق جوڑنے میں آزاد ہے، اس کی شریعت کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کے لئے کسی واسطے یا وسیلے کی ضرورت نہیں، اسلام کے اس عقیدے نے دنیا کے عوام کے دلوں کو کھولا، ان کیساتھ وسیع افق کو روشن کیا اور انہیں اپنے رب سے مربوط ہو کر جینے کا سلیقہ دیا جبکہ اس وقت دنیا مذہبی خصومات کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی، اور قوموں نے دوسرے انسانوں اور مذہبی رہنمائوں کو ہی اپنا رب بنا رکھا تھا، جو ان کے افکار وخیالات ، سوجھ بوجھ، مال ودولت یہاں تک کہ ان کی جان وجسم پر بھی کنٹرول کرنے اور حکمرانی کرنے والے بنے ہوئے تھے، اسلامی فتوحات جب مشرق ومغرب اور ہر چہار دانگ عالم پہنچا تو وہاں کے لوگ اور اسکے پاس پڑوس اور قرب وجوار کے لوگ ان مسلمانوں سے متاثر ہوئے اور سب سے پہلے عقیدے کا اثر ان پر پڑا، اسی تاثر کا نتیجہ تھا کہ ساتویں صدی عیسوی میں مغرب کے اندر ایسے مفکرین ودانشور پیدا ہوئے جنہوں نے تصویروں اور مجسموں کی پرستش کا انکار کیا ، اس کے بعد ایسے اہل علم سامنے آئے جنہوں نے اللہ اور اس کی بندگی کے درمیان واسط ہے کی سختی سے مخالفت کی اور مذہبی ٹھیکداروں اور ان کی نگرانی وحکمرانی کے بغیر اپنی کتاب مقدس کو سمجھنے اور اس پر آزادانہ عمل کرنے کی دعوت دی۔
بہت سے محققین کی رائے ہے کہ مسٹر ’’لوتھر‘‘ نے جو اصلاحی تحریک شروع کی تھیں وہ اس تاثر کا نتیجہ تھا جو انہوں نے مسلم علماء ودانشور اور عرب فلاسفر کی کتابوں اور وحی الٰہی ، عقیدہ اور دین ومذہب سے متعلق ان کے خیالات کو پڑھ کر اور مطالعہ کرکے حاصل کیا تھا، ان کے زمانہ میں یورپ کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جانے والی کتابوں اور مواد کا انحصار مسلم فلسفیوں کی کتابوں پر تھا، جو لاطینی زبان میں ترجمہ ہو کر ان تک پہنچی تھیں۔
سائنس وفلسفہ : سائنس ، فلسفہ ، میڈیکل سائنس، ریاضی کیمسٹری ، جغرافیائی اور علم ہئیت وفلکیات اور طبعیات وریاضیات وارضیات جیسے میدانوںمیں اسلام نے یورپ کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا ہے، علماء اسلام اور ہمارے فلاسفر یہ سارے علوم یورپ کے اندر پڑھاتے اور اشبیلیہ ، قرطبہ ، غرناطہ ، اور دوسرے شہروں کی مسجدوں کو ان علوم کی تعلیم وتدریس سے آباد کئے ہوئے تھے، ان سے پڑھنے کے لئے آنے والے مغربی باشندے اور ہمارے اسلامی درسگاہوں سے استفادہ کرنے والے یورپ کے نوجوان ، ان کی تعلیم سے حیرت واستعجاب میں ڈوبے رہتے اور بڑی دلچسپی رکھتے تھے، وہ آزادی کے ساتھ ان کے حلقہ درس میں بیٹھتے اور استفادہ کرتے تھے، اس طرح کا ماحول اور علمی حرکت ونشاط انہیں دوسری جگہ میسر نہیں تھی، جس وقت ہمارے علماء اسلام اور محققین اپنی درسگاہوں میں اور اپنی تالیفات میں زمین کے گول ہونے اور اس کے چکر لگانے ، افلاک اور اجرام سماویہ کے حرکت کرنے اور اس طرح کی باتوں پر گفتگو کررہے تھے، اہل یورپ کی عقلیں ان حقائق سے نابلد اور اوہام وخرافات میں غرق تھیں، ان علماء کے شہ پاروں اور ان کے دروس کے طفیل ہی اہل مغرب میں ترجمہ کی تحریکیں شروع ہوئیں ، انہوںنے عربی زبان سے ان کی کتابوں اور تحقیقات کا ترجمہ لاطینی زبان میں کرنا شروع کیا اور ہمارے علماء کی کتابیں ترجمہ ہونے کے بعد مغرب کی یونیورسٹیوںمیں پڑھائی جانے لگیں، علم طب (میڈیکل سائنس) میں ابن سینا کی کتاب ’’القانون‘‘ کا ترجمہ لاطینی زبان میںبارہویں صدی میں ہوا، امام رازی کی کتاب ’’الحاوی‘‘ کا ترجمہ انہوں نے اپنی زبان میں تیرہویں صدی کے اواخر میں کیا اور یہ دونوں کتابیں ان کی یونیورسٹیوں میں سولہویں صدی کے اخیر تک داخل نصاب رہیں اور پڑھائی جاتی رہیں۔ فلسفہ کی کتابیں تو اس سے بھی زیادہ تھیں اور طویل عرصہ تک پڑھائی جاتی رہیں، مغرب کو یونان کے فلسفہ کی ہوا تک نہیں لگی تھی، انہیں اس کا علم علما اسلام کی کتابوں سے ہوا اور اس کے بعد ان کتابوں کا بھی انہوں نے اپنی زبان میں ترجمہ کرکے داخل نصاب کیا۔ آج بھی انصاف پسند مسلم مغربی مفکرین اعتراف کرتے ہیں کہ قرون وسطیٰ میں مسلم مفکرین وعلماء اسلام ہی یورپ کے استاذ رہے ہیں، اور کم از کم چھ صدی تک انہیں علم کے گوہر نایاب سے آشنا کرتے رہے ہیں، مسٹرجوسٹاف لوبرن کا کہنا ہے کہ عرب کی کتابوں کے ترجمہ خاص طور پر علمی وسائنسی کتابیں ہی پانچ چھ صدی تک یورپ کی یونیورسٹیز میں تدریس کا واحد ماخذ رہی ہیں، اسی طرح معروف مستشرق عالم سیڈیو کا کہنا ہے کہ عرب ہی وسطی تہذیب کا پرچم بلند کئے ہوئے تھے، انہوںنے ایسے یورپ کے ظلم وبربریت کا خاتمہ کیا ہے جس کی چولیں شمالی قبائل کے حملوں نے ہلا رکھی تھیں، عرب یونانی فلسفہ کے لازوال سرچشموں کی طرف رواں دواں رہے، وہ کہیں رکے نہیں، بلکہ ان کی پیش قدمی جاری رہی، انہوں نے علوم وفنون کے خزانوں سے استفادہ ہی نہیں کیا بلکہ اس میں وسعت پیدا کی اور طبعیات وسائنسی علوم کی تدریس کے نئے دروازے کھولے، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عرب جس وقت علم ہئیت اور فلکیات کی گتھیاں سلجھا رہے تھے اس کے نئے نئے پہلوئوں کو اجاگر کررہے تھے نئی نئی تحقیقات پیش کررہے تھے اور اسے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا ئے ہوئے تھے اسی وقت وہ ریاضی والجبرا پر بھی توجہ مرکوز کرنے والے تھے، اس میں انہیں مکمل دسترس حاصل اور اس میں وہ تصور سے بڑھ کر عبور رکھنے والے تھے ۔ واقعہ یہ ہے کہ ان سارے علوم میں وہی ہمارے اولین استاذ ہیں۔ہومبلڈ نے کائنات سے متعلق اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے کہ :
’’عربوں ہی نے کیمیکل فارمیسی ودواسازی کا فن ایجاد کیا ، عربوں ہی کی جانب سے اس سے متعلق اولیں خدمات ورہنمایانہ خطوط وضع کئے گئے جسے سالیرم کی درسگاہ نے اپنایا اور ایک مدت کے بعد یہ جنوبی یورپ میں عام ہوا، فن شفایابی کی بنیاد فارمیسی اور طبی مواد پر ہے اور اسی بنیاد نے بیک وقت کیمسٹری اور علم نباتات پر تحقیق کرنے کی داغ بیل ڈالی اور اس علم کے لئے عربوں نے نئے دور کا آغاز کیا۔
سیڈیو امام رازی اور ابن سینا کے بارے میں کہتے ہیں کہ
’’ ان دونوں نے اپنی کتابوں کے ذریعہ ایک طویل عرصہ تک مغرب کی درسگاہوں کو مغلوب وممنون رکھا ، یورپ میں ابن سینا کو ایک ماہر طبیب کی حیثیت سے شہرت حاصل رہی ، انہیں یورپ کی درسگاہوں پر مکمل اقتدار حاصل رہا اور چھ صدی سے زیادہ دنوں تک ان کی یہ حکمرانی جاری رہی ۔ان کی کتاب ’’القانون‘‘ کی پانچوں جلدوں کا ترجمہ یورپ کی مقامی زبان میں کیا گیا اور بار بار اس کی اشاعت عمل میں آتی رہی ، کیونکہ بطور خاص فرانس واٹلی کی یونیورسٹیوںمیں اسی کی تحقیقات کی اساس وبنیاد سمجھا جاتا تھا۔
زبان وادب کا میدان:
اہل مغرب اور بطور خاص اسپین کے شعراء عربی زبان وادب سے بہت متاثر تھے، گھوڑ سواری ،دلیری اور شاندار وانوکھے تصورات تخیلات کے آداب عربی ادب سے مغربی ادب میں خاص طور پر اندلس میں داخل ہوئے ، اسپین کے مشہور صاحب قلم ادیب ابانیز کا کہنا ہے کہ
’’یورپ والے گھوڑ سواری کے آداب سے واقف نہیں تھے اور نہ اس کا لحاظ کرتے تھے دلیری وگھوڑ سواری کے آداب اہل یورپ میں اس وقت عام ہوا جب عرب کے وفوداندلس آئے اور ان کے بہادر ہیرو جنوبی علاقوں کو اپنا مسکن بنایا۔ چودہویں صدی عیسوی اور اس کے بعد بڑے ادباء یورپ آئے اور ان کی آمد کے بعد عربی ادب کی اثر انگریزی ‘ ان کی ناولوں ، کہانیوں اور آداب میں نمایاں طور پر ظاہر ہونے لگیں، 1349ء میں بوکا شیو نے اپنی حکایات ’’دس صبحیں‘‘ کے نام سے تحریر کیں جو الف لیلہ کے طرز پر ہیں، شیکسپیر اپنے ڈرامہ ، اعتبار، انجام کازکا ہے، میں اسی سے اقتباسات لئے، انگریزی زبان میں جدید شاعری کے امام سمجھے جانے والے’’ چوسر ‘‘نے اپنے زمانہ میں بوکاشیو سے دل کھول کر بھر پور استفادہ کیا۔ اٹلی میں ان سے ملنے کے بعد کیستر بری کی حکایتوں سے مشہور اپنی کہانی کو نظم میں پیش کیا۔ اسی طرح مسٹر ڈینی سے متعلق بیشتر ناقدین کا کہنا ہے کہ
ــ’’ خدائی کہانی‘‘ جس میں انہوں نے دوسری دنیا کی طرف کوچ کرنے کا تذکرہ کیا ہے، اس میں معری کے رسالہ الغفزان سے انہوں نے خوشہ چینی کی ہے اور ابن عربی کی جنت کے اوصاف واحوال سے متاثر ہو کر اس سے خوب استفادہ کیا، اور اپنی کتاب کو اس کے اقتباسات سے آراستہ کیا ہے۔ یورپی افسانے اور کہانیاں آغاز سے ہی عربی ادب سے متاثر رہے، قرون وسطیٰ میں قصے کہانی اور ناول نگاری جیسے فن کے ذریعہ ادب عربی نے دنیائے ادب پر راج کیا، عرب مقامات ومناظر کی عکاسی ، گھوڑ سواری ، شرافت وبزرگی ، خطرات سے کھیلنے اور دلیری کی باتوں کو شاندار پیرہن میں پیش کرنے میں بے مثال رہے ہیں جس سے یورپی ادب نے بھر پور استفادہ کیا، بارہویں صدی عیسوی میں الف لیلہ ولیلہ کے ترجمے جب یورپ کی مختلف زبانوں میں ہوئے تو ادب اسلامی عربی کے نقوش یورپ کے ادب پر نمایاں طور پرنظر آنے لگے۔ اس وقت سے حالیہ زمانہ تک الف لیلہ کا یورپ کی زبانوں میں جو ترجمہ ہواہے اس کی تین سو سے زائد مرتبہ طباعت واشاعت عمل میں آچکی ہے، اسی لئے یورپ کے بہت سے ناقدین تسلیم واعتراف کرتے ہیں کہ سو ویفٹ کی تالیف کردہ کتاب سفر نامہ جیلفر اور دیوو کی تالیف کردہ کتاب بلینسن کرورز کا سفرنامہ الف لیلہ ولیلہ کی مرہون منت اور عرب فلاسفر ابن طفیل کے رسالہ ’’ حی بن یقظان‘‘ کا احسان مند ہے۔ یورپی زبانوں نے زندگی کے مختلف شعبہ سے متعلق اپنی زبان میں عربی کے الفاظ وکلمات کو شامل کیا۔ کبھی تلفظ بدل کر ، اور زیادہ تر بعینہ عربی تلفظ کے ساتھ جیسے قطن سے کاٹن، حریر دمشقی (ریشم ) مسک، (مشک) شراب (مشروب یا شربت) جرہ (گھڑا) لیمون (لیمن) صفر (زیرو) اور اس کے علاوہ بے شمار الفاظ ہیں جسے شمار کرنا مشکل ہے۔
قانون سازی :
اندلس اوریورپ کے دیگر شہروں اور ملکوں میں مغرب کے طلباء کے اسلامی مدرسوں سے رابطہ کا ان پر بڑا اثر ہوا، انہوں نے فقہی احکام اور قانون سازی کے اصول وضوابط اپنی زبان میں منتقل کئے۔ اس وقت تک یورپ میں نہ تو عادلانہ قوانین کا رواج تھا اور نہ مضبوط ومستحکم قانونی نظام سے وہ آشنا تھے۔ یہاں تک کہ مصر میں نابلیوں کے دور میں فقہ مالکی کی مشہور کتابوں کے ترجمے فرانسیسی زبان میں ہوئے، ان میں اولین کتاب ’’کتاب خلیل‘‘ تھی اور یہی فرانس کے شہری قانون کی بنیاد بنی۔ جو فقہ مالکی کے مطابق اسلامی قانون کا چربہ تھی۔ مشہور یورپی مفکر سپڈیو کا کہنا ہے کہ مذہب مالکی ہی نے ہمیں قانونی طور پر چلنا سکھایا اور ہم نے اس قانون کو اس لئے اختیار کیا کہ ہمارے گہرے روابط افریقی عرب کے ساتھ تھے، اور ہم اس سے آگہی حاصل کرنے کے بعد اس قانون کی خوبیوں سے باخبر ہوگئے تھے، اس وقت کی فرانسیسی حکومت نے ڈاکٹر بیرون نے ایک معاہدہ کیا تھا۔ اور اس معاہدے میں ان سے خواہش کی گئی تھی، کہ وہ خلیل بن اسحاق بن یعقوب کی کتاب ’’ المختصر فی الفقہ‘‘کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کردیں۔
یہ تو یورپی تہذیب پر اسلامی تہذیب کے اثرات واحسانات کا سرسری تذکرہ ہے اور یہ محض ایک جھلک ہے ، مگر آج مسلمان اسی مغربی تہذیب کے پیچھے بھاگ رہے اور سمجھ رہے ہیں کہ وہ بڑا داتاہے اور ہماری تہذیب تہی دست ہے۔ جو اپنی تاریخ سے ہماری نا واقفیت کی وجہ سے ہے، اے کاش کہ ہم اپنی تاریخ سے باخبر اور عظمت رفتہ کو واپس لانے کا عزم کرتے ۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ کام دنیا کی امامت کا
علم وتحقیق کے میدان میں آگے بڑھنے کی اسی طرح جدوجہد کرتے جس طرح ہمارے اسلاف ان فنون کے آفتاب وماہتاب تھے، آج ہماری پستی وزبوں حالی کی وجہ یہی ہے کہ ہم تعلیم کے میدان میں پیچھے ہوگئے اور اسے دوسروں کے لئے کھلا چھوڑ دیا۔ یاد رکھیں ہم اس وقت تک سرخروئی بلندی ترقی ،عروج ‘عزت ونیک نامی اور حکمرانی ودبدبہ حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ ہم علم کے میدان میں آگے نہ بڑھیں اور تحقیق وایجادات کی وادیوں میں اپنا لوہا نہ منوائیں اور ہمارے اندر آگے بڑھنے کا عزم وحوصلہ پیدا ہو۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
Comments are closed.