ماہِ رجب کی فضیلت وحرمت

فرحت ناز کوثر ,صدر المعلمات معہد سیدہ خدیجہ الکبری ملکانہ, پوسٹ میگھون, مدھوبنی
ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو
خالقِ کائنات، صانعِ موجودات، باری تعالیٰ عزّ اسمہ نے آسمان و زمین کو پیدا کرنے کے دن اپنی کتاب، نوشتۂ تقدیر، لوحِ محفوظ میں یہ لکھ دیا کہ اللّٰہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے۔۔۔ محرّم، صفر، ربیع الاوّل، ربیع الثانی، جمادی الاولی، جمادی الثانیہ، رجب، شعبان، رمضان، شوّال، ذی القعدہ اور ذی الحجہ۔۔۔ ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے: ذی القعدہ، ذی الحجہ، محرّم اور رجب حرمت والے، قابلِ احترام اور واجب التعظیم ہیں۔۔۔ ان چار مہینوں میں جنگ و جدال اور قتل و قتال حرام ہے۔۔۔ ان چار مہینوں میں نیکیوں کا ثواب دو چند اور برائیوں کا وبال زیادہ ہو جاتا ہے۔۔۔ تمام انبیاءِ کرام اور رُسلِ عظام کا بھی یہی موقف تھا اور سبھوں کی شریعت میں بھی یہی بات تھی۔۔۔ سیدنا ابراہیم علی نبینا و علیہ الصلاۃ و السلام کی شریعت میں بھی یہی حکم تھا۔
مگر اپنے آپ کو ملتِ ابراہیمی پر ہونے کا دعویٰ کرنے والی عرب قوم نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے زمانۂ جاہلیت میں، اس امر میں تین اعتبارات سے تحریف کر دی تھی۔
(1) کبھی جنگ کرتے کرتے جب حرمت والا کوئی مہینہ، مثال کے طور پر ماہِ رجب آجاتا اور ان کی جنگ ختم ہونے کا نام نہ لیتی تو وہ یہ اعلان کر دیتے کہ اس سال رجب کا مہینہ حرمت والا نہیں رہے گا؛ بلکہ اس کے بدلے میں کوئی اور مہینہ، حرمت والا ہو جائے گا۔۔۔
(2) کبھی کبھی مذکورہ بالا صورتِ حال میں یہ اعلان کر دیتے کہ اس سال حرمت والا مہینہ رجب نہیں ہوگا؛ بلکہ رجب کے بعد والے مہینے، ماہِ شعبان کو حرمت والا مہینہ قرار دیا جاتا ہے۔۔۔ لیکن جب شعبان تک بھی جنگ چِھڑی رہ جاتی تو یہ قرار پاتا کہ شعبان بھی حرمت والا مہینہ نہیں ہوگا؛ بلکہ اگلا مہینہ حرمت والا ہوگا۔۔۔ اسی طرح حسَبِ سہولت حرمت والے مہینے کو کھسکاتے رہتے۔۔۔
(3) تحریف کی تیسری شکل یہ تھی کہ بسا اوقات جنگ کرتے کرتے دس مہینے گزر جاتے۔۔۔ تب احساس ہوتا کہ اس سال تو حرمت والے چار مہینوں کی تعداد پوری نہیں ہو پائے گی!!! تو پھر تعداد پوری کرنے کے لیے یہ اعلان کر دیتے کہ اس سال مہینوں کی تعداد بارہ نہیں؛ بلکہ چودہ رہے گی۔
چنانچہ ملتِ ابراہیمی پر ہونے کے دعوے کو پورا کرنے کے لیے، کسی نہ کسی طرح اَدل بدل کے، آگے پیچھے کر کے یا بڑھا گھٹا کے حرمت والے چار مہینوں کی تعداد پوری کرلیا کرتے تھے۔۔۔
اُن کا یہی سلسلہ جاری تھا؛ یہاں تک کہ آفتابِ اسلام طلوع ہوا، اسلام نے رفتہ رفتہ دیگر جاہلانہ رسوم و رواج کی طرح، اس تحریف کی تصحیح میں بھی کام یابی حاصل کرلی۔۔۔ چناں چہ پیغمبرِ اسلام صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے سن دس ہجری میں، حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا: ” آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے نے، آسمان و زمین کو پیدا کرنے کے دن، زمانے کو جس حالت میں پیدا کیا تھا، اسی اصلی حالت پر زمانہ دو بارہ آ چکا ہے۔۔۔ اصلی حالت میں سال کے چودہ مہینے نہیں؛ بلکہ بارہ مہینے ہوتے تھے؛ لہٰذا اب ایک سال بِلا حذف و اضافہ، بارہ مہینوں پر ہی مشتمل ہوا کرے گا۔۔۔ بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرمت والے ہوں گے۔۔۔ چار مہینوں میں سے تین مسلسل ہوں گے: ذی القعدہ، ذی الحجہ اور محرّم۔
قبیلۂ مضر کے علاوہ دیگر قبائلِ عرب نے ایک اور تحریف یہ کر رکھی تھی کہ انھوں نے ماہِ رمضان کا نام رجب رکھ ڈالا تھا، صرف قبیلۂ مضر نے اس کو اپنی حالت پر بر قرار رکھا تھا؛ اسی لیے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: چوتھا حرمت والا مہینہ رجبِ مضر ہوگا، جو کہ جمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان والا مہینہ ہے۔
علاوہ ازیں ماہِ رجب کو رمضان کا پیش خیمہ بھی ماننا چاہیے، جب شادی، بیاہ، سماجی، سیاسی، ملکی، ادارتی تقریبات اور مدارس و جامعات کے امتحانات کی تیاریاں مہینوں پہلے سے کی جاتی ہیں تو کیا رمضان کی اتنی اہمیت نہیں ہے کہ اس کی تیاری ایک دو مہینے پہلے سے کی جانے لگے۔۔۔!؟
رجب المرجب کا مہینہ سایہ فگن ہوتے ہی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم کے دل میں رمضان المبارک کا اتنا اشتیاق پیدا ہو جاتا تھا کہ آپ دعا فرمانے لگتے تھے: یا اللّٰہ! رجب و شعبان میں ہمارے لیے برکتیں عطا فرما دے، اور جب تو نے رمضان کے اتنا قریب پہنچا دیا ہے تو اب رمضان کا مہینہ نصیب فرما دے؛ تاکہ میں رمضان کی فضیلتوں، رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کر سکوں۔
عارف باللہ حضرت ذو النون مصری رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں کہ رجب گناہوں کو چھوڑنے کا مہینہ ہے، شعبان نیکیاں کرنے کا مہینہ ہے اور رمضان اللّٰہ کے فضل و کرم کو لوٹنے کا مہینہ ہے۔حضرت ابو بکر بلخی رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں کہ رجب فصل بونے کا مہینہ ہے، شعبان فصل کی سینچائی کا مہینہ ہے اور رمضان فصل کی کٹائی کا مہینہ ہے۔
حضرت ابو بکر ورّاق رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں کہ رجب کی مثال نیکیوں کے لیے بادِ بہاری کی سی ہے، شعبان کی
مثال گھٹاؤں کی سی ہے اور رمضان کی مثال بارانِ رحمت کی سی ہے۔
کسی بزرگ کا قول ہے کہ "سال” درخت کے مانند ہے، ماہِ رجب اس کے لیے ہریالی، سر سبزی و شادابی کا موسم ہوتا ہے، ماہِ شعبان اس کے لیے پھلنے پھولنے کا موسم ہوتا ہے اور رمضان اس کے لیے پھل توڑنے کا موسم ہوتا ہے۔
ایک طرف ماہِ رجب جہاں خود بڑی عظمت و حرمت والا مہینہ ہے، وہیں دوسری طرف وہ رمضان المبارک کی آمد کی قربت کا احساس دلانے والا، اس کی تیاری پر آمادہ کرنے والا اور اس کے استقبال کے لیے کھڑا کرنے والا مہینہ بھی ہے۔
بے زبانوں کو جب وہ زبان دیتا ہے
پڑھنے کو پھر وہ قرآن دیتا ہے
بخشش پہ آتا ہے جب امت کے گناہوں کو
تحفے میں گناہ گاروں کو رمضان دیتا ہے
Comments are closed.