"اِک اُمنگ جینے کی”

از قلم: ماہِ مریم
تحریریں لفظ بھی ہو سکتے ہیں اور جذبات بھی۔ دل چاہتا ہے کہ پڑھنے والا لفظوں کو پڑھنے کے بجائے محسوس کرے مگر یہاں کون کسی کا درد سہتا ہے۔ یہی تو زندگی کا سفر ہے۔
خیر
کچھ لفظ کچھ باتیں میری زندگی سے۔
بڑی بے رحم زندگی ہے، اس قدر درد دیتی ہے اتنے روپ بدلتی ہے کہ پلکوں کے جھپکنے تک اس کا اگلا رنگ نمودار ہوتا ہے۔ اپنی آنکھوں سے اس کے اتنے رنگ دیکھتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ کونسا رنگ میرا مقدر ہے مگر ہمیشہ اس کا سیاہ رنگ میرے حصے میں آیا ہے۔زندگی میں تاریکی سی چھائی ہے
بڑی بے رحم زندگی ہے۔ نہ تو سامنے والے کی عمر دیکھتی ہے نہ ہمت۔ یہ کبھی نہیں دیکھتی کہ سامنے والا اتنی سکت رکھتا ہے کہ میرے ان رنگوں کو ہنسی خوشی سہہ سکے۔ وہ اس اذیت کو نہیں دیکھتی جو سامنے والا محسوس کرتا ہے۔ زندگی اس قدر درد دے رہی ہے کہ اس کا سامنا کرتے کرتے میرا وجود بکھرنے لگا ہے۔ اور میں اس بکھرے وجود کی کرچیاں سمیٹنے لگوں تو ہاتھ زخمی ہوجاتے ہیں مگر یہ کرچیاں نہیں سمیٹتی۔ اس کچی عمر میں جب یہ سوچوں کہ تھوڑی دیر کے لیے نیند اپنی آغوش میں لے اور میں بھی کچھ لمحے اس بے درد زندگی سے نظر ہٹا کر نیند کی طرف مائل ہو جاؤں اورحسین خواب دیکھوں ان خوابوں کو پورا کرنے کی تمنا دل میں لاؤں مگر خوابوں کے آنکھوں میں آتے ہی یہ زندگی آکر ان خوابوں کو میری آنکھوں میں توڑ دیتی ہے۔ ان ٹوٹے خوابوں کی چبھن میری آنکھوں میں محسوس ہوتی ہے اور زندگی نہایت سفاکی سے میری آنکھوں سے آنسو تک چھین لیتی ہے۔ میں من کو ہلکا کرنے کے لیے خوابوں کے ٹوٹنے پر رو بھی نہیں سکتی۔ آنسو آنکھوں تک پہنچ نہیں سکتے اور کہیں دل میں اٹک جاتے ہیں تب میرا دل بند ہونے لگتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ شاید میری قسمت بدلنے والی ہے۔ زندگی اپنے رنگ بدل بدل کر تھک گئی ہے اور محسوس کر رہی ہے کہ سامنے والے کی ہمت ختم ہے۔ مگر یہ زندگی۔
یہ زندگی تو میرا دل بھی بند ہونے نہیں دیتی مجھے وہ رنگ دکھاتی ہے کہ جینے کی امنگ ہوتی ہے۔سوچتی ہوں کہ اب کوئت سیاہ پہلو میری زندگی میں نہیں آئے گا۔زندگی روشن ہو جاۓ گی۔اب میں بھی حسین خواب دیکھوں گی انہیں پورا کروں گی۔
مگر یہ سراب دکھاتی ہے۔ میں جیسے ہی مسکرانے لگتی ہوں اذیتیں میرے سر پر کھڑی ہو جاتی ہیں۔ اور میں تب ان حادثوں کے ساتھ مسکرانے کی کوشش کرتی ہوں مگر میرا من میرا ساتھ نہیں دیتا اور میں کھوکھلی مسکراہٹ کے ساتھ رہ جاتی ہوں۔ جب کوئی مجھے یہ کہتا ہے نہ کہ میں تو بہت مضبوط ہوں تو میرا دل چاہتا ہے میں چیخ چیخ کر کہوں کہ مجھے دیکھو۔ میں بھی بہت مضبوط ہوں زندگی کی تلخیوں کو ہر لمحہ پیتی ہوں مگر کڑوی نہیں ہوں، زندگی کی اذیتوں کو ہر سانس کے ساتھ محسوس کرتی ہوں مگر چپ چاپ سہتی ہوں۔ دوسروں کو خوابوں کو دیکھتے مسکراتے اور خوابوں کو پورا کرتے دیکھتی ہوں تو من میں کسک سی پیدا ہوتی ہے کہ میں خواب دیکھوں ان کو پورا کروں مگر میں اس کو ڈپٹ دیتی ہوں۔
کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ زندگی اس قدر بے رحم کیوں ہے۔۔ ہر ایک کے ساتھ ایسا کرتی ہے یا صرف میرے معاملے میں اپنے رنگ دکھاتی ہے۔
لیکن پھر بھی اک امید کے ساتھ میں سوچتی ہوں کبھی تو وہ پل آئے گا جب زندگی مجھے آزما کر تھک جاںٔے گی نہ اور ختم ہونے لگے گی میرا خدا مجھے تکلیف میں دیکھ کر اپنے پاس بلاںٔے گا نہ تب میں زندگی کو دیکھ کر قہقہہ لگاؤں گی اور تب میں زندگی کو کہوں گی دیکھو میرے ہارنے سے پہلے تم ہار گئی ہو۔ تب نہ کوئی خواب دیکھنے کی تمنا ہوگی نہ زندگی کا خوف۔ تب میں بھی سکون کی نیند سو جاؤں گی۔
Comments are closed.