احترام شوہر کانفرنس

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی
آج صبح دم ہی پروفیسرٹامک ٹوئیاں ڈوربیل سے اس طرح چپک گئے، جیسے جونک، تسلسل کے ساتھ گھنٹی کی ٹن ٹن نے خواب خرگوش سے اٹھاکرہی دم لیا، تہہ بند تہہ کرتے ہوئے دروازہ کھولاتوپروفیسر کی شکل دیکھ کریقین ہی نہیں آرہاتھا، اتنی صبح! آخربات کیاہے؟پروفیسر نے چہرے کے سامنے ہاتھ نچاتے ہوئے میری سوچ کی ڈور کوتوڑتے کہا: اماں! یہ میں ہوں، تمہارا دوست، پروفیسر، اندرآنے کونہیں کہوگے کیا؟چونکتے ہوئے میں نے آں اوں کیا اورپروفیسر کوڈرائنگ روم میں بٹھایا۔
پروفیسر کے بغل میں گول لپیٹے ہوئے اخبار پرنظرپڑی توسمجھ گیاکہ آج کچھ نیاہے، ورنہ پروفیسر اتنی صبح نہیں آدھمکتے، ابھی انھوں نے بغل کی طرف ہاتھ ہی بڑھایاتھا کہ میں نے کہا: آپ تشریف رکھ کرسانسیں درست کریں، تب تک میں تقاضائے بشریت سے نمٹتے ہوئے حلیہ درست کرآتاہوں، پھرگفتگو کریں گے، ’’اماں! چائے وغیرہ ساتھ میں لانا نہ بھولنا‘‘کے جملہ کااضافہ کرتے ہوئے وہ صوفہ پردراز ہوگئے اورباقاعدہ سانسیں اس انداز میں درست کرنے لگے، جیسے رام دیوکے مایہ ناز شاگرد ہوں۔
کچھ دیرکے بعدجب میں کمرے میں داخل ہوا توکمرے میں ایسی آوازیں گونج رہی تھیں، جیسے سانپ سیٹی بجارہاہو، اول وہلہ میں توچونکنالازم تھا؛ لیکن جب آواز کی طرف کان لگایاتوطمانینت حاصل ہوئی کہ یہ سانپ نہیں؛ بل کہ پروفیسرصاحب کی سانسیں درست کرنے کی آواز تھی، جواس لاشعوری کی حالت میں نکل رہی تھی، جس میں وضوبھی شکست ہوجایاکرتاہے، میں نے انھیں آواز دی تووہ ہڑبڑا اٹھے اورمعذرت کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ’’ میں اتنی لمبی سانسیں درست کرنے کاعادی نہیں ہوں، وہ توتمہارے صوفہ کاکمال ہے کہ اتنا وقت لگ گیا‘‘، پھرٹرے پرنظرڈالتے ہوئے کہا: ہاں ! اب بیٹھو اطمینان سے ، میں بھی اطمینان سے آیاہوں اوردانستہ طور پرفون بھی ساتھ میں نہیں لایاہوں۔
اطمینان سے آئے وہ توٹھیک ہے؛ لیکن آج کے زمانہ میں فون کے بغیرآئے، جب کہ لوگ فون کے ساتھ اس طرح چپکے رہتے ہیں، جیسے ہاتھی پارک میں سویٹ سکسٹین (Sweet Sixteen) کے ساتھ سالٹی ٹوینٹی ٹو(Salty Twenty Two)چپکارہتاہے، یہ ذراباؤنس کررہاہے، ذرا تفصیل کیجئے، تفصیل کانام سنتے ہی پروفیسر صاحب کی بانچھیں کھل گئیں؛ کیوں کہ انھیں سب سے زیادہ اس وقت غصہ آتاہے، جب کوئی انھیں وقت کی تقیید کے ساتھ کچھ کہنے کے لئے کہے ، ان کاماننا ہے کہ وقت کی تقیید اوروہ بھی اسٹیج پر مائک سامنے بالکل ایساہی ہے، جیسے بلاغت میں ’’تعقید‘‘ ، وہ اسے ’’تنافرکلمات‘‘ سے تعبیرکرتے ہیں؛ بل کہ جب انھیں کوئی دعوت اسٹیج دیتاہے توپہلاسوال یہ کرتے ہیں کہ ’’ہمیں بولنے کے لئے وقت ملے گا یانہیں؟ اوردوسرا سوال یہ ہوتاہے کہ اگروقت ملے گاتوتقیید تونہیں ہوگی؟‘‘، اگرجواب ہاں اورنہیں میں(لف ونشرمرتب طورپر) ہوتاہے تودعوت قبول کرتے ہیں، ورنہ ان شاء اللہ تعالیٰ کی جگہ ان شاء اللہ ٹالا کہہ دیتے ہیں۔
کھلی بانچھوں کے ساتھ انھوں نے کچھ اس طرح تفصیل بتائی: ’’برخوردار! تمہیں تومعلوم ہے کہ میں ایک عدد اکلوتی بیوی کا بے چارہ شوہرہوں اورویمن امپاورمینٹ کے اس زمانہ میں شوہرکی مثال بالکل ایسی ہی ہے، جیسے اسرائیلی فوج کے سامنے فلسطینی معصوم بچہ، اگربے چارہ شوہرکسی طرح چھپ چھپاکراپنے دوست سے بھی ملنے جاتاہے توبیوی کی طرف سے فون پر وہ تابڑتوڑڈرونی حملے ہوتے ہیں کہ بے چارہ انرائیڈ موبائل بھی سوچنے لگتاہے کہ عنکبوتی جنجال میں کہاں پھنس گئے ہیں؟ کبھی کبھی تووہ زبان قال سے کہہ اٹھتا ہے کہ کاش ! میری تخلیق(Creation)ہی نہیں ہوئی ہوتی، ایسے ڈرونی حملے سے بچنے کے لئے جھوٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے؛ لیکن’’ نسوانی جاسوسیت‘‘ کی وجہ سے اکثرجھوٹ پکڑا جاتاہے ، پھر جوسننی پڑتی ہے، وہ توالگ، اوپرسے بطورسزا کئی کیلومیٹردورچلنے کے بعد بھی جب خالی ہاتھ گھرمیں داخل ہوتے ہیں تو’’آپ کسی کام کے نہیں، کچھ بھی کہولانے کے لئے، آپ کوملتا ہی نہیں‘‘ کے بم کی وجہ سے احساسات پرجوزخم لگتے ہیں، اس کے درد کااحساس کسی بے چارے شوہرسے ہی جاناجاسکتاہے۔
اچھاوہ کیالانے کی لئے کہتی ہے؟ اس پرجوانھوں نے جواب دیا، اسے سن کریہی محسوس ہوتا ہے کہ اگروہ جیو انتقام پراترآئے تواللہ کی پناہ! اس کاسامان کسی بھی پرچون کی دوکان میں مل جائے گا؛ لیکن شرط یہ ہے کہ وہ خودلانے کے لئے جائے یاسیدھے منھ اس کانام بتادے؛ لیکن جب سزادیناچاہتی ہے تومنجھے ہوئے حکیم کی طرح ایسانام بتاتی ہے، جس کاسمجھ پاناعام آدمی کے لئے ہی نہیں، عام دوکان داروں کے بھی بس کاروگ نہیں۔
وقت کافی ہوگیا تھا اورکافی بھی ختم ہوچکی تھی؛ اس لئے پروفیسرصاحب نے اپنے بغل سے مدور اخبار کا بنڈل نکالا اورایک اشتہاردکھایا،’’بتقریب شادی خانہ آبادی عظیم الشان اجلاس عام‘‘، پھردوسرااخبارکھولااوراس کے اشتہارکی طرف توجہ دلائی، ’’بہ تقریب عقیقہ عظیم الشان اصلاح معاشرہ کانفرنس‘‘، ایک اوراخبارنکالا، جس میں اشتہارتھا: ’’بتقریب ختنہ عظیم الشان تعلیمی بیداری کانفرنس‘‘، یہ سب دکھانے کے بعدکہنے لگے: میں بھی ایک اشتہاردینا چاہتاہوں، کیسا اشتہار؟ میں نے سوال کیا، کہنے لگے: برخوردار! تم جانتے ہو، اب میرا ریٹائرمنٹ کاوقت قریب ہے اوراب میں بھی اکبرالسن ہوچکاہوں، بیوی کے نخرے ؛ بل کہ اس کے ڈرونی حملے اب برداشت سے باہرہیں، میں کوئی ہالی ووڈ کاہلک(Hulk) تھوڑاہی ہوں کہ کتنوں ہی حملے ہوں؛ لیکن اثرنہ ہو، میں توگوشت پوست کاانسان ہوں؛ اس لئے صرف ایک اشتہارہی نہیں دینا چاہتاہوں؛ بل کہ ایک کانفرنس بھی اپنے پیسے پرمنعقد کرنا چاہتا ہوں، جس کااشتہارہوگا: ’’بتقریب ریٹائرمنٹ عظیم الشان احترام شوہر کانفرنس‘‘، جس میں مقررین اس امرپراظہارخیال فرمائیں گے کہ کم از کم ریٹائرمنٹ کے بعد بے چارے شوہروں کوربوٹ نہ سمجھاجائے اوربے گودے ڈھانچے کے باہرجانے کوشک وشبہ سے بالاترسمجھاجائے،اورحکومتی طورپرتسلیم شدہ شخص کے ساتھ اب احترام کیاجائے، ورنہ ’’بوڑھوں کے گھر‘‘میں ہی سہی ،سکھ کی سانس لینے کے لئے انتقال فرمادیاجائے۔
میں پروفیسرصاحب کی تخلیقی صلاحیت کاپہلے بھی قائل تھا اورآج اس عنوان کوسن کرمزیدقائل ہوگیا،اگرپروفیسرصاحب ایساکرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں(کیوں کہ اسپانسرتوبہرحال ہوم منسٹرکوہی کرناہے)تو یقیناکچھ بے چاروں کابھلاہوجائے گا، میں ان بے چاروں میں توشامل نہیں؛ لیکن دوسروں کی بھلائی کے مدنظر اس کی کامیابی کے لئے ضرور دعاکرتارہوں گا۔
Comments are closed.