احساس کی امر بیل: نصرت عتیق کا شعری مجموعہ
غزل نہ صرف اردو شعر و ادب کی ایک صنف سخن ہے؛ بلکہ ہندوستانی ثقافت کی روح ہے

ڈاکٹر افروز عالم(جدہ)
زندہ قومیں اپنے ٹھہاکوں اور قہقہوں کی وجہ سے نہیں؛ بلکہ اپنی سنجیدہ فکر اور ثقافتی قدروں کی بنیاد پر پہچانی جاتی ہیں اور تاریخ میں مقام حاصل کرتی ہیں ۔ اودھی، پوربی اور بھوجپوری کے علاقے، مشترکہ ثقافتی قدروں کی بنیاد پر بالکل گھلے ملے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ان علاقوں میں ایک سے بڑھ کر ایک جید عالم دین، نقاّد، ادیب اور صحافی ہیں بھی اور گزرے بھی ہیں؛ تاہم اردو شاعری کے حوالے سے خواتین کا حصّہ خاطر خواہ تو بڑی دور کی بات ہے برائے نام بھی دیکھنے اور سننے کو نہیں ملتا ہے؛ تاہم ماضی کے گلیاروں میں بھٹکتے بھٹکتے جب ہم حال کے پردہء سیمیں پر پہنچتے ہیں تو راحت بخش ایک نام سے ہماری ملاقات ہوتی ہے جس کو دنیائے ادب نے محترمہ نصرت عتیق کے نام سے پہچان لیا ہے۔ آئیے پہلے ہم سب آپ کی مختصر کوائف پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو یہ ہے کہ دستاویزی نام :۔ نصرت جہاں جب کہ قلمی نام:۔ نصرت عتیق، والد کا نام:۔ عتیق احمد کاظمی اعظمی، والدہ:۔ مشرف جہاں، تاریخ پیدائش:۔ ۲۲مارچ ۱۹۷۵ء ، جائے پیدائش :۔گورکھ پور، شاعری کی شروعات ۔ ۱۹۹۲ء سے ، شادی:۔ محترم ارشد احمد اعظمی(۱۹۹۹ء) ، اولادیں :۔ دو بیٹیاں تعلیم:۔ ایم اے(اردو)
فراق اور مجنوں کی سرزمیں گورکھپور کے نامور صحافی ،ادیب و شاعر محترم ایم کاٹھیاوی راہی کی آپ بھتیجی ہیں جن کے آنگن ا ور گود میں تربیت حاصل کرنے کا آپ نے قدرتی طور پر اعزاز حاصل کیا ہے ۔ گھریلو ماحول کی بنیاد پر آپ نے بہت ہی کم عمری میں حرف و لفظ سے وابستگی اختیار کر لی تھی؛ لیکن ہائے صد افسوس ہمارا معاشرہ کب کسی معصوم دوشیزہ کو عوامی معاملات میں آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ نصرت آپا کو عوام میں آنے دیتا۔ پھر وہی ہوا جو صدیوں سے خواتین کے ساتھ ہوتا چلا آیا ہے ۔ آپا جان بند کمرے میں لفظوں کو بُنتی رہیں اور موقع غنیمت پا کر چوری چھپے کبھی کسی رسالے میں کبھی کسی اخبار میں، کبھی گڑیا، کبھی ناہید اور کبھی کوئی تبدیل شدہ نام اور کبھی کوئی’گم نام’ سے چھپتی رہیں۔ وہ تو بھلا ہو فیس بک جیسی عوامی ذرائع ابلاغ اور نصرت عتیق کی پختہ سمجھ اور عمر کا جس نے نصرت عتیق کی شکل میں پروانچل کو ایک تحفے سے نوازا ہے ۔
پختہ عمری میں پہنچنے کے بعد محترمہ نصرت عتیق نے بہت تیزی کے ساتھ ادبی دنیا میں اپنا مقام بنایا اور مقبولیت حاصل کی؛ کیوں کہ ان کے پاس وہ سب کچھ ہے جو کچھ ادب کی دنیا کو چاہیے، یعنی کہ شعری مشق کی بنیاد پر پختہ اور خوبصورت کلام کا ذخیرہ، خوش گلو آواز، دیدہ زیب شکل و صورت، محفل میں اٹھنے بیٹھنے کے آداب و اطوار، یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری، استاد کی نوکری، محبت اور احترام کرنے والا کامیاب تاجر شریک زندگی، ذہین اور فرمانبردار بچے اور شہرہ آفاق ادبی شخصیت ڈاکٹر کلیم قیصر کی سرپرستی۔ غرض کہ ادبی معاشرے میں مقبول ہونے کے وہ تمام عوامل جس کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ ان سب کی بنیاد پر محترمہ نصرت عتیق نے ادبی دنیا میں بڑی تیزی سے اپنی پہچان بنائی ہے اور آج ایک اچھی شاعرہ کے طور پر قبول کی جا رہی ہیں۔ صد ہائے مسرت یہ ہے کہ اب آپ کا مجموعہ کلام ’احساس کی امر بیل ‘ امید اشاعت ہے۔
محترمہ نصرت عتیق نے اپنے مشق شعر و ادب کے لئے چاہے جس کا بھی مطالعہ کیا ہو، جس جس سے بھی متاثر ہوئی ہوں ، جس جس سے بھی کچھ نہ کچھ سیکھا ہو یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں؛ لیکن ان کے شعری ذخیرے میں جو کچھ بھی ہے وہ ان کی اپنی فکر ہے، اپنی محنت اور اپنی کوشش ہے؛ حالانکہ ایسے (Self made) خود اعتماد لوگ اپنے مزاج کے مالک ہوتے ہیں اور رفتہ رفتہ خشک رویہ اختیار کر لیتے ہیں؛ لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ ایسی قباحتیں محترمہ کی شخصیت میں اپنا گھر نہیں بنا سکیں، اسی وجہ سے آج وہ ہر محفل میں قدر کی نگاہ سے دیکھی اور قبول کی جاتی ہیں۔ مو صوفہ نے ایک خاتون کے طور پر اپنے اطراف سے جو کچھ بھی اخذ کیا ہے اس پر اپنی شاعری کے ذریعے اپنا رد عمل درج کر دیا ہے، اس کا اندازہ ان کے اشعار میں پنہاں مضامین اور الفاظ کے برتنے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ کھلے چشم و ذہن کی ایک پڑھی لکھی ، تجربہ کار خاتون کی فکر سے لبریز محترمہ نصرت عتیق کی شاعری آپ کو یہ احساس دلانے میں کامیاب ہے کہ اشعار ان ہی کے اپنی فکر کی کاوش اور قلم کی پیدائش ہیں۔
محترم بھائی شمشاد عالم نے زیر قیادت بھائی دیدار بستوی ، حاجی وزیر ویلفیئر فاؤنڈیشن، گورکھ پور(یوپیٰ) کے زیر اہتمام خا کسار راقم الحروف کے اعزاز میں ایک عالمی مشاعر ہ(۳۰ ستمبر ۲۰۱۹ء) میں منعقد کیا تھا، اسی مشاعرہ میں مجھے پہلی بار محترمہ نصرت عتیق کو سننے کا اتفاق ہوا تھا ۔ نہات ہی خوبصورت ترنم میں چھوٹی بحر کی پختہ غزل کی پیش کش نے محفل کی خوبصورتی میں اضافہ کیا، سامعین اور اکابرین کی دعاؤں سے اپنے دامن کو بھر کر شاعرہ رخصت ہوئی۔ اس مشاعرے میں سنی ہوئی غزل کے اشعار جو ذ ہن میں محفوظ ہیں آپ کے لئے پیش کر رہا ہوں۔
ہم تمیں بد دعا نہیں دینگے
اتنی لمبی سزا نہیں دینگے
غم کو محسوس کیجئے صاحب
غم تو ایسے مز ا نہیں دینگے
اپنی بد صورتی کرو محسوس
ہم تمہیں آ ئینہ نہیں دینگے
تم کو کر دینگے بس سپردِ خدا
ہم کوئی فیصلہ نہیں دینگے
یہ مرض ٹھیک ہی نہیں ہوگا
آپ جب تک دعا نہیں دینگے
اپنی بے لوث چاہتوں کا کبھی
ہم تمہیں واسطہ نہیں دینگے
ہم مبلغ ہیں عشق کے نصرت
نفرتوں کو ہوا نہیں دینگے
محترمہ نصرت عتیق کے شعری ذخیرے میں نعت، حمد اور نظم کے علاوہ بیشتر غزلیں ہیں۔ غزل،جسے کسی نے نیم و حشی صنف سخن اور کسی نے اردو شاعری کی آبرو کہا ہے۔ ان دونوں نقادوں نے اپنی اپنی باتوں کو ثابت کرنے کے لئے بہت ساری دلیلیں بھی پیش کی ہیں؛ تاہم غزل کی طول عمری ، خوبصورتی، ہندوستانی عوام کے مزاج سے ہم آہنگی، موضوعات میں تنوع، الفاط کے برتنے میں گداز، نرم لہجے اور پختہ بندشوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ غزل نہ صرف اردو شعر و ادب کی ایک صنف سخن ہے؛ بلکہ ہندوستانی ثقافت کی روح ہے۔ ہندوستانی موسیقی اور مختلف زبانوں کی شاعری کی بنیاد غزل کے خمیر کی بو ہے جس کی بنیاد پر محفل اور مشاعروں کا تصور زندہ ہے اور یہ محافل اور مشاعرے ہندوستانی معاشرے کی شان و شوکت کی دلیل ہیں۔ اسی دلیل کی بنیاد پر میرا ذاتی خیال ہے کہ ہندوستان کے جدید ادبی عہد میں کسی بھی شاعر کے قد کا تعین اس کے غزلیہ سرمائے کی بنیاد پر طے کیا جانا چاہئے۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ محترمہ نصرت عتیق کے پاس بہت ہی بہترین غزلیہ شاعری کا ذخیرہ موجو د ہے جو اپنے قارئین اور ناقدین سے اپنے حصّے کی داد وصول کرنے میں کامیاب ہونگے۔ آئیے نمونے کے طور پر آپ کے لئے ان کے کچھ اشعار پیش کر رہا ہوں ۔ ‘ احساس کی امر بیل’ سے آپ اپنی پسند کے اشعار مجھے اور شاعرہ کو ای میل کیجیے گا ۔۔۔ ۔
آنکھوں میں مری آج نمی کیوں ہے اس قدر
لگتا ہے آج تو بھی پریشان ہے بہت
ہمیشہ شہر جاں میں اک بپا ہنگامہ رہتا ہے
بہت حساس ہونا بھی بہت گھاٹے کا سودا ہے
وہ میرے جھوٹے تبسم سے مطمئن ہے بہت
اسے خبر ہی نہیں مجھ پہ کیا گزرتی ہے
ہم چراغ وفا بناتے ہیں وہ ڈریں جو ہوا بناتے ہیں
ایسے لوگوں کی قدر کرتے رہو شور کو جو صدا بناتے ہیں
قدرت کے فیصلے پہ کبھی کیجئے نہ شک
اپنے گناہ پر بھی ذرا غور کیجئے
ایک ہی خاندان میں نصرت
سارے رشتے پرائے رہتے ہیں
وعدہ کرو کہ خواب میں آؤگے آج رات
تقریب ، پھر میں نیند کی آراستہ کروں
وقت کٹ جاتا ہے جیسا بھی ہو نصرت لیکن
یاد رہ جاتے ہیں لوگوں کے رویے ہم کو
مرے تصور کی چاندنی میں تمہارا چہرہ چمک رہا ہے
نہ گل کا چرچہ کوئی کرے اب نہ چاند کی دے مثال مجھ کو
نصرت عتیق انشاء اللہ گورکھپور کی زریں ادبی روایت کو مزید پائیدار بنانے میں اپنی فکری کاوشوں کو اور بھی مضبوط بنائیں گی اور اس بات کو زندہ رکھیں گی جو اس شہر کا میراث رہا ہے۔ نیک تمناؤں کے ساتھ
ڈاکٹر افروز عالم (جدہ)، صدر ۔گلف اردو کونسل
E-Mail:[email protected]
Comments are closed.