پاک چین معاشی راہداری (سی_پیک)

از قلم: زبیر ملک (ٹھل حمزہ، پنجاب پاکستان)

 

 

 

اس وقت چین اور امریکہ کے درمیان سپر پاور کی ایک جنگ چل رہی ہے جس میں سی-پیک کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ مسلم دنیا کی دوسری بڑی طاقتور فوج اور ایٹمی طاقت ہونے کے ساتھ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ موجودہ سپر پاور یعنی امریکہ اور مستقبل کی سپر پاور یعنی چین، دونوں ہی پاکستان کو اپنے کیمپ میں رکھنے کے خواہشمند ہیں۔ مگر پاکستان نے 2011 میں ہونے والے اسامہ ڈرامہ کے بعد سے ہی شاید امریکہ کے کیمپ کو خیرآباد کہنے کی ٹھان لی تھی۔ عصر حاضر میں تو مکمل عیاں ہے کہ پاکستان کا مستقبل چین کے ساتھ جڑ چکا ہے۔ پاک چین دوستی کے ستر سال مکمل ہو چُکے اور سی-پیک اب تک کا سب سے بڑا تحفہ ہے۔ دنیا کا تیسرا بڑا منصوبہ "روڈ اینڈ بیلٹ انیشیٹو” یعنی سی-پیک چین کے لیے بھی آکسیجن کے طرح ہے۔ یہ بلکل واضح ہے کہ چین نے اپنی معاشی پالیسیوں سے ترقی کرتے ہوئے پچھلے تیس سالوں میں ستر کروڑ سے زائد لوگوں کو غربت سے باہر نکالا ہے۔ بعینہ ماہرین کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں سی-پیک کے ذریعے 2030 تک 23 لاکھ نوکریوں سے تقریباً دو کروڑ سے زائد لوگوں کی غربت ختم کی جائے گی۔

چین اپنا تجارتی سامان وسطی ایشیاء اور یورپی یونین کے تمام ممالک تک پانی کے مختلف راستوں سے پہنچاتا آ رہا ہے جس میں وقت بھی زائد لگتا ہے اور پیسہ بھی زیادہ خرچ ہوتا ہے۔ اور اب چین کی بھارت اور امریکہ کے ساتھ پانی میں ایک لڑائی بھی چل رہی ہے جس کی بھنک اُنہیں بہت پہلے ہی پڑ چکی تھی۔ لہٰذا چین کو ایک ایسا مختصر اور محفوظ راستہ چاہیے تھا جہاں سے وہ کم سے کم وقت میں دنیا کے کونے کونے تک تجارتی سامان پہنچا سکے۔ پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک پاکستان قرضوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ لہٰذا پاکستان کو بھی ایک ایسے ہی منصوبے کی بے حد ضرورت تھی جس سے ملک میں نہ صرف غربت کم ہو بلکہ قرض بھی اُتارا جا سکے۔ دونوں ممالک نے مشترکہ مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے 20 اپریل 2015 کو 51 مختلف معاہدوں پر مشتمل منصوبے کا آغاز کیا۔ 73 کھرب 25 ارب 96 کروڑ 46 لاکھ یعنی 46 بلین ڈالرز کی ابتدائی لاگت کا یہ منصوبہ، ماشاء اللہ اب 66 بلین ڈالرز سے بھی تجاوز کر چکا ہے کیوں کہ بعد ازاں دیگر مختلف معاہدے بھی اس منصوبے کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان میں مختلف آمدورفت کے نیٹورکس، توانائی کے منصوبے، اسپیشل اکنامک زونز، ٹیکنالوجی، ہتھیاروں کی ترسیل، گیس اور پانی کے منصوبے، معاشرتی ترقی اور ریل کے منصوبے، گوادر اور دیگر چھوٹے بڑے بے شمار منصوبے شامل ہیں۔ پاکستان کو اس کا بہت فائدہ ہوگا کیوں کہ خام مال سے سامان تیار کرنے کے لیے انڈسٹریز لگی ہیں اور لگیں گی بھی تاکہ چین کم پیسے خرچ کر کے یہیں مال تیار کرکے یہیں سے ہی آگے دنیا کو برآمد کردے۔

داد دینی پڑے گی سابق صدر پرویز مشرف کو جس نے اس اہمیت کو 2007 میں ہی جان لیا اور گوادر پورٹ کا افتتاح کیا تھا۔ آج سی-پیک میں گوادر ایک ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے۔ 13 نومبر 2016 کو گوادر سے پہلی "شپمنٹ” افریقہ اور ویسٹ انڈیز کی طرف تجارتی سامان لے کر روانہ ہوئی۔ شرائط کے تحت منصوبے کی 20 فیصد رقم قرض کے طور پر جب کے باقی 80 فیصد سرمایہ کاری کے طور پر ہوگی۔ انرجی کے 33 بلین ڈالرز سے تقریباً ہر سال اڑھائی فیصد سالانہ گروتھ میں اضافہ ہوگا۔ اڑھائی ملین ڈالرز سے گیس کے منصوبوں سے ایران اور دیگر ممالک سے گیس درآمد کی جائے کی۔ سی-پیک کی اہمیت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی ٹوٹل جی-ڈی-پی کا بیس فیصد سی-پیک پر مشتمل ہے۔ 2020 میں افغان بارڈر کے ساتھ بھی اکنامک زون کا اجراء کردیا گیا تھا۔ الحمدللہ 2020 کے اختتام تک سی-پیک منصوبے کا ایک چوتھائی حصہ مکمل ہو چکا ہے۔ مختلف 23 منصوبے نا صرف مکمل ہو چُکے ہیں بلکہ دونوں ممالک کے لوگ اُن سے مستفید بھی ہو رہے ہیں۔ ان شاء اللہ وہ وقت دور نہیں جب چین سپر پاور ہونے کا اعلان کرے گا اور پاکستان اس منصوبے کے تحت ایک بڑا شریک ہوگا۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ملک پاکستان کو سلامت رکھے، چین کے ساتھ یہ دوستی ہمیشہ قائم رکھے اور دونوں ممالک دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتے رہیں۔ آمین ثم آمین۔

پاک چین دوستی زندہ باد۔

Comments are closed.