ندامت

شمائلہ کرن (پنڈ داد خان)
انسان کی کشتی جب کسی منجدھار میں پھنس جاتی ہے تو وہ اسے بچانے کے لیے بہت تگ و دو کرتا ہے۔ اور جب کشتی ڈوب جاتی ہے تو وہ خود کو بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا ہے۔ آگے رب کی مرضی وہ پار لگاتا ہے یا پھر ڈبو دیتا ہے۔ لیکن جب وہ پار لگانے کا ارادہ کرتا ہے تو انسان کے لیے کئی وسیلے بنا دیتا ہے۔ ایمان بھی ایک ایسی ہی لڑکی تھی جس کی کشتی گناہ و ثواب کے سمندر میں ہچکولے کھاتی رہتی تھی۔ ہر بار توبہ کرتی اور ہر بار اس کی توبہ ٹوٹ جاتی۔ جب وہ بے حد بے چین اور اداس ہو جاتی تو زار و قطار روتی تھی کہ کب اس کو صراط مستقیم نصیب ہو گا۔اللہ جو اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے وہ کبھی کسی کو تڑپتا نہیں چھوڑتا۔ وہ جب نوازنے پہ آتا ہے تو بے حد و بے حساب نوازتا ہے۔ ایمان بھلے گناہ پہ گناہ کرتی تھی لیکن ان گناہوں کی ندامت شاید اسے اللہ کی نظر میں معتبر کر دیتی تھی۔ وہ بظاہر کوئی اتنی نیک لڑکی نہیں تھی لیکن اس کی ندامت ہمیشہ اس کی وجہ نجات ٹھہری۔ شاید اس کے مسحور کن خواب اس کے سکون قلب کا باعث بنتے تھے۔ اور رب کی بخشش کی دلیل ہوتے۔ اور خواب بھی ایسے جو صرف اللہ کے نیک اور برگزیذہ لوگوں کو نظر آتے تھے۔ کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت، تو کبھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دست شفقت اس کے سر پر پھیرنا۔ کبھی اسم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کا آسمان پہ چمکتا دیکھنا تو کبھی چہرہ انور کا دمکتا دیکھنا۔
جب وہ ایسے خواب دیکھتی تو زار و قطار روتی کہ میں کہاں اس قابل ہوں؟ میرے دامن میں گناہوں کے سوا کچھ بھی نہیں تو پھر میں کیسے؟؟ اور سمندر آنکھوں میں لیے یہ سوچتی رہتی کہ کہاں میں اور کہاں یہ مقام؟؟ پہروں بیٹھی سوچتی تھی کہ شاید ہی کوئی ایسی نیکی ہو جو اس نے کبھی کی ہو۔ اللہ پاک اس کی بڑھتی ہوئی سر کشیوں کے باوجود اس پہ مہربان کیوں ہیں؟ اس کے سوالات کا جم غفیر اس کے ذہن میں ہی دم توڑ جاتا اور فقط یاد رہتا تو صرف اتنا، رحمت اللعالمین ، غفور الرحیم، الجبار، الرحمان، الرحیم، التواب الرحیم۔
اور پھر اس کا دل سکون سے بھر جاتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کو رحمت اللعالمینی کا تقاضا سمجھ آگیا کہ انسان جب گناہوں کا ٹوکرا اٹھا کر بارگاہ الہی میں جاتا ہے تو وہاں سچی ندامت کا ایک آنسو اس کے سب گناہوں پہ بھاری پڑ جاتا ہے۔ اس ندامت کی سچی تڑپ ساتویں آسمان کو ہلا دیتی ہے اور رب کی رحمت جوش میں آ جاتی ہے۔ اس ایک ندامت کے انمول آنسو کے عوض نہ صرف رب تعالی اپنے بندے کو معاف کرتا ہے بلکہ اس پہ بہت سے راز آشکار کر دیتا ہے۔ ایمان کی ندامت بھی اللہ تعالی کو اس قدر عزیز تھی کہ نہ صرف اس کو معافی ملتی بلکہ اس پر کئی جلوے آشکار ہوتے جو اسے رب کے بہت قریب لے جاتے۔ اللہ پاک جب کسی کو چن لیتا ہے تو اس کو ہدایت دے کر اس کی خطائیں معاف کر دیتا ہے۔ ایمان کو بھی اللہ نے اپنے راستے کے لیے چن لیا تھا۔ گناہ کے فورا بعد اسے معافی کی توفیق دیتا اور اس کی ندامت کے بدلے اس کا دل سکون سے یوں بھر دیتا جیسے اس نے کبھی کچھ کیا ہی نہیں۔ یہ سچ ہے کہ ندامت کا ایک آنسو بارگاہ ربی میں اپنی بات منوا لیتا ہے۔ اور ندامت، یہ تو وہ مقام ہے جہاں وہ جو بزرگ و بر تر ہے نا وہ اپنے بندے کو سہارا دیتا ہے، اس کے دکھوں کا مداوا کرتا ہے، اسے اپنی رحمت سے ڈھانپ لیتا ہے۔ وہ اپنی بےپایاں نعمتوں سے نوازتا ہے اپنے بندے کو، بے حدو بے حساب۔ ایمان کی ندامت نے ہمیشہ اسے رب تعالی کی بارگاہ میں سرخرو کیا اور پھر وہ اس راستے کو لوٹ گئی جس کے لیے اسے چن لیا گیا تھا۔
Comments are closed.