ناامیدی گناہ ہے

طیبہ عباس (ظفروال)
مشہور مثل ہے کہ دنیا امید پر قائم ہے۔ دنیا میں جو کچھ بھی ہم کر رہے ہیں یا جو کچھ ہو رہا ہے امید کے سہارے ہو رہا ہے۔ امید کا سہارا بڑے نازک وقتوں میں آتا ہے امید ہی کی روشنی ہمیں مصیبتوں اور تکلیفوں میں چلنے کا راستہ دکھاتی ہے امید کی کرن ہی بجھے ہوئے دلوں کو دوبار سہارا دے کر کھڑا کر دیتی ہے۔ امید ہی کے سہارے ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی سر ہوئی۔ یہ امید ہی کا سہارا تھا جس سے انسان چاند پر جا پہنچا اور اب آگے بڑھ رہا ہے۔ امید فتح کی تلوار ہے اور مہم جو کی ہمت ہوتی ہے ۔ریگزار اور دشت و بیاباں اور سراب کی جھوٹی جھلکیوں میں جب ہم راہ نہیں پاتے تو اس وقت امید ہمیں پائے استقامت بخشتی ہے جو وہاں سے صحیح سلامت نکال لے آتی ہے۔ مصائب و آلام میں ہمیں حوصلہ دیتی ہے۔ تنگدستی و افلاس میں امید کی کرن اچھے وقتوں کے لیے ہمیں زندہ رکھتی ہے‌۔ امید آڑے وقتوں میں ہمارے کام آتی ہے۔ اور ہر مصیبت میں ہماری مدد کرتی ہے۔
امید مردہ دلوں میں جان ڈالتی ہے۔ نا امید اور پست ہمتی سے انسان مردہ دل ہو کر بیکار بیٹھ جاتا ہے ۔ امید ہی سے زندگی کی شمع جل رہی ہے۔
کسان بھی کھیت میں بیچ اسی امید پر ڈالتا ہے کہ کل سبز لہلہاتی فصل دیکھے گا اور اسے کاٹے گا۔ مزدور سارا دن اس امید پر محنت کرتا ہے کہ شام کو اسے اس کا معاوضہ ملے گا۔ طالبِ علم امتحان میں کامیابی کی امید پر ہی مطالعہ کرتا ہے۔ صبح کو لوگ اٹھتے ہیں اور اپنے اپنے کاموں پر حصول‌ِ معاش کی امید لے کر چلتے ہیں۔ بازار میں دکان دار جو اپنی اپنی دکانیں قرینے سے سجائے بیٹھے ہیں اسی امید پر بیٹھے ہیں کہ شام کو اپنی روزی لے کر گھر جائیں گے۔ ہر مسافر امید کے سہارے اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے۔ وہ پر امید ہوتا ہے کہ فلاں وقت پر اپنی منزل پر پہنچوں گا۔ یہ امید ہی ہے جو حرکت پر آمادہ رکھتی ہے۔ مایوسی ایک گناہ ہے اسی لیے حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہیے۔ اس سے پست ہمتی پیدا ہوتی ہے اور پست ہمت انسان کبھی ترقی کی منزلیں طے نہیں کر سکتا۔ کوئی شخص کچھ کر رہا ہو، امیر ہو یا غریب، کاشت کار ہو یا صنعت کار، تاجر ہو یا مزدور اسے ہر وقت پر امید ہو کر خدا کی ذات کا سہارا لے کر مصروفِ عمل رہنا چاہیے اور ناامیدی کو پاس بھی پھٹکنے نہیں دینا چاہئے۔ امید کے پھول ہمیشہ خوش رنگ و خوشنما ہوا کرتے ہیں اور اس کا نتیجہ ہمیشہ کامیابی کی صورت میں نکلتا ہے۔ ہمایوں نے شکست کھائی، اور پھر امید کا سہارا لیا۔ پھر کوشش کی، ناکام رہا مگر پھر بھی مایوس نہیں ہوا پھر میدان میں نکلا پھر شکست کھائی مگر ہمت نہ ہاری۔ اس طرح سے وہ چھے دفعہ شکست کھا چکا تو پھر امید ہی تھی جس نے اسے ساتویں بار لڑنے کے لیے تلوار ہاتھ میں پکڑائی۔ وہ دل میں فتح کی امید لے کر میدان میں نکلا اور پر امید ہو کر لڑا اور فتح پائی۔ اگر ہمایوں کو امید سہارا نہ دیتی تو وہ شہنشاہ ہندوستان نہ کہلوایا اور سلطنتِ مغلیہ اسی وقت ختم ہو گئی ہوتی۔
امید کے دیئے روشن کرنا اور روشن رکھنا قرآن پاک کا امتیازی وصف ہے۔ دنیا بھر میں قرآن پاک کے سوا کوئی کتاب ایسی نہیں جس میں انسانوں کو ہر حال میں امید کا دامن ہاتھ میں رکھنے اور کسی بھی شکل میں مایوس نہ ہونے کی تعلیم و ترغیب دی گئی ہو۔ قرآن کریم اپنے پیرو کاروں کو خوشی، غمی، تنگدستی، خوشحالی، پریشانی اور فارغ البالی ہر حال میں پرسکون رہنے کا درس دیتا ہے۔ قرآن پاک اپنے ماننے والوں کو انکے تمام مسائل کے حل پیش کرتا ہے۔ قرآن پاک میں سورۃ الزمر کی آیت نمبر 53 ہی بطور مثال بہت کافی ہے اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں انسانوں کے سامنے رحمدلی، شادمانی اور امید کے تمام در کھول دیئے ہیں۔ اللہ کی رحمت شامل حال ہونے کا احساس دنیا کے سارے غموں کو بھلا دیتا ہے۔ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 156، 157میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی خصوصیت بیان کرتا ہے ترجمہ دیکھیں:
"ان پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے، انہیں خوشخبری دیدو ان پر انکے رب کی طرف سے بڑی عنایتیں ہونگی اللہ کی رحمت ان پر سایہ کریگی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔”

Comments are closed.