بیٹیاں پرائی ہوتی ہیں

✍: – تابش سحر
تہمینہ اخبار پڑھ رہی تھی، اس کی نظر شہ سرخی پر پڑی "زندگی سے مایوس دوشیزہ نے سابرمتی ندی میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی” تہمینہ’ سسرال میں ظلم سہنے والی ایک دیندار خاتون تھی، اعصابی طور پر مضبوط اور ایمان و یقین کی دولت سے مالا مال، روزانہ ظلم کی چکّی میں پِستی اور اپنے کاموں میں مشغول رہتی، جسمانی و ذہنی اذیّتیں خُلع پر ابھارتی مگر پھر ماں باپ کا خیال آتا تو صبر کا گھونٹ پی کر رہ جاتی، پچھلی دفع جب مائکے گئی تھی تو تین دن سے زیادہ ٹہرنے پر اس نے بھابھی کو بھیّا کے کان بھرتے سنا تھا کہ "تین دن سے آئی ہوی ہے آخر کب واپس جائے گی؟” تنہائی میں بیٹھ کر شوہر سے علٰیحدگی کا منصوبہ بناتی تو نانی امّاں کا یہ قول کان پر ہتھوڑے برساتا "جب خاتون سسرال چلی جائے تو پھر اس کا جنازہ’ وہیں سے اٹھنا چاہیے” وہ جب گڑیا سے کھیلتی تھی تب سے ماں کا یہ جملہ سنتی کہ "بیٹیاں پرائی ہوتی ہیں، شادی کے بعد مہمان کی صورت میں آتی ہیں اور رخصت ہوجاتی ہیں”، شادی کے بعد بابا نے چین کی سانس لی تھی اور کہا تھا میرے کندھے سے بڑا بوجھ اٹھ گیا ہے، جب جب بھی ظلم کی داستان اس نے اپنے ماں باپ کو سنائی اور خلع کے متعلق استفسار کیا تو ان کا یہی جواب تھا "ہم نے کیسی کیسی قربانیوں سے تمہاری شادی کی اور اب تم ازدواجی رشتہ توڑنے کی باتیں کرتی ہو؟” دونوں سمجھاتے، مناتے، صبر کی تلقین کرتے اور ظالموں کی بستی سسرال چھوڑ آتے، اسے اپنی چچا زاد بہن شائستہ کی کہانی بھی ڈرا دیتی تھی، جس کا خاوند بات بات پر اسے پیٹتا تھا، ایک دن تو اس کے خاوند نے حد ہی کردی، پیٹ پیٹ کر گھر سے باہر نکال دیا، وہ روتے بلکتے ماں بابا کے پاس آئی، انہوں نے دیکھا کہ مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا تو پیسوں کی لالچ میں کیس کردیا، بڑھا چڑھا کر شکایت درج کروائی پھر عدالت کے چکّر لگاتے اور گھر میں بیٹھی بیٹی کو باتیں سناتے کہ بوڑھی ہڈیوں کو تمہارے سبب آرام نہیں، لوگ باتیں کرتے ہیں، خاندان میں رسوائی ہوگئی ہے، فلاں کی بچّیاں سسرال میں کیسی زندگی گزار رہی ہیں، کسی کے لب پر حرفِ شکایت نہیں، اس نے محسوس کیا تھا کہ شائستہ کے ماں باپ اور دونوں بھائی اسے بوجھ سمجھتے ہیں اور پھر ہمارے معاشرے میں مطلقہ سے شادی کرنے کے لیے کوئی تیار بھی تو نہیں ہوتا، کتنی عجیب زندگی ہے یا تو ظلم سہتے ہوے سسرال میں زندگی گزارو یا ماں باپ کے پاس جا کر ذلت و رسوائی کو گلے لگاؤ، ظلم سہنے کی طاقت نہیں اور رسوائی برداشت کرنے کی ہمت نہیں تو بعض لوگ مذموم قدم اٹھا کر خودکشی کرتے ہیں پھر ان کی خودکشی بھی بحث کا موضوع بن جاتی ہے اور
"پوچھا نا زندگی میں کسی نے بھی دل کا حال
اب شہر بھر میں ذکرمیری خود کشی کا ہے۔”
لوگ جہیز کی لعنت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ معاشرے میں اور بھی خرابیاں ہیں، بیٹی کو پرائی سمجھنا، مہمان کی حیثیت سے دیکھنا اور اسے بوجھ تصوّر کرنا بھی معاشرے کا ناسور ہے، وہ انہیں خیالات میں محو و مگن تھی کہ دروازہ پر دستک ہوی، اس نے دوپٹے کے کنارے سے آنسو خشک کیے اور دروازہ کھول دیا، دروازہ کھلتے ہی شوہر گرجا "کہاں مر گئی تھی؟ دروازہ کھولنے اتنی دیر لگتی ہے؟”
Comments are closed.