Baseerat Online News Portal

جہیز کوتجارت بنانے کا ذمہ دار کون؟

عاقل حسین،مدھوبنی(بہار)
موبائل۔09709180100
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا جہیز کی داستاں میری، میں ہی سوگئی داستاں کہتے کہتے… جی ہاں! آج ہمارے معاشرے میں جہیز کارسم و رواج کافی بڑھ گیا ہے جو پورے معاشرے کو ایک خطرناک بیماری کی طرح اپنی گرفت میں لے چکاہے۔ کہیں نہ کہیں ہم اور آپ بھی اس بیماری کی گرفت میں آگئے ہیں۔ اگر ہم بروقت جہیز جیسی خطرناک بیماری کو روک نہ پائے تو ہمارا معاشرہ برباد ہوجائے گا اور ہم اور آپ ہی اس بربادی کے ذمہ دار ہوں گے۔ ویسے ہمارے اکثریتی طبقہ میں جہیز کا رواج زیادہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثریتی طبقہ کے ماہرین تعلیم جہیز کو لے کر ہمیشہ مذہب اسلام کی دہائی دیتے رہے ہیں۔ لیکن آج مذہب اسلام کی پیروی کرنے والے ہندوستان کے اقلیتی معاشرے میں بھی جہیز کا رواج کافی بڑھ چکا ہے۔ جہیز پر آپسی دراڑ کی وجہ سے بہت ساری شادی شدہ لڑکیوں کی زندگی ہمارے معاشرے میں برباد ہوگئی ہے اور آج ایسی بہت سی لڑکیاں ہیں کہ جہیز کے انتظامات نہیں ہونے کی وجہ سے وقت پر ان کی شادی نہیں ہوپارہی ہے اور اس کا ذمہ دار بھی ہمارا معاشرہ ہی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو راجستھان رہائشی اور گجرات کے احمد آباد کے واتوا میں رہنے والی عائشہ عارف خان نامی لڑکی سابرمتی ندی میں ہنستے ہوئے دلوں میں درد لئے خودکشی نہیں کرلیتی۔ جس کی خود کشی کی ویڈیو سوشل میڈیا پرخوب وائرل ہو رہی ہے اور ویڈیو دیکھ کر ہر کوئی جہیز کو لے کر مختلف طرح کی باتیں کررہا ہے۔ خیر، احمد آباد پولیس نے اس کے شوہر راجستھان کے ضلع جالور رہائشی عارف خان کو راجستھان سے گرفتار کرلیا ہے۔ تاہم عارف خان کی گرفتاری سے معاشرہ سے جہیز کا رواج ختم ہونے والا نہیں ہے، بلکہ اس کے خلاف پورے معاشرے کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔ ویسے جہیز کی بیماری میں ہمارے معاشرے کا ہر فرد کہیں نہ کہیں مبتلا ہے ۔ رہی بات عائشہ عارف خان کی تو اس نے دنیا کو الوداع ضرور کہہ دیا ہے مگر خودکشی سے قبل جو ویڈیو اس نے بنایا اس ویڈیو نے اقلیتی طبقہ کے ساتھ ساتھ اکثریتی طبقہ کو بھی آئینہ دکھانے اور سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔جہیز کی بھینٹ چڑھی عائشہ عارف خان کے والد نے ہندوستانی معاشرے کو پیغام دیا ہے کہ میری عائشہ تو دنیا سے رخصت ہوگئی مگر آپ اپنی عائشہ کو نہ جانے دیں۔ ہمارا معاشرہ ہندو مسلم سے باہر آئے اور اپنے معاشرہ کی بیٹیوں کو جہیز سے بچانے کے لئے فکرمند ہوں تاکہ جہیز جیسی لعنت سے ملک کی ہزاروں بیٹیوں کی زندگی تباہ وبرباد ہونے سے بچایا جائے۔
ویسے لوگ عائشہ عارف کی موت کا ذمہ دار اس کے شوہر عارف خان کو مانتے ہیں۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ عائشہ عارف کی موت کا ذمہ دارصرف اس کاشوہر عارف خان نہیں ہے، بلکہ عائشہ کی موت کا ذمہ دار پورا معاشرہ ہے۔ جس نے معاشرے کو جہیز جیسی برائی بڑھنے کا موقع فراہم کیا۔ اگر معاشرہ کے لوگ جہیز جیسی برائی کے خلاف آگاہ ہوتے تو عائشہ جیسی ہزاروں لڑکیوں کی زندگی تباہ وبرباد نہیں ہوتی اور عائشہ جیسی ہزراروں لڑکیاں آج ہمارے سماج میں زندہ رہتی۔ جہیز جیسی خطرناک بیماری کو ہم اپنے معاشرے سے کیسے جڑ سے اکھاڑ پھینکیں! کیا جہیز واقعی ہمارے معاشرے کے لئے ایک خطرناک بیماری بن چکی ہے؟ ہمارا ملک اور معاشرہ کورونا جیسی خطرناک بیماری سے لڑ رہا ہے۔ لیکن اس کورونا سے زیادہ خوفناک بیماری برسوں سے چلی آرہی جہیز کی برائی ہے جس نے ہمارے معاشرہ کی بیٹیوں کی زندگیوں کو تباہ وبرباد کردیا ہے۔ اس کاحل نکالنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ویسے جہیز لین دین کا مسئلہ ہر دور میں بحث کا موضوع رہا ہے۔ خاص طور پر مسلم معاشرے میںاس پر ہمیشہ ہی دونوں طرح کی آراء رہی ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شادی کے بعد عام طور پر نئے شادی شدہ جوڑے گھر کو آباد کرنے کے لئے گھر لڑکا کی جانب سے ملتا ہے اس لئے گھر چلانے کے لئے برتن لڑکی والوں کی جانب سے ملے تو کوئی برائی نہیں ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں میں دلہن کو جہیز دینے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ اسلام میں بیٹی کو باپ کی جائیداد میں حق ملتا ہے۔ یہ حق بیٹے سے کچھ کم ہے لیکن عام طور پر مسلمان لڑکی شادی سے پہلے یا اس کے بعد اپنے والد کی جائیداد کا حصہ بھائیوں سے لینے نہیں آتی ہے۔ بیٹی کے ذریعہ حصہ مانگنے کی مثالیں شاذ ونادر ہی بڑے زمیندار گھرانوں میں ملتی ہیں۔ چھوٹے لوگوں کے بچوں کی سوچ اس معاملے میں مختلف ہے۔ جائیداد میں اپنا حصہ قربان کرکے بہن اپنے بھائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات بنائے رکھتی ہے۔ بدلے میں بھائی بھی عام طور پر اس کے مقروض بنے رہتے ہیں اور تحفہ تحائف دینے میں کنجوسی نہیں کرتے ہیں۔ جہیز کی خواہش رکھنے والے لوگ اسے اسلام میں جائزبتاتے ہیں اور ہمیشہ یہ دلیل دی جاتی ہے کہ پیغمبر صاحب نے اپنی بیٹی کی شادی میں جہیز دیا تھا۔پھر بھلے اس کی مقدار کم ہی رہی ہو، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر صاحب نے اپنی بیٹی فاطمہ کی شادی کے موقع پر کچھ سامان تحفہ میں دیا تھا۔ احادیث میں کہیں بھی اسے جہیز کے نام سے نہیں پکارا گیا۔ زیادہ سے زیادہ آپ اسے تحفہ کہہ سکتے ہیں۔ داماد حضرت علی خود بھی پیغمبر صاحب کی نگہداشت میں تھے۔ اس لئے پیغمبر صاحب نے کچھ ضرورت کا سامان سہولت کے لئے دیا تھا نہ کہ جہیز کی شکل میں دیا تھا۔ مسلم معاشرہ کا یہ ماننا ہے کہ پیغمبر صاحب کے ذریعہ ایسا کوئی بھی کام کئے جانے کا سوال پیدا نہیں ہوتا جو اسلام کے موافق نہیں ہے۔ اگر پیغمبر صاحب کی تمام باتوں کو مانیں تو پھر جہیز کی شکل میں دیئے گئے تحفہ کو ہم نے تجارت کیوں بنادیا ہے؟
اگر ہم دینی کتابوں کے بارے میں بات کریں تو ،مسلم معاشرے میں قرآن اور اکثریت معاشرےمیں گیتا کو سب سے بڑی مذہبی مقدس کتاب مانی گئی ہے۔ جہیز یعنی تلک اور لین دین کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے نے جہیز یا تلک کو تجارت بنا دیا ہے کہ آج ہمارے معاشرے کی بیٹیاں اس کی شکار ہورہی ہیں۔مسلم اور اکثریتی معاشرے کے مولوی اور پنڈت بڑی بڑی دینی تقریبات میں جہیز کے نظام کے خلاف گفتگو کرتے ہیں۔ لیکن جہیز لین دین میں مولوی اور پنڈت بھی اچھوتے نہیں ہیں اور جہیز کے فروغ میں ان کے کردار سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح ، جو لوگ سماج میں اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے چکرمیں پڑے رہتے ہیں ،ویسے ہی لوگ جہیز لینے اور دینے میں بھی آگے نظر آتے ہیں۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ گھر چلانے کے لئے بیٹی کو 4؍ برتن دینے میں برائی نہیں ہے۔ لیکن یہ دیکھنے والی بات ہے کہ وہ برتن ہیں کیسے؟ آج عام متوسط طبقہ کا مسلمان اپنی لڑکی کو شادی میں 30؍ سے 50؍ ہزار روپے کے تانبے اور پیتل کے برتن دیتا ہے جو شاید ہی کبھی استعمال میں آتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ روزمرہ کے استعمال کے لئے اسٹیل، ایلومینیم اور جہاں تک ممکن ہو شیشے کے برتن الگ سے دیئے جاتے ہیں۔ مسلم معاشرے میں جہیز کے بڑھتے رجحان کی یہ صرف ایک مثال ہے۔ اس کے علاوہ زیورات، کپڑوں کے ساتھ فریج، الیکٹرانکس سامان، بائیک یا کار وغیرہ بھی جہیز کے طور پر دیئے جاتے ہیں۔ زیادہ بڑے گھر کے لوگ جہیز میں فلیٹ، پلاٹس یا فیکٹریاں بھی دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بارات کی عمدہ مہمان نوازی کے جو اخراجات ہیں وہ الگ ہیں۔ اکثریتی طبقہ کے افراد کے ساتھ اپنے رشتے کی وجہ سے اگر لڑکا والے سبزی کھانے والوں کو بھی ساتھ میں لائیں تو اس کے دوہرے انتظامات کرنا لڑکی والوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن اس سارے معاملےمیں ایک بات یہ ہوتی ہے کہ ان تمام چیزوں کا لڑکا والوں کی طرف سے کھلے عام مطالبہ نہیں کیا جاتا ہے۔ البتہ وہ جہیز کے لئے پُر امید اور متمنی ضرور رہتے ہیں۔ وہ شادی سے پہلے جہیز کا کوئی مطالبہ نہیں کرسکتا اور نہ ہی کوئی شرط رکھ سکتا۔ جہیز کی حیثیت سے وہی قبول کرنا پڑتا ہے جو لڑکی والے دیتے ہیں۔ اس کی تین وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ جہیز اور بارات کی مہمان نوازی میں لڑکی والے خود ہی کوئی کسر باقی نہیں رکھتے۔ دوم یہ کہ مسلم معاشرے میں شادی کے معاملے میں لڑکی والوں کو ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ اس معاشرے میں لڑکی کا رشتہ تب تک طے نہیںکیا جاتا جب تک لڑکا والے باقاعدہ رشتہ نہیں مانگیں۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں شادی کا معاملہ بہت ہی قریبی تعلقات میں طے ہوجاتا ہے۔ لڑکی کی شادی اس کے چچا، ماما، پھوپھا کے بیٹوں سے کردی جاتی ہے۔ اب اتنے قریب کے رشتے میں جہیز مانگنے کا سوال عام طور پر نہیں اٹھتا ہے۔ ویسے دین اسلام میں جہیز کو غیر اسلامی مانا گیا ہے۔ سن 1972 میں تشکیل پائے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بھی جہیز کو غیر اسلامی قرار دیا ہے۔ عائشہ عارف خان کی خودکشی کے واقعے کے بعد آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا مو ولی رحمانی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ پورے معاشرے کو شرمسار کرنے والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ افسوسناک ہے اور ہر معاشرے کو فکر کرنے کے ساتھ آگے آنے کی ضرورت ہے کہ جہیز جیسی بیماری کو معاشرے سے کیسے ختم کیا جائے۔ انہوں نے مسلم معاشرے سے کہا کہ شریعت میں جہیز لینا اور دینا دونوں حرام ہے لیکن لوگ اس کی پابندی نہیں کرتے ہیں۔ مولانا ولی رحمانی نے کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذریعے ملک کے مختلف حصوں میں جہیز کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے اور جہیز کے خلاف مہم جاری رہے گی۔
پھر بھی بورڈ کی تشویش بے وجہ نہیں ہے۔ تشویش کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ لڑکی والے محض اپنی بیٹی کی ضروریات کی تکمیل یا خوشی کے لئے ہی نہیں بلکہ معاشرے میں اپنا دبدبہ قائم کرنے اور برادری یا اپنے لوگوں کے درمیان اپنی ناک بچانے کے لئے جہیز دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چاہے ان چاہے تمام طرح کے سامان جہیز میں شامل ہوگئے ہیں۔ اس میں سے بہت سی چیزوں کا استعمال تو مڈل کلاس گھرانے میں نہیں ہوپاتا ہے۔ یا تو ان چیزوں کو لڑکا والوں کے گھر میں رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی اور اگر ہوتی بھی ہے تو یہ چیزیں اس کے پاس پہلے سے موجود ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود لڑکی والے سبھی چیزیں جہیز میں دیتے ہیں اور زیادہ تر معاملے میں سود پر قرض لے کر یہ سبھی چیزیں دی جاتی ہیں۔ جبکہ دین اسلام میں سود کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ گویا کہ ہم لوگ من مانے طور پر جو جہیز لیتے ہیں وہ کہیں نہ کہیں حرام ہے۔ اس طرح نام ونمود اور بہن کا گھر سنوارنے کا خواہشمند اس کے گھر کو تباہ کردیتا ہے۔ اور پھر مسئلہ یہ بھی ہے کہ ملک کے اکثریتی طبقے میں جہیز کا رواج ایک تلخ حقیقت بن گیا ہے۔ وہاں جہیز اب دیا نہیں بلکہ لیا جاتا ہے۔ ایسا کہیں کہ جہیز وصول کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر معاملے میں وہاں لڑکے کی پیدائش اور پرورش سے لے کر پڑھائی لکھائی اور ملازمت کے لئے رشوت میں دی گئی رقم تک لڑکی والوں سے وصول کی جاتی ہے۔ یہاں رشتے طے ہونے میں جہیز کا معاملہ سب سے اہم ہوتا ہے۔ اکثریتی طبقہ جیسی صورتحال اقلیتی معاشرے میں بھی بن چکی ہے جس نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ساتھ ساتھ، مسلم معاشرے کے ہر مسلک کے علمائے کرام کی تشویش بڑھادی ہے۔ اب تو معاشرہ کی جانب سے علمائوں پر دبائو بنایا جانے لگا ہے کہ جہیز لین دین والی شادی میں نکاح کا بائیکاٹ کریں۔ امیر شریعت کی جانب سے بھی لین دین والی شادیوں میں نکاح پڑھانے سے متعلق نکاح پڑھانے والوں کو کچھ خاص ہدایات جاری کرنی چاہئے تاکہ معاشرہ میں اس حوالے سے ایک خاص پیغام جاسکے۔ مگر نکاح کے بائیکاٹ سے مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ پہلے معاشرہ میں جہیز کی برائی کو ختم کرنے کا ہے۔ مسئلہ صرف مسلمانوں کی سوچ کا نہیں بلکہ ان پر اثرانداز ہونے والے اکثریتی طبقہ کے اثرات کا بھی ہے۔ ان حالات کی وجہ سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس معاملے میں پہل کرکے ایک معنی خیز قدم اٹھایا ہے۔ لیکن دھیان رکھنے والی بات یہ ہے کہ بغیر عوامی تحریک وبیداری کے عوامی مسائل سے چھٹکارا نہیں پایا جاسکتا ہے۔ اس لئے سوال یہ ہے کہ کیا آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ یا مختلف مسلک کے علمائے کرام ایسی کسی عوامی تحریک کا تعاون لینا پسند کریںگے؟ ہمارا سوال آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری جنرل سے ہے! جنہوں نے ’دیش بچائو دین بچائو‘ کانفرنس پٹنہ میں منعقد کیا۔ جس کا اچھا پیغام ملک اور دنیا میں جاسکتا ہے تو پھر گھر کی زینت کہی جانے والی بیٹیوں کے لئے ’جہیز ہٹائو بیٹی بچائو‘ کانفرنس کیوں نہیں کراسکتے تاکہ معاشرہ سے جہیز کے خاتمہ کا پیغام پورے ملک کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو جاسکے۔ اب دیکھنا ہےکہ جہیز جیسی خطرناک بیماری کے خلاف ہمارا معاشرہ کب آواز بلند کرتا ہے!

Comments are closed.