ہمارا معاشرہ برائیوں کی زٙد میں

 

ازقلم: ارم ناز

(کھنڈہ، صوابی)

 

ایک اچھے, پُر امن اور ترقی یافتہ معاشرے کا دارومدار اس معاشرے میں برائیوں کے نہ ہونے یا پھر کم ہونے پر ہے۔ اُس معاشرے کے لوگوں کی اچھی بری عادات ہی معاشرے کی تشکیل کرتا ہے۔ کیونکہ معاشرہ لوگوں سے بنتا ہے اور جب لوگ ہی گوڈے گوڈے برائیوں میں ڈوبے ہوئے ہو تو پھر کیسی ترقی اور کہاں کا امن و امان۔

اگر ہم بات کریں اپنے معاشرے کی اور ساتھ ہی اس کا موازنہ اسلامی معاشرے سے کريں تو تجدیدی لحاظ سے ہمارا آج کا معاشرہ کئی گنا زیادہ جدید ہے ان سے، مگر ایک اہم اور نہایت ہی ضروری مقام پر ہم اور ہمارا معاشرہ مار کھا جاتا ہے اور وہ ہے تہذیب، اخلاقیات اور اپنے آباواجداد کے طور طریقے جو کہ ایک اعلیٰ معاشرے اور ایک بہترین نسل و قوم کی تیاری کی سب سے اوّل، اہم اور بنیادی سیڑھی ہے یہ سب ہم بھول بھیٹے ہیں اور یہی تو ہمارے زوال کی اہم وجہ ہے کہ ہم بھول بھیٹے ہیں کہ ہم ہیں کون؟ ہمیں کرنا کیا ہے؟ اور ہم کر کیا رہے ہیں؟

آج کل اپنے آپ پر اور اپنے اردگرد لوگوں پر ایک تنقیدی نظر ڈال کر دیکھے اور فیصلہ کریں کہ کیا ہم ایک باعزت قوم، ایک فرمانبردار امّت اور ایک بااخلاق اور باتہذیب معاشرے کے باسی کہلائے جانے کے قابل ہیں؟

کیا ہم یہ حق رکھتے ہیں کہ ہم عزت دار کہلائے جائے؟ کیا ہماری خلوت ایسی ہے کہ جس کا ذکر ہم محفل میں فخر سے کریں اور لوگ اس سے کچھ اچھا سیکھے؟

اگر ان سب سوالوں کا جواب ہاں ہے تو میری زبان سے آپ کے لئے ایک ہی جملہ نکلے گا کہ ماشاءاللّه کمال ہیں آپ، اور اگر آپ کا جواب نہ میں ہے تو پھر غور و فکر کریں، اپنے کردار کی تعمیر میں جت جائے اور اپنی آخرت کو سنوارنے کی فکر کریں تاکہ آخرت کے ساتھ ساتھ آپ کی دنیا میں بھی نکار پیدا ہو۔

میں مانتی ہوں یہ سب باتیں کرنا آسان ہے لیکن اس پر عمل پیرا ہونا نہایت ہی مشکل اور کھٹن ہے اور وقت گزرتے ساتھ یہ مزید مشکل دکھائی دیتا ہے اور وجہ پتہ ہے کیا ہے؟

وجہ ہے معاشرے میں کسی وبا کی طرح بڑھتی ہوئی برائیاں جو کسی جان لیوا مرض کی طرح ہمیں اور ہماری نوجوان نسلوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ جو کسی دیمک کی طرح ہماری جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ اور ہم روز بروز پستیوں کی طرف بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں اور یہ حالات دیکھ کر دل میں یہی خیال آتا ہے کہ قیامت اب آئی کہ تب آئی۔ کیونکہ حضور ﷺ نے قیامت کی جو جو بنیادی نشانیاں بتائی تھی وہ سب ظاہر ہونے لگی ہے اور یقین مانے دل ڈوب سا جاتا ہے جب وہ نشانیاں اپنی نظروں کے سامنے ظاہر ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے تو۔

آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ جب معاشرے میں زنا، شراب، قتل و غارت، غیبت، جھوٹ، سود، ملاوٹ اور ریاکاری عام ہونے لگے تو سمجھ جانا کہ قیامت قریب ہے۔

تو اب آپ خود سوچے اور اپنے اردگرد کا جائزہ لے کہ کیا یہ سب آج کل عام سی باتوں میں شامل نہیں ہے؟ کیا ہم اور ہمارے اردگرد کے لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں میں جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے؟ اور پھر جھوٹ تو ایک ایسی برائی ہے جو باقی برائیوں کی جڑ ہے اور وہ کہتے ہیں نا کہ ایک جھوٹ چھپانے کے لئے سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔

معاشرے میں موجود ایک اور عام ہوتی برائی کی بات کی جائے وہ ہے غیبت جو آج کل بہت ہی معمولی سی بات ہو گئی ہے جس کو ہم نے گوسپ کا نام دے کر ایک انٹرٹینمنٹ کا حصّہ بنا دیا ہے اور معذرت کے ساتھ کہنا چاہوں گی کہ ہماری خواتین کا تو کھانا ہی ہضم نہیں ہوتا جب تک وہ اردگرد کے لوگوں کی شان میں قصیدے نہ پڑھ لیں۔ ان سب برائیوں میں سر فہرست جو برائی ہے جسے آج کل امیری جھاڑنے کا زریعہ اور فیشن کا حصّہ بنا دیا گیا ہے پھر چاہے وہ حقیقی زندگی ہو یا پھر فلمز اور ڈرامے ہو آج کل شراب کے بغیر ادھورے سمجھے جاتے ہیں۔ ارے صرف فلمز ڈرامے اور کلبز ہی کیا آج کل تو ہائی کلاس اسکولز اور کالجز تک میں بچوں کو شراب مہیا کیا جا رہا ہے، اور جیسا کے سب کو ہی پتہ ہے کہ شراب اور جھوٹ ہی تو درحقیقت تمام بڑی بڑی برائیوں کی جڑ ہے لیکن یہ دونوں ہمارے معاشرے میں وافر مقدار میں پائے جانے لگے ہیں اور ہم یہ سب ملاحضہ کرنے کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ کچھ کہتے ہی نہیں ہیں ان سب کے خلاف۔

ان سب برائیوں کی بڑھتی ہوئی شرح دیکھ کر بھی دل خون کے آنسو روتا ہے مگر آج کل کی نہایت تیزی سے بڑھتی ہوئی برائی جس کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے اور دل درد سے پٹتا ہے اور وہ جرم ہے معصوم کلیوں کے ساتھ زیادتی جو ایک عام اور معمولی سا جرم بن گیا ہے۔ جو اتنا عام ہو گیا ہے کہ جوان اور بالغ لڑکیاں تو ایک طرف آج کل چند ماہ کی بچیاں اور تین تین بچوں کی ماؤں کو بھی سرِعام درندگی کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے اور مجرموں کو نامعلوم افراد کی فہرست میں ڈال کر اس واقعے کو بھلا دیا جاتا ہے۔

تو اب آپ سب خود فیصلہ کریں کہ ان حالات میں قیامت نہ آئے تو کیا پھولوں کی بارشيں برسائی جائے ہم پر؟ اگر ان حالات میں معاشرہ زوال کا شکار نا ہو گا تو اور کیا ہو گا؟ ارے جہاں سرِعام قتل و غارت کا بازار گرم ہوا پڑا ہو، بچے والدین کو ذلیل و خوار کرتے پھرے، بھائی بھائی کے خون کا پیاسا بن جائے، جہاں اعلی سے ادنیٰ افسر کرپشن کا عادی ہو وہاں معاشرے اور نسلوں کی ترقی کیا خاک ہو گی۔ارے میں کہتی ہوں چھوڑ دیجیے ترقی کی امید اور امن و امان کا انتظار۔ختم کر دیں یہ دوغلی شخصیتوں کا کھیل کہ ایک طرف تو گناہوں اور برائیوں کے دلدل میں گرے پڑے ہیں اور دوسری طرف امید لگائے بھیٹے ہیں کہ معاشرہ ترقی کرے گا اور امن و امان کا گہوارہ بنے گا۔

ہاں اگر یہ امید نہیں چھوڑنی تو پھر اپنے آپ میں موجود برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے تاکہ جب آپ امن، خوشحالی اور ترقی کی امید رکھے تو آپ کا ضمیر مطمئن ہو اور جب کبهی ترقی و خوشحالی کی بات کرے تو آپ کے منہ سے وہ بات اچھی بھی لگے۔

تو آئیے ہم سب مل کر اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر ان تمام برائیوں کو ختم کرنے کی جدوجہد شروع کریں جو کسی ناسور کی طرح ہمیں، ہماری نوجوان نسلوں اور ہمارے معاشرے کو برباد کرنے میں سرگرداں ہے۔آئیے سب مل کر قدم اٹھائے اس ناسوروں کے خلاف تاکہ ہم اس دنیا میں بھی عزت و احترام سے جانے جائے اور آخرت میں بھی اللّه تعالیٰ کی بارگاہ میں سرخرو ہو کر اپنے پیارے نبی حضرت محمّد ﷺ کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچ جائے جنہوں نے ہماری خاطر راتوں کو جاگ جاگ کر دعائیں مانگی اور بروز قیامت بھی ہماری فکر میں ہوں گے۔

اللّه تعالیٰ ہم سب پر، ہمارے ملک اور ہماری قوم پر اپنا خاص کرم فرمائے اور ہمیں اس برائیوں کے دلدل میں گرنے سے بچائے، آمین الٰہی آمین۔

والسلام!

Comments are closed.