محمد بن سلمان پر منڈلاتا خطرہ!!!

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043
ایسا مانا جاتا ہے کہ مجرم کتنا بھی ہوشیار کیوں نہ ہو وہ کوئی نہ کوئی خطا ضرور کر جاتا ہے جس سے اس کی شناخت کرلی جاتی ہے، سعودی شہزادے، ولی عہد اور جلد از جلد شہنشاہیت کی گدی پر براجمان ہونے والے؛ نیز ماڈرن اسلام کے حامی محمد بن سلمان کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہوگئی ہے، اپنے والد سلمان بن عبدالعزيز کی طبیعت ناساز ہونے ہونے کی بنا پر سعودی عرب کی باگ ڈور لگ بھگ انہیں کے ہاتھوں میں ہے، شیخ سلمان اپنی ضعیفی اور لاغری کی زندگی چَل چلاؤ کا وقت کاٹ رہے ہیں، جن کے جاں نشین محمد بن سلمان ہوں گے، انہوں نے مغرب کے سینہ سے دودھ پیا ہے، اور یورپی تہذیب کی گود میں پرورش پائی ہے، جدید ثقافت کی چکا چوند میں آنکھیں کھولی ہیں اور تعلیمی لیاقت بھی انہیں کے آستانے سے پائی ہے، اسی لئے حقوق انسانی کے سلسلہ میں سینکڑوں پروپیگنڈوں کے باوجود سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کے داماد کی خوشنودی حاصل کرتے ہوئے نہ صرف سعودی بلکہ خلیجی ممالک پر وقت سے پہلے ہی دھونس جمانی شروع کردی ہے؛ حتی کہ جس کسی نے ان کے خلاف آواز بلند کی انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا، بلکہ کہا جاتا ہے کہ سعودیہ کے اندر ایک مستقل خفیہ کمیٹی ہے جو صرف اور صرف سعودی کے خلاف لکھنے اور بولنے والوں پر نگاہ رکھتی ہے اور انہیں پس زنداں کرنے میں مدد کرتی ہے، انہیں میں ایک مشہور صحافی خاشقجی بھی تھے، یہ ماضی میں سعودی عرب کی حکومت کے مشیر کے طور پر بھی کام کر چکے تھے؛ لیکن بعد میں سعودی حکمران خاندان کی نظروں میں کھٹکنے لگے، بلکہ معاملہ اتنا سنگین ہوگیا کہ ان کی جان پر بَن آئی؛ ایسے میں وہ ملک چھوڑ کر سنہ ٢٠١٧ میں امریکہ چلے گئے۔ امریکہ میں انھوں نے واشنگٹن پوسٹ کیلئے محمد بن سلمان کی پالیسی پر تنقیدی کالم لکھنے شروع کر دیے؛ اپنے پہلے ہی کالم میں انھوں نے لکھا تھا کہ انھیں سعودی عرب میں گرفتاری کا خوف تھا؛ کیوں کہ محمد بن سلمان اپنے تمام مخالفین کی آواز دبانے کی کوشش کر رہے تھے۔ انھوں نے اپنے آخری کالم میں یمن پر سعودی عرب کے حملے پر شدید تنقید کی تھی، ظاہر ہے کہ یہ صحافی شہزادے کی آنکھ کا کانٹا بن چکا تھا، مگر کئی کوششوں کے باوجود اس پر قابو نہیں پایا جاسکتا تھا، لیکن سعودی انٹیلی جنس نے بڑی شاطرانہ طور پر انہیں ٹھکانہ لگا دیا، امریکی صحافی اور امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے جمال خاشقجی کو سنہ ٢٠١٨ میں استنبول کے سعودی سفارت خانے میں بڑی بے رحمی سے قتل کر دیا گیا تھا؛ بلکہ ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے گئے تھے، اور ان کی نعش کو گُم کردیا گیا تھا، سعودی عرب کے سفارت خانے کی عمارت کے اندر سعودی اہلکاروں کے ہاتھوں ہونے والے اس قتل میں محمد بن سلمان کو ملوث مانا گیا تھا، ترکی نے بڑی پیش قدمی بھی کی تھی، مگر عائد کئے گئے تمام الزامات کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے تردید کی تھی؛ بالخصوص ٹرمپ کی یاری اور سرپرستی کی وجہ سے ان پر مزید کوئی کارروائی نہ ہوسکی، مگر انتخابی مہم کے دوران ہی جو بائیڈن نے کہہ دیا تھا کہ وہ خاشقجی قتل معاملہ کی تحقیقات کروائیں گے؛ چنانچہ حالیہ امریکی قومی انٹیلیجنس کے ادارے نے کہا ہے کہ: ‘ہم نے اس بات کا تعین کیا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی صحافی خاشقجی کو ترکی کے شہر استنبول میں پکڑنے یا قتل کرنے کی منظوری دی تھی۔
بی بی سی اس پر متعدد رپورٹس شائع کی ہیں، جن کے مطابق ایسا نہیں ہے کہ یہ رپورٹ بائیڈن نے ہی تیار کروائی ہو بلکہ یہ ٹرمپ کے زمانے کی تحقیق ہے؛ لیکن ٹرمپ نے اس رپورٹ کو دبا دیا تھا، حتی کہ جاپان میں G20 کی ایک میٹنگ میں جب ٹرمپ سے ایک صحافی اس پر سوال کیا تھا تو انہوں نے جواب دینے سے ہی انکار کردیا تھا، نیز ایسا بھی نہیں ہے کہ مذکورہ رپورٹ میں کوئی ثبوت پیش نہ کیا گیا ہو؛ بلکہ انہوں نے اس رپورٹ میں ایسی تین وجوہات بیان کی ہیں جن کی بنیاد پر یہ کہا گیا ہے کہ ولی عہد نے اس آپریشن کی منظوری دی تھی:
١- سنہ ٢٠١٧ کے بعد سے ریاست میں فیصلہ سازی پر کنٹرول
٢- ان کی حفاظت پر معمور ایک مشیر کا اس آپریشن میں براہ راست ملوث ہونا
٣- ولی عہد کی جانب سے ‘بیرون ملک مقیم مخالف آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے پرتشدد اقدامات کی حمایت-
یاد رہے کہ اس سے پہلے سعودی حکام نے کہا تھا کہ سعودی ایجنٹس کی ایک ٹیم کو جمال خاشقجی کو سعودی عرب لانے کیلئے بھیجا گیا تھا اور اس کارروائی کے دوران صورت حال بگڑ جانے کی وجہ سے وہ ہلاک ہوگئے۔ سعودی عرب کی ایک عدالت نے اس قتل کے جرم میں پانچ اہلکاروں کو موت کی سزا سنائی تھی؛ لیکن گذشتہ سال ستمبر میں ان کی سزا میں کمی کر کے اس کو ٢٠/ سال قید میں بدل دیا گیا تھا۔ خلیجی ممالک کی نیوز ایجنسیاں بوکھلاہٹ میں اس پر حیران کن دفاع کر رہے ہیں، الجزیرہ نے تو یہاں تک شہ سرخی لگائی تھی کہ None of your business – اس سے آپ کا کوئی سروکار نہیں؛ بہرحال جو بائیڈن نے جس طرح خلیجی ممالک اور سعودی عرب کے تئیں سخت رویہ کا اظہار کیا ہے اس سے لگتا ہے کہ ان کے پیش نظر انسانی حقوق کی بحالی اولیت رکھتی ہے، ایسا مانا جاتا ہے کہ اگر امریکہ نے سختی کی تو پھر محمد بن سلمان کے خواب ادھورے رہ سکتے ہیں، مگر سچ کہا جائے تو بہت سے امریکی اور عالمی احوال پر گہری نظر رکھنے والے بتاتے ہیں کہ سعودی عرب اور امریکہ کی دوستی سالہا سال پرانی ہے، دونوں کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، اس لئے ممکن ہے کہ آئندہ کوئی کارروائی نہ ہو، ویسے ابھی کوئی حتمی بات کہنا جلد بازی ہوگی، سبھی جانتے ہیں کہ یہ سب ایک ہی تھالی کے چٹّے بٹّے ہیں، انسانی خون اور اس کی لت ان کی زبان کو لگی ہوئی ہے، خود غرضی اور مفاد کے سامنے کسی چیز کی کوئی اوقات نہیں ہے، اگرچہ بائیڈن نے یمن میں سعودیہ کی مدد کرنے سے انکار کردیا ہے اور ہتھیاروں کی خریداری پر روک لگانے کے اشارے دئے ہیں؛ ساتھ ہی ایران کی تعریف بھی کی ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب کچھ صاف صاف دکھائی دیتا ہو، ممکن ہے کہ امریکہ کی بگڑتی معیشت اور عالمی سطح پر بکھرتی حیثیت کو دیکھتے ہوئے بائیڈن سخت رخ دکھا رہے ہوں، صحیح اندازہ تو تب ہوگا جب واقعی میں کارروائی کردی جائے، تاہم اتنا طے ہے کہ ان سب مباحث کے دوران خلیجی ممالک کی بے ثباتی اور بے بضاعتی کے ساتھ امریکی نوازی جگ ظاہر ہوتی جاتی ہے، اور جو لوگ عامیانہ ان کی طرف رشک کی نگاہیں بلند کئے رہتے ہیں یا پھر ان کیلئے موم کی ناک بنے رہتے ہیں ان کیلئے قابل عبرت ہیں.
04/03/2021
Comments are closed.