عائشہ مظلومہ مرحومہ اور دیگر بہنوں کی خود کشی بھی اللہ کی ناراضگی کا ذریعہ ہے

از: افضل حسین القاسمی
(خادم الإ فتاء صدیقیہ مسجد جوگیشوری ممبئی)
احمدآباد کی عائشہ نامی مرحومہ بہن کا بطریقۂ خود کشی روح فرسا واقعہ ہو، یا اس جیسے دیگر پیش آمدہ ہیبت ناک واقعات۔ ہمیں بڑی ذمّہ داری کے ساتھ ان جیسے معاملات میں خصوصاً دو پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، پہلا پہلو! تو خود ناجائز عمل یعنی خود کشی کا ارتکاب ہے جو کہ عظیم جرم ہے، اس کی قباحت وشناعت لوگوں کے قلوب میں کیسے بسائی جائے، اور اخروی عذاب کی سنگینی سے انہیں کیسے ڈرایا جائے۔ دوسرا پہلو! ذرائعِ فسق یعنی خود کشی وغیرہ پر مجبور کرنے والے اسباب وعوامل کیا ہیں؟ اس پر قدغن کس طرح لگے، کہ لوگوں کی جانیں محفوظ ہو سکیں۔
تو اب مذکورہ دو پہلوؤں کی روشنی میں عائشہ بہن کی خود کشی کا جب ہم حالات کے تناظر میں کسی قدر تحقیقی وتفصیلی جائزہ لیتے ہیں، تو اکثریت کی تحریر و تقریر کا یک طرفہ ایسا جھکاؤ معلوم ہوتا ہے، کہ بس یوں لگنے لگتا ہے کہ بے چاری عائشہ کا کیا جرم وہ تو ذرائعِ فسق یعنی جہیزیوں کی خطا ہے، عائشہ کی ادھوری محبت کا احساس اس انداز میں پیش کیا جارہا ہے کہ گویا اس نے خود کشی کرکے کوئی جرم ہی نہ کیا ہو، اس کے حق میں جواز کی شکل پیدا ہوگئی ہو، اور بیان وتحریر کی رَو میں خود کشی کی سنگینی عائشہ مرحومہ کے حالات کے تئیں اس طرح مغلوب کردی جارہی ہے کہ جیسے خود کشی بہت ہی معمولی گناہ ہو۔ جب کہ ہونا کیا چاہیے؟ ہمیں خود کشی جیسے واقعات پر بغیر کسی تاویل کے ذرائعِ خود کشی کی مذمت کے ساتھ ساتھ خود کشی جیسے قبیح عمل کی بھی بھر پور قباحت وشناعت اس انداز میں اجاگر کرنی چاہیے کہ لوگوں کے دلوں میں اس کی سنگینی بیٹھ سکے اور عذابِ الٰہی سے خوف پیدا ہوسکے، اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں! کہ خود کشی کرنے والے کو جہنمی قرار دیا جائے یا اس کا نام لیکر لعنت ملامت کی جائے بلکہ عملِ بد کی شناعت پیش کرنے سے دریغ نہ کیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا بلکہ خود کشی کرنے والے کے حالاتِ سنگلاخ کو پیش کرکرکے خود کشی کرنے والے پر ترس کی مہر اس طرح ثبت کردی گئی، کہ چہار جانب اس کی مظلومیت کا چرچہ اس قدر ہونے لگ جائے کہ مختلف النوع میڈیا عوام و خواص بس ہر ایک کا قلم اور زبان بس اسی کی مظلومیت سے تر نظر آنے لگے کہ خود خود کشی کرنے والے کا جُرمِ عظیم بالکل چھپ جائے، اور وہ مجبور وبے بس ہوکر رہ جائے، جیسا کہ عائشہ مرحومہ کے واقعہ میں ہوا تو یاد رکھیں! بایں صورت ہماری بہنیں حالات سے مقابلہ کرنے کے بجائے خود کشی کو ترجیح دینے لگیں گی (جیسا کہ عائشہ مرحومہ کے بعد نیا واقعہ خودکشی کا ویڈیو ریکارڈنگ کے ساتھ پیش آہی گیا) جو ادھوری محبت کو بے جا سلامی دینے کا خطرناک نتیجہ ہوگا۔
کیوں کہ آج کل دنیوی رنگینیاں بہت زیادہ ہیں، بے جا خواہشات کا دور دورہ ہے، جان گرچہ چلی جائے بس ہر خواہش پوری ہونی چاہیے، اور شہرت نام ونمود کا بھوت تو خصوصاً سوشل میڈیا کے ذریعہ اس درجہ سروں پر سوار ہو چکا ہے کہ اگر یہ شہرت خود کشی کی راہ سے بھی حاصل ہوتی ہے، تو افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے نوجوان اس سے بھی دریغ نہ کریں گے۔
خود کشی آدمی ہر دور میں خواہشات کی عدمِ تکمیل پر حالات سے دوچار ہوکر ہی کرتا ہے، کون ہے؟ جو خود کشی خوشی سے کرتا ہے؟ تو کیا اس پر ترس کھایا جائے اور اس کے جرم کو بالکل ہلکا سمجھ لیا جائے ، اگر ایسا ہوگا تو ہر شرابی جو حالات سے دوچار ہوکر شراب غم کو ہلکا کرنے کے لئے پیتا ہے وہ بھی خود کو معذور اور قابلِ ترس سمجھے گا، ایسا ہر گز نہیں! بلکہ غم میں شرکت کے ساتھ ساتھ اس کی بزدلی اور پستِ ہمتی کو اس انداز میں بیان کیا جائے، کہ خود کشی کی شناعت سامنے آجائے، کیا ہم نبی علیہ السلام سے زیادہ شفیق ورحیم بن گئے؟ یا نبی علیہ السلام کے زمانے میں خود کشی شوقیہ کی جاتی تھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو خود کشی کرنے والے کی حوصلہ شکنی اور اس کی قباحت وشناعت کو لوگوں کے قلوب میں بٹھانے کے لئے نمازِ جنازہ پڑھانے سے اعراض کیا کرتے تھے (جیسا کہ اس سے قبل تحریر میں وضاحت آچکی) اور ہم ہیں کہ اس عملِ بد کی خفت میں لگ گئے ہیں، اور دبے لفظوں میں حوصلہ بخش تحریر وبیان جاری کیے جارہے ہیں، ہمیں ہو کیا گیا ہے؟ اگر یہی صورتِ حال رہی تو بہو بیٹیوں پر اچھے اثرات مرتب نہ ہوں گے اور دیگر ملکوں کی طرح حالات سے پریشان لوگوں کے لئے خود کشی کی ترغیب وتائید اور توثیق قانونی رو سے ہمارے ملک میں بھی خیر خواہی کا معیار ہوجائے گی۔
جبکہ عائشہ مرحومہ کے واقعہ میں اس کے تمام تر حالات کو سمجھتے ہوئے ہمیں یک لمحہ کے لئے ضرور یہ سوچنا چاہیے تھا کہ عائشہ نے جب اپنے شوہر پر کوئی صریح الزام نہیں لگایا بس وہ یک طرفہ محبت سے پریشان لگ رہی تھی (جس کی وجہ سے وہ خود پر قابو نہ رکھ پائی اور خود کو سابرمتی ندی کے حوالہ کردی) تو یہ ایک طرفہ محبت کی وجہ کیا تھی؟ زوجین کا آپسی تعلق کیسا تھا؟ ناچاقی کی بنیادی وجہ کیا تھی؟ اور جہیز کا الزام جو لگایا گیا وہ صحیح بھی ہے یا نہیں؟ تو جب تک جانبین سے تحقیق نہ ہوجائے محض یکطرفہ تحریر وبیان سے فوری احتیاط کرنی چاہئے، بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اگر یہ "مبنی بر صداقت ہے” تو ایسا اور ویسا” اور اگر کسی کو فوری یا بعد میں شوہر کی ظالمیت اور بیوی کی مظلومیت پر شرحِ صدر ہو بھی گیا ہو، تب بھی بیوی کی تمام تر مظلومیت کو تسلیم کرتے ہوئے خود کشی کے ذرائع زود وکوب اور جہیز وغیرہ کی بھر پور مخالفت کرتے ہوئے (جیسا کہ دوسرے پہلو میں اسکا ذکر موجود ہے) عائشہ کے اس عملی اقدام کی شدت سے نفی کرنی چاہئے تھی اور امت کی دیگر بہنوں کو پیغام دینا چاہئے تھا کہ عائشہ کا یہ مذموم قدم حسنِ خاتمہ کے زمرہ میں نہیں آتا، بلکہ اللہ کی ناراضگی اور جہنم میں جانے کا ذریعہ ہوتا ہے، گناہ کی قباحت بیان کرنے سے گنہگار کو جہنمی قرار دینا لازم نہیں آتا، بلکہ حقیقتِ حال اسوجہ سے بیان کرنا ضروری ہوجاتا ہے کہ آگے قدم اٹھانے والوں کا قدم خود کشی کی زجر ووعید سے کپکپا اٹھے۔
اس طرح! کہ عائشہ بہن! واقعی مظلومہ تھی، ان کے ساتھ بے جا زیادتی ہورہی تھی جس کی وجہ سے اس نے یہ قدم اٹھا لیا جو انتہائی افسوسناک ہے، یہ تو دنیا ہے حالات بد سے بدتر آتے رہتے ہیں، سارے شوہر ایک جیسے نہیں ہوتے کچھ انسانی شکل میں درندے بھی ہوتے ہیں، اور ایسے ظالم شوہروں کو مناسب سبق سکھانے کی ضرورت ہے تاکہ دیگر بہنوں کیساتھ یہ نوبت نہ آئے۔
لیکن! ان سبکے باوجود عائشہ بہن کو چاہئے تھا کہ اپنے جذبات پر قابو رکھتی، مزید صبر کرتی، اللہ اس پر اجر وانعام عطا فرماتے، یہ سمجھتی کہ خود کشی مسئلہ کا حل نہیں تھی، بلکہ دارالقضاء یا عدالت یا آپسی سمجھوتہ مسئلہ کا حل ہوسکتا ہے، اگر دنیا میں کلی انصاف نہ بھی ہوسکا تو حقیقت یہ ہے کہ دار الجزاء تو اصل آخرت ہے، ہر چیز کا بدلہ دنیا میں نہیں ملا کرتا، یہ سوچنا چاہئے تھا کہ یہ جسم وجان اللہ کیطرف سے عطا کردہ ایک امانت ہے، اس زندگی کا مقصد متعین ہے، شوہر کی محبت نہ پانے یا حالات سے دوچار ہونے پر ہلاکت کا حکم نہیں دیا گیا ہے، مجھ سے بھی زیادہ حالات کی ماری بیویاں صبر واستقلال کے دامن کو تھام کر اللہ کی امانت کو سنبھالی ہوئی ہیں، خود کشی کے ذریعہ جسم وجان میں خیانت اللہ کی ناراضگی کا ذریعہ ہے۔
جب دنیا و مافیہا سے زیادہ محبت اللہ اور اسکے رسول سے کرنے کو کہا گیا ہے، جسکا تقاضہ یہ ہے کہ کوئی بھی انسان حرام کام کے ارتکاب کا حکم دے یا فرائض وواجبات کی پاسداری سے منع کرے تو اسکی اطاعت نہ کیجائے گی، حتی کہ والدین کی بھی، تو شوہر کے کہنے پر کہ عائشہ! "تو مرجا اور ویڈیو بناکر بھیجدینا” اس سے خود کشی کا جواز نہیں ہوجاتا گرچہ شوہر کو ایسا نہیں کہنا چاہئے تھا، لیکن جذباتیت میں عائشہ کا اپنی محبت کو جتلانے کیلئے شوہر کی ناجائز بات کو خود کشی کے ذریعہ عملی جامہ پہنادینا بالکل خلافِ شرع تھا، اس قِسم کے نامناسب جملے بہت سے شوہر اپنی بیویوں کو یا والدین اپنی اولاد کو کہہ دیا کرتے ہیں، کہ "جا شکل نہ دکھانا” "ٹھیک ہے جا مرجا” "اب دوبارہ نہ آنا” وغیرہ وغیرہ تو کیا مطلب! اس پر عمل پیرا ہوجانا چاہئے، ہر گز نہیں، عموماً اس قسم کے الفاظ دل سے نہیں کہے جاتے بس غصہ کا اظہار ہوتا ہے، گرچہ اس قسم کی لایعنی باتیں نہیں کرنی چاہئے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "لا طاعةَ لِمخلوقٍ فيْ معصيةِ الخالقِ” خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔ یہ کونسی محبت کا ثبوت کہ خود بھی گنہگار بن جائے، اور اپنے محبوب کو بھی مزید گنہگار بناڈالے یہ تو کوئی دانشمندی نہیں ہے، اسلئے کہ خود کشی اللہ کی نگاہ میں جرم عظیم ہے، جسکی مرتکب عائشہ ہوئی، اور خود کشی کا ذریعہ بننا بھی جُرم ہے، جسکا ذریعہ اسکا شوہر عارف ہوا۔
والدین اور شوہر کی باتوں میں سے عائشہ کو جذباتیت سے ورے والدین کی دل سوز باتوں کو ترجیح دینا چاہئے تھا، کیونکہ وہ گناہ سے بچانے اور جسم وجان کی حفاظت میں لگے تھے، جو عزت ورِفعت کا راستہ تھا اور شوہر نے تو جسم وجان کو گنوانے میں ورغلایا تھا جو ذلت ورسوائی کا راستہ تھا۔
لیکن حقیقت یہی ہے کہ عائشہ اپنے جذباتیت پر قابو نہ پاسکی، شیطانیت سر پر سوار تھی، وہ اپنا کام کرگئی شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ کسطرح جذبات میں لاکر اچھے لوگوں کو بھی سوء خاتمہ کیطرف دھکیل دیا جائے، کہ جو انھیں صبر پر انعام ملنے والا ہے اس سے محروم کردے، کیا ہی اچھا ہوتا! کہ مظلومہ خود کشی کے بغیر دنیا سے جاتی تو اللہ کے یہاں کچھ اور ہی مقام ہوتا، یہ تو بندہ اپنے اعتبار سے سوچتا ہے لیکن اللہ ہی کو بہتر معلوم ہے کہ اسمیں کیا حکمت پوشیدہ ہوگی۔
راقم الحروف نے خود کشی سے قبل والی عائشہ مرحومہ کی درد انگیز اور اسکے والد صاحب کی دردمندانہ التجا کی ویڈیو اور آڈیو کو دیکھا اور سنا، میں نے جو محسوس کیا وہ آپکی خدمت میں امانت داری سے پیش کرنا مناسب سمجھ رہا ہوں، کوئی ضروری نہیں کہ ہر ایک کا طریقۂ دید اور معیارِ سمجھ میں بعینہ مناسبت ہو، اسلئے کسی کے مزاج ومعیار کے مخالف تبصرہ ہو تو معذرت، میں نے اپنے دل کی آواز کو اپنی کوتاہ علمی کے اعتراف کے باوجود مزاجِ شریعت کے موافق پایا، اسلئے قلم کو حرکت دینے کی زحمت گوارہ کیا۔
جب عائشہ کی درد و سوز میں ڈوبی آواز کو سنا اور ظاہری پھیکی پھیکی مسکراہٹوں کو دیکھا تو اندرونی عمیق زخموں کا اندازہ لگانے میں دسترس حاصل ہوئی اور مجھے اس حد تک کافی ترس آگیا اور ناہنجار شوہر پر کافی غصہ بھی، اور دل سے جیسے بے اختیار یہ دعا نکلی کہ اللہ اسے بچاکر عافیت عطا فرمادے، لیکن شاید جب تک وہ دنیا سے دارِ بقا کیطرف جا چکی تھی، کیونکہ ویڈیو حقیقت میںموت کے بعد وائرل ہوا تھا، اور جب یہ علم ہوا کہ واقعی وہ خود کشی کرکے اللہ کی امانت میں خیانت کرچکی ہے، تو بحیثیتِ مؤمن اس پر بہت ہی افسوس ہوا کہ اس مؤمنہ مظلومہ کی موت حرام طریقہ پر ہوگئی، اور پھر اس عملِ بد کی سنگینی دل میں پیدا ہوگئی پھر جو ترس کا جذبہ تھا وہ وہاں سے کافور ہوگیا، اب عائشہ کے اس عملِ بد پر غصہ آنے لگا، اور جب عائشہ کے والد مرحوم کیطرف سے بیٹی کے بلاوے کی لجاجت سنا جسے سن کر پتھر دل موم ہوجاتا، اس بوڑھے باپ نے اسے قسم دی، اسکے نام کی عظمت یاد دلائی، بیٹی کو منانے کیلئے خود کو اور اہلِ خانہ کی ہلاکت کی ایسی رقت آمیز باتیں کہیں، کہ میں اپنی آنکھوں پر قابو نہ پاسکا بلآخر وہ بیٹی اپنے شوہر کی غیر شرعی بات پر عمل پیرا ہوکر والدین کی باتوں سے سرتابی کرکے خود کو سابرمتی ندی کے حوالہ کردی تو مجھے اور زیادہ عائشہ کے اس عمل پر غصہ آیا، اور خودکشی کا جو طریقۂ کار عائشہ نے اپنایا وہ بھی مزید میرے قلب سے ترس کے جذبات کو اکھاڑ پھینکا۔
کیونکہ گرچہ اسکی باتوں سے اسکی زندگی کے درد کا احساس ہورہا تھا لیکن خودکشی جیسے قبیح عمل کا مذاق بھی اپنے اندر سموئے ہوئے تھا، وہ افسانہ بھری باتیں یعنی انسانوں کی شکل نہیں دیکھنا چاہتی، ہواؤں میں بہنا چاہتی ہوں وغیرہ وغیرہ الفاظ کے ذریعہ خود کشی کی خفت کا منظر پیش کررہا تھا، ایسا لگ رہا تھا جیسا کہ یہ کوئی جرم ہی نہ ہو، اور اس خود کشی کی ویڈیو کے ذریعہ جو نقصان اور مضر اثرات ہماری دیگر بہنوں پر پڑ سکتا تھا، وہ بھی میرے دماغ میں گردش کرنے لگ گیا تھا، بایں معنی بلا کسی تاویل کے میں نے اس بد عملی پر اس غصہ کو خلافِ شرع نہ سمجھا۔
اسلئے بلا کسی اجمال کے یہ لکھدینا مناسب سمجھا کہ عائشہ کا اسطرح خودکشی کی ویڈیو بنانا غلط تھا اس سے اچھے اثرات مرتب نہ ہوں گے، والدین کی باتیں ٹھکرادینا خلافِ شرع تھا، اور اللہ کی نافرمانی میں مخلوق یعنی شوہر کی اطاعت کرکے خود کشی کو انجام دے دینا بالکل ہی جائز نہ تھا، یہ سب اعمال قابلِ مذمت ہیں، اللہ کی ناراضگی کا ذریعہ اور صراطِ جہنم ہے، لیکن ایمان سے خارج کرنے والے اعمال نہیں ہیں، یہ حقیقت بیانی میں کوئی حرج نہیں تاکہ کسی کو گناہوں پر جرأت آسانی سے نہ ہوسکے ہاں! گناہوں کو معاف کرنا نہ کرنا اللہ کے اختیار میں ہے، ہم اسکے ٹھیکیدار نہیں ہے، یہی دعا کرتے ہیں، کہ اے اللہ! عائشہ بہن اپنی تمام تر مظلومیت کے باوجود شیطان کے بہکاوے میں آکر خود کشی کرلی ہے اپنے فضل سے تو اسے معاف فرمادے۔
دوسرا پہلو! ذرائع فسق: جسطرح نیکی کا ذریعہ بننا ممدوح ہے تو گناہوں کا ذریعہ بننا بھی مذموم ہے، تو عائشہ مرحومہ کے سانحہ میں خودکشی کا سبب اسکے شوہر کا اگر حرصِ جہیز ہے، جیسا کہ ابھی تک یہ خلاصہ ہوا ہے، تو یہ بھی "تعاون علی الاثم” میں داخل ہوکر بنگاہِ شریعت مبغوض ہے، تو ایسے شوہر جو جہیز کے لالچی ہیں، انکا سماجی بائیکاٹ ہونا چاہئے، اور مناسب شرعی حدود میں رہ کر دیگر تادیبی کاروائی ہونی چاہئے، تاکہ جہیز کے لالچیوں، لیچڑوں اور رذیلوں کو سبق حاصل ہوسکے جن کیوجہ سے ہر آئے دن نہ جانے کتنی عائشہ نا امید ہوکر جہیز کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔
جہیز کی تباہ کاریاں معاشرہ میں جس قدر تیزی سے پھیل رہی ہیں، وہ ناگفتہ بہ ہیں، حالات اسقدر نازک ہوگئے ہیں کہ ایسے بعض احباب جو جہیز دینا نہیں چاہتے تو انکی بیٹیوں کی شادیاں موقوف رہتی ہیں، عمریں گزرتی رہتی ہیں، بلآخر کراہتِ خاطر کیساتھ جہیزی رسم کے ساتھ بیٹی کو رخصت کرتے ہیں، اور بعض وہ احباب جو جہیز لینا نہیں چاہتے تو انکے اندر نقص سمجھا جاتا ہے، اور بے جا تاویلوں کے ذریعہ انہیں جہیز کا قائل بناکر جہیزی نکاح کردیا جاتا ہے، الامان و الحفیظ! اس لعنت سے ہمارا معاشرہ کیسے پاک ہو بہت ہی مشکل مسئلہ ہے۔
لیکن! یہ حقیقت ہے کہ دل میں اگر کسی چیز کی سنگینی اتر جائے تو اس سے حفاظت کوئی مشکل مسئلہ نہیں، تو سب سے پہلے جہیز کے سدِّ باب کیلئے جہیز کی قباحت اور اسکے نقصانات سے امت کو روشناس کرایا جائے، ہر محلہ میں مستقل کمیٹی تشکیل دی جائے، صاحبِ ثروت ومنصب حضرات کو پیش پیش رکھا جائے اور یہ عہد لیا جائے کہ وہ نہ خود جہیز کا لین دین کریں گے اور نہ ہی اپنے معاشرہ میں لین دین ہونے دیں گے، اور جہیز مخالف مہم چلانے والوں کی محنت اسی وقت ثمرآور ہو گی، جب وہ خود اس لعنت سے بچیں گے، اور سب سے اہم بات بلکہ یوں کہا جائے کہ جہیز کا خاتمہ اسی پر موقوف ہے تو شاید غلط نہ ہوگا، وہ یہ ہے کہ لڑکیوں کا حقِ وراثت دینے اور دلوانے کا اہتمام کیا جائے، یا تو والدین حیات ہی میں بطورِ ہبہ حساب وکتاب کرکے اختلاف سے بچنے کیلئے دے دیں، جیسا کہ بیٹوں کو دیتے ہیں، یا مرنے کے بعد بھائی لوگ بہنوں کو شرعی اعتبار سے حصہ ادا کریں، اگر بیٹیوں کے سلسلے میں حقِ وراثت کی ادائیگی کو یقینی بنالیا جائے تو اللہ کی ذات سے پوری امید ہے کہ "إن شاء الله” خود بخود جہیز کی رسم ختم ہوجائے گی۔
جیسا کہ تجربہ شاہد ہے کہ جہاں بیٹیوں کے حصے دئے جاتے ہیں وہاں جہیز کی رسم نہیں ہے، اور جہاں بیٹیوں کو جہیز دیا جاتا ہے وہاں بیٹیوں کا حصہ عموماً دینے کا رواج نہیں، ظاہر سی بات ہے کہ جب دولہن کو اسکے گھر والوں کیطرف سے حق وراثت میں سے حصہ ملے گا تو جہیز کے لالچی جو سامانِ جہیز کو باعثِ عزت سمجھنے لگ گئے ہیں، وہ بھی جہیز مانگنے سے رکیں گے، اور بعض وہ لڑکیاں جو خود یہ چاہتی ہیں کہ انھیں کچھ دیا جائے، نہ دئے جانے پر وہ سوچتی ہیں کہ شاید میرے والدین اور بھائیوں کی نگاہ میں میری کوئی عظمت نہیں، انکے دل کی بھی لاج رکھ لی جائے گی، ہوتا کیا ہے، کہ جہیز مخالف مہم تو چلائی جاتی ہے اور حق وراثت پر زور نہیں ڈالا جاتا جسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک تو لڑکیاں حق وراثت سے پہلے ہی محروم ہوتی ہیں، اور شادی کے موقع پر جو تھوڑا بہت ملتا ہے اسے بھی بند کرانے کی محنت ہونے لگتی ہے تو بعض لڑکیاں خود یہ سوچنے پر مجبور ہونے لگتی ہیں، کہ ساری محرومی ہمارے ہی لئے ہے اور لڑکی ہونا اتنا بڑا جرم ہے۔
لہذا صحیح نہج پر محنت کے ذریعہ لوگوں کی صحیح راستے کیطرف رہنمائی کی جائے کہ جہیز دینے سے لڑکیوں کے حقِ وراثت کی تلافی نہیں ہوتی، چاہے کتنا ہی جہیز کیوں نہ دے دیا جائے لہذا لڑکیوں کا حق وراثت ہر حال میں ادا کریں جو ذمہ میں فرض ہے، جہیز کو اسکا متبادل نہ بنایا جائے یہ رسم ورواج کی ترویج ہے جو باعثِ گناہ ہے۔
اخیر میں مردوزن خصوصاً شادی شدہ بہنوں سے عاجزانہ درخواست ہے کہ خدارا! حالات سے دوچار ہوکر خود کشی کرکے عاقبت برباد نہ کریں، صبرواستقلال کے دامن کو تھامیں رکھیں، مختلف زاوئیے سے اس دارِ فانی میں آزمائش آتی رہتی ہے، ہر سرد و گرم احوال میں شریعت نے ہماری رہنمائی کی ہے اس پر عمل کریں، یقین جانیں کہ جذباتیت سے دوچار ہوکر جب بھی کوئی خود کشی کرتا ہے، (چاہے دریا میں کود جائے، زہر کھالے، اونچے مقامات سے چھلانگ لگادے، آگ لگالے، گاڑیوں سے کٹ جائے، وغیرہ وغیرہ) تو جب وہ اپنے اس انتہائی تکلیف کے مرحلہ میں پہونچتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اس نے جذباتیت میں غلط قدم اٹھالیا ہے جو شیطانیت کا حصہ ہے، اور پھر وہ خود کو بچانا چاہتا ہے، جیسا کہ بہت سے آگ لگانے والے اور زہر کھانے والوں کو دیکھا گیا کہ جب آگ اور زہر کی ناقابلِ برداشت تکلیف پہونچنے لگتی ہے تو بچاؤ کی گہار لگانے لگ گئے لیکن اسوقت وہ کیا کریں بچنے کی بسا اوقات سبیل ختم ہوجاتی ہے موقع ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے اور وہ اسی حالت میں دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں، تو ایسا کام کیوں کریں جو پچھتاوے والا ہو، اخروی بربادی والا ہو، دنیوی و اخروی ذلت ورسوائی کا ذریعہ ہو، اور ہماری شمولیت پست ہمت اور بزدل لوگوں میں ہونے لگے۔
والدین سے بھی عاجزانہ درخواست یہ ہے کہ اگر جوڑا ظالم ہو حتی المقدور کوششوں کے بعد بھی نباہ کی کوئی شکل نظر نہ آئے تو حد درجہ اسی جگہ ازدواجی زندگی گزارنے پر مجبور نہ کریں، یہ اغیار کا طریقہ ہے بلکہ خلع وغیرہ شرعی راستے پر چلکر دار القضاء کی مدد سے مظلومہ کو ظالم سے آزاد کرائیں، ایسے مواقع کیلئے ہی شریعت نے راستہ ہموار کر کے کسی موڑ پر مجبور وبے بس ہمیں نہیں چھوڑا۔
میں اسوقت دعا گو ہوں! کہ اللہ مرحومہ عائشہ بہن اور دیگر مظلومہ کی مغفرت فرمائے، پس ماندگانکو صبرِ جمیل عطا فرمائے، خود کشی جیسے قبیح عمل سے ہم سبکی حفاظت فرمائے، صبر واستقلال کے دامن کو تھامنے کی توفیق نصیب فرمائے، شکر گزار بندہ بنائے، حالات سے مقابلہ کا حوصلہ عطا فرمائے، ہر حال وآن میں احکامِ شرع کا پابند بنائے، جہیز جیسی ناپاک رسم کا خاتمہ فرمائے، اسکی تباہ کاریوں سے حفاظت فرمائے، جہیز کے لالچیوں کو صحیح سمجھ عطا فرمائے، بیٹیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور اپنے فضل سے ہم سب کو حسنِ خاتمہ نصیب فرمائے۔ آمین۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
4/3/2021
Comments are closed.