جہیز کا تصور اور اسلام

از۔۔۔ محمد وکیل مظاہری

عربی زبان میں لفظ جہیز کا استعمال کہاں ہوتا ہے پہلے اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔ جَهَّزَ تجھیزا (باب تفعیل) معنی:سامان تیار کرنا۔
اب ہر موقع کے لیے الگ الگ سامان ہوتا ہے، اس حساب سے یہ لفظ اس کے ساتھ لگ کر اپنا مفہوم ادا کرتا ہے۔
مثلاً: جہاز العروس ( دلہن کو تیار کرنا)
جہاز المیت (میت کا سامان تیار کرنا)
جہاز السفر (سفر کا سامان)
جہاز الغازی (غازی کو سامان اسلحہ وغیرہ دینا)۔

ذخیرہ احادیث میں یہ لفظ دیکھا جائے تو دو موقع کے لئے استعمال ہوا ہے:
نمبر ایک غازی کے لیے اس کو میدانِ کار زار میں کام آنے والی اشیا (خَود، زرہ، اسلحہ وغیرہ) مہیا کر کے تیار کرنا۔
چنانچہ اس ضمن میں کثیر تعداد میں روایات ملتی ہیں۔

نمبر دو دلہن کو شبِ زفاف کے لئے تیار کر کے یعنی اُس کو عمدہ لباس وغیرہ سے آراستہ کر کے دولہا کے پاس بھیجنا۔
چنانچہ احادیث میں تین خواتین کا ذکر اس ضمن میں ملتا ہے۔ ایک سیدہ صفیہؓ، دوسرا سیدہ ام حبیبہ ؓ اور تیسرا سیدہ فاطمہ الزہراؓ رضی اللہ عنھن کا۔
1۔ جنگِ خیبر میں واپسی پر رسولﷺ نے سیدہ صفیہؓ کو آزاد کر کے اُن سے نکاح کر لیا تھا، حدیث میں آتا ہے:
«جَهَّزَتْهَا لَهُ أُمُّ سُلَيْمٍ فَأَهْدَتْهَا لَهُ مِنْ اللَّيْلِ»
(صحیح بخاری: ۳۷۱)
’’حضرت اُمّ سلیم ؓ نے حضرت صفیہؓ کو تیار کیا اور اُن کو شب باشی کی لیے نبیﷺ کی خدمت میں پیش کردیا۔‘‘

2۔ نجاشی(شاہ حبشہ) کی طرف سے سیدہ اُمّ حبیبہؓ کو، ان کا نکاح بذریعہ وکالت نبیﷺ کے ساتھ کر کے، نبیﷺ کی خدمت میں ایک صحابی حضرت شرحبیل بن حسنہ کے ساتھ روانہ کیا گیا تھا۔
حدیث میں آتا ہے:
«ثم جهزها من عنده وبعث بها إلىٰ رسول اﷲﷺ… وجهازها کل من عند النجاشی»
(مسند احمد: ۶؍ ۴۲۷)
’’پھر نجاشی نے سیدہ اُمّ حبیبہؓ کو اپنے پاس سے تیار کیا اور ان کو رسول اللّٰہﷺ کی طرف بھیج دیا…اور اُن کی ساری تیاری نجاشی کی طرف سے تھی۔‘‘
ان دونوں احادیث میں تجهیز دلہن سازی، یعنی دلہن کو عروسی لباس اور آرائش وزیبائش سے آراستہ کرنے کے معنی میں ہے۔

أثاث البیت ( گھریلو سامان) دینے کے معنیٰ میں کہیں بھی نہیں ہے جس کو آج کل جہیز کا نام دے دیا گیا ہے، حالانکہ ان احادیث میں جہیز کا لفظ ان معنوں میں ہرگز استعمال نہیں ہوا ہے۔
مسند احمد کی اس روایت میں جهاز کا لفظ جو استعمال ہوا ہے، اس کا مطلب یہاں حق مہر کی ادائیگی ہے جو کہ سامانِ آرائش و زیبائش کے علاوہ مکمل طور پر نجاشی ہی کی طرف سے ادا کیا گیا تھا، اس لیے *جهازها کل من عند النجاشی* کہا گیا ہے۔

3۔ شہزادئ جنت حضرت بی بی فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا کیلئے آیا ہے جبکہ داماد حضرت علی کی مکمل کفالت بچپن سے ہی از خود نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ذمہ تھا۔
حدیث میں آتا ہے۔
«جَهَّزَ رَسُولُ الله ﷺ فَاطِمَةَ فِي خَمِيلٍ وَقِرْبَةٍ وَوِسَادَةٍ حَشْوُهَا إِذْخِرٌ»
(سنن نسائی: ۳۳۸۲)

’’رسول اللّٰہﷺنے (حضرت علیؓ کے پاس بھیجنے کے لیے) حضرت فاطمہؓ کو تیار کیا، ایک چادر، مشک اور تکیہ کے ساتھ جس میں اذخر گھاس بھری ہوئی تھی۔‘‘
اب ان تمام ذخیرہ احادیث پر غور کرو تو پتہ چلتا ہے واقعی اس لعنتی جہیز کا تصور اسلام میں سرے سے کہیں ہے ہی نہیں۔
خاتون جنت کو تین چیزیں جو دی گئیں
1۔ چادر 2۔ تکیہ 3۔ مشکیزہ
در حقیقت یہ بھی حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کی طرف سے تھا!
اس لئے کہ انہیں کا زرہ بیچ کر یہ انتظام کیا گیا تھا

اور اگر کوئی کہے کہ نبی نے دیا تب بھی اسے جہیز دینے کی دلیل نہیں بنا سکتے؛
اس لئے کہ حضرت علی کو نبی نے ہی پال پوس کر بڑا کیا تھا بیٹے کے جیسے۔

گویا اپنے ہی بیٹے کی طرف سے انتظامی امور ترتیب دیئے گئے تھے۔

اور ہمارے یہاں مروجہ رسم جہیز میں شان و شوکت کا اظہار بھی ہوتا ہے، نمودو نمائش کا جذبہ بھی۔
اسراف و تبذیر کی حد تک اس کا اہتمام کیا جاتا ہے؛ اس لیے ہر چیز دینے کی کوشش کی جاتی ہے، چاہے ان کی ضرورت ہو یا نہ ہو اور لڑکے والوں کے پاس اتنا غیر ضروری سامان رکھنے کی جگہ بھی ہو یا نہ ہو۔
جس کے پاس استطاعت نہیں ہوتی، وہ قرض لے کر، حتیٰ کہ قرض حسنہ نہ ملے تو سود پر قرض لے کر یہ رسم پوری کرتا ہے۔
بھرپور جہیز دینے میں وراثت سے محروم کرنے کا جذبہ بھی کار فرما ہوتا ہے۔ بالخصوص اصحابِ حیثیت اس نیّت سے لاکھوں روپے جہیز کی نذر کردیتے ہیں اور پھر واقعی ان کے بیٹے اپنے جائداد والے باپ کی وفات کے بعد اپنی بہنوں کو وراثت سے ان کا شرعی حق نہیں دیتے اور یہی کہتے اور سمجھتے ہیں کہ باپ نے جہیز کی صورت میں اپنی بیٹیوں کو جو دینا تھا دے دیا، اب یہ ساری جائداد صرف بیٹوں کی ہے۔
اس طرح یہ رسم ہندؤوں کی نقل ہے۔ ہندو مذہب میں وراثت میں لڑکیوں کا حصہ نہیں ہے، اس لیے وہ شادی کے موقعے پر لڑکی کو ’دان‘ دے دیتے ہیں۔ یہی دان کا تصور(وراثت سے محرومی کا بدل) مسلمانوں میں جہیزکے نام سے اختیار کر لیا گیا ہے۔
اس اعتبار سے یہ خالص ہندوانہ رسم ہے۔
اگر جہیزمیں مذکو رہ تصورات کار فرما ہوں تو جہیز کی یہ رسم سراسر ناجائز ہے، اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اس لیے اس کے خلاف بھی جہاد ضروری ہے، کیونکہ جہیز دینے والے بالعموم ایسے ہی تصوارت کے تحت جہیز دیتے ہیں اور اس رسم کو بھی پورا کرنا نا گزیر سمجھتے ہیں۔
اس لین دین کا شریعت مطہرہ سے کوئی تعلق نہیں ہے ہاں اگر بیٹی کی محبت میں اس کی ضرورت کا سامان کوئی دینا چاہے تو شوق سے دے؛ مگر لوگوں سے چھپا کر اور اس کی شکل کچھ اس طرح بنائے کہ جہیز نہ لگے یا کچھ آگے پیچھے بوقت ضرورت بھیج دے۔
اس سے کسی غریب کی آہ بھی نہیں لگے گی اور طعنے کے بہانے سے بھی بچ جائیں گے۔
مگر میراث میں بہن اور بیٹی کا حصہ قرآنی احکام کے مطابق ضرور دینے کا رواج بنائیں۔

Comments are closed.