عالمی یومِ نسواں

جویریہ امانت (سیالکوٹ)
ریزیڈینٹ ایڈیٹربصیرت آن لائن پاکستان
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 8 مارچ کی مناسبت سے مختلف تقریبات و مظاہروں کا انعقاد کیا جاتا ہے اور دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ’یوم خواتین‘ منانے کا آغاز ایک صدی سے زائد عرصے سے قبل 1909 میں امریکا سے اس وقت شروع ہوا تھا جب خواتین نے پہلی بار فیکٹریوں میں ملازمت کے لیے اپنی تنخواہیں بڑھانے اور وقت کی میعاد مقرر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس سے قبل خواتین کو ملازمتوں کے دوران کم اجرت دیے جانے سمیت ان سے زیادہ دیر تک کام کروایا جاتا تھا۔ خواتین اس تفریق کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں اور جلد ہی انہوں نے اپنے مطالبات تسلیم کروالیے تاہم خواتین کی جانب سے حقوق کے لیے جدوجہد ختم ہونے کے بجائے بڑھتی چلی گئی اور آنے والے سال میں خواتین نے اپنے ساتھ ہونے والی دیگر ناانصافیوں پر بھی آواز اٹھانا شروع کی۔
جلد ہی امریکا سے لے کر یورپ اور پھر ایشیا اور افریقہ جیسے خطے میں خواتین کے مظاہرے ہونے لگے اور خواتین کی تنظیمیں اور دیگر ایکشن فورم تشکیل پانے لگے اور ان ہی پلیٹ فارمز کو استعمال کرتے ہوئے خواتین نے دنیا کو اپنی اہمیت و حیثیت سے آگاہ کیا۔
کئی سال کی محنت اور مظاہروں کے بعد 1977 میں اقوام متحدہ نے 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا اور تب سے ہر سال اسی دن پر دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں خواتین مختلف تقریبات، سیمینارز اور مظاہروں کا انعقاد کرتی ہیں۔پاکستان میں یہ سلسلہ 2018 میں شروع ہوا اور اس سال یہ ملک میں ہونے والا چوتھا عورت مارچ ہوگا۔
گذشتہ برس عورت مارچ کے شرکا کی جانب سے بنائے گئے چند بینر، پوسٹر اور نعرے تنازعے کا باعث بنے اور ان کو بنانے والی خواتین کو سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
2020 کا عورت مارچ زیادہ منظم طریقے سے مرتب کیا گیا اور لاہور ہائی کورٹ نے اس کی باقاعدہ اجازت دیتے ہوئے کہا کہ آزادی اظہار پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ مختلف شہروں کی انتظامیہ نے عورت مارچ کی اجازت دیتے ہوئے یہ شرط رکھی ہے کہ کسی ایسے پوسٹر یا بینر کی اجازت نہیں ہوگی جو پاکستان کی معاشرتی اقدار کے خلاف ہو۔مارچ کے شرکا میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کے علاوہ بڑی عمر کے افراد، خواجہ سرا اور دیگر گروہوں کے نمائندے بھی شامل تھے۔ عورت مارچ کے مخالفین نے اس مارچ کے خلاف ’یومِ حیا‘ منانے کا اعلان بھی کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف شہروں میں عورت مارچ کے خلاف مذہبی تنظیموں اور دیگر گروہوں کی جانب سے ریلیاں بھی نکالی گئیں۔
جماعتِ اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور منہاج القران سمیت دیگر مذہبی تنظیموں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اسلام آباد میں پریس کلب کے باہر کشیدگی اس وقت بڑھی جب حیا مارچ کے شرکا نے عورت مارچ پر پتھراؤ کیا اور جوتے اور ڈنڈے برسائے تاہم پولیس صورتحال پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئی۔پاکستان کےبڑے شہروں میں ہونے والے عورت مارچ سے متعلق کچھ لوگ یہ تنقید کرتے ہیں کہ مارچ میں شریک خواتین پاکستان کی عام عورتوں کی ترجمانی نہیں کرتی ہیں۔
اس معاشرے میں سب سے زیادہ استحصال عورت ہی کا ہوتاہے اور اس پر کھل کر بات ہونی بنتی ہے لیکن کچھ سو کالڈ لبرل خواتین نے مسائل سے زیادہ جنسی معاملات کو پوسٹرز کی زینت بنایا ہوتا ہے جبکہ عورت کے اصل مسائل کہیں دب کر رہ گئے۔ وہ عورت جو پورا دن لوگوں کے برتن مانجھ کر شام کو گھر آ کر اپنے نشئی شوہر سے مار کھاتی ہے اس کے زخم ویسے ہی نیلے رہ گئے۔ وہ لڑکی جو اپنے بیمار باپ کی دوا کی خاطر کسی بدبودار فیکٹری میں روز لوگوں کی حریص نظروں سے بدن چھلنی کروا کر رات کو گھر آ کر پھر چولہے کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے اُس بیچاری کے سب ارمان اب بھی اسی آگ میں جل رہے ہیں۔ جو عورت جنسی استحصال کا شکار ہوتی ہے اور اسکو یا عزت کے نام پہ چپ کروا دیا جاتا ہے یا انصاف بک جاتا ہے۔ جو عورت جہیز نہ بننے کی وجہ سے گھر بیٹھی رہ جاتی ہے جس کے باپ بھائی دکھ میں ہوتے ہیں کہ بہن بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے کی سکت نہیں، اس عورت کے حق کے لیے تو کوئی بات نہیں کرتا۔ آزادی کا اصل مطلب ان کو نہیں پتہ جو کہ اپنی مرضی کا انتخاب ہے۔ پورا دِن اے سی کی ٹھنڈی ہوا میں بیٹھنے والی خواتین کو کون سمجھائے کہ اسلام طاقتور، آزاد اور مضبوط عورتوں کی کیا داستانیں رکھتا ہے۔ ہمارے لئے تو سب سے پہلی مثال حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی ہے جو عرب کی سب سے بڑی کاروباری خاتون تھیں۔ آزاد خیالی کی مثال یہ کہ خود حضرت محمد کے لئے شادی کی پیشکش بھیجی۔ عورت کے مقام کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگا لیں کہ جب پہلی وحی نازل ہوئی تو خوف کے عالم میں کسی مرد کی بجائے اُسی مضبوط خاتون کے پہلو میں پناہ لی اور اُسی کو سب حال سنایا۔
بعثت سے پہلے جب ابوالعاص خود رسول کے پاس آکر کہتا ہے کہ میں آپ کی بڑی بیٹی زینب کا ہاتھ مانگنے آیا ہوں تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم اس کو کہتے ہیں کہ مجھے اجازت لے لینے دو زینب سے اور جب گھر آ کر بیٹی سے پوچھتے ہیں کہ تیرے خالہ زاد نے تیرا نام لیا ہے تجھے منظور ہے؟ تو زینب کا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے اور وہ مسکرا دیتی ہے۔ زینب کی مرضی پتہ لگنے کے بعد ابوالعاص کو ہاں کرتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا رشتہ آتا ہے تو فاطمہ سے پوچھ کے ہاں کرتے ہیں۔ آزادی نسواں کا اصل مطلب جاننا ہو تو اسلام کو حقیقی معنوں میں پڑھئے شاید بہتر لبرل بن پائیں اور سمجھ پائیں کہ عورت کو درپیش سب مسائل معاشرتی ہیں اور اسلامی تعلیمات ان کو ختم کرنے کی راہیں دکھاتی ہیں۔
Comments are closed.