اللہ ۔۔۔اب انسانوں کی شکل نہ دکھائے!!!

ڈاکٹر عابد الرحمن ( چاندور بسوہ)
عائشہ نے خود کشی کر لی۔خود کشی سے قبل اپنے ویڈیو پیغام میں اس نے جو کچھ کہا اس میں ایک بات یہ تھی کہ’ اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ اب دوبارہ انسانوں کی شکل نہ دکھائے ‘ یعنی وہ انسانوں سے اس قدر پریشان اور متنفر ہو چکی تھی کہ جنت کی گارنٹی کی پروا کئے بغیر ندی میں کود کر موت کے آغوش میں چلی گئی، اسی بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کن کربناک حالات سے گزر رہی ہوگی ۔ یہ جہیز کی بھینٹ چڑھتی ہماری بیٹیوں کی داستان غم کی صرف ایک کڑی ہے ۔ اور وہ بھی اس لئے سامنے آگئی کہ اس نے اپنے انتہائی اقدام سے پہلے ویڈیو پیغام کے ذریعہ ہم مصلحت پسندوں کے منھ پر تھوک دیا کہ ہم جو اس طرح کے معاملات کو چھپانا ہی مسئلے کا حل سمجھتے ہیں اور اس طرح کے مزید مسائل کے لئے راہ ہموار کرتے رہتے ہیں اس کے معاملے کو کسی طرح چھائے نہ چھپا سکیں ۔اس نے ہم کو آئینہ دکھاد یا کہ ہم دینداری کی ’ اسلام میں عورت کا مقام ‘ کی دیگر ادیان کے مقابلے اسلام میں عورتوں کو دئے گئے حقوق عزت اور وقار کی اسلام میں عورتوں کو دی گئی آزادی اور برابری کے درجے کی جو باتیں کرتے ہیں وہ صرف باتیں ہیں ہم عمل سے کوسوں سے دور ہیں ۔ یہ ہمارے لئے نہ صرف سوچنے اور لائحہء عمل طے کرنے کا بلکہ سیدھے طور سے میدان عمل میں کود کر جہیز اور بے جا رسومات کی اس لعنت کے خلاف جنگ کر نے کا وقت ہے ۔ عائشہ مرحومہ نے خود کو موت کے حوالے کیا ہمارے معاشرے میں ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں کہ جہاں سسرالی رشتہ داروں نے خود اپنی بہوؤں ہماری بیٹیوں کو قتل کیا زندہ جلادیا موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ایسے وہی معاملات سامنے آتے ہیں جو رپورٹ ہوتے ہیں زیادہ تر معاملات اس لئے سامنے نہیں آتے کہ ہم اپنی بزدل شرافت کا پردہ ڈال کر انہیں ڈھک دیتے چھپادیتے ہیں ، خود کشیوں کے معاملات کا الزام خود اپنی بیٹیوں پر لگا دیتے ہیں کہ وہ نفسیاتی طور پر ڈسٹرب ہوگئی تھی وغیرہ ، خوب جانتے بھوجتے بھی ان بیٹیوں کو نفسیاتی امراض میں مبتلا کرنے والوں کا محاسبہ نہیں کرتے گویا اس طرح کا ظلم کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، انہیں مزید پنپنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔ اب ضروری ہوگیا ہے کہ ہم یہ بزدلانہ مصلحت پسندی ترک کر کے پہلے تو معاملات یہاں تک نہ پہنچے اس کی بھر پور کوشش کریں ۔ اگر پوری کوشش کے باوجود معاملات یہاں تک پہنچ ہی جائیں تو ضروری ہے کہ ہر ہر معاملہ رپورٹ کیا جائے اور اس پر قانونی چارہ جوئی کی جائے خاطیوں کو قرار واقعی بلکہ عبرت ناک سزائیں دلوانے کی حتی الامکان کوشش کی جائے، اس طرح کے معاملات کو سمجھوتے کے ذریعہ دبانے کی کوشش ہر گز ہر گز نہ کی جائے ۔ہمارے معاشرے میں ایک اور بڑی غلط بات یہ ہے کہ بچپن سے ہی بیٹیوںکے اذہان میں یہ بٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ایک بار جہاں ان کی شادی ہوجائے انہوں نے کسی بھی طرح وہاں نباہ کرنا ہے اور بس ۔ بلکہ بہت سے بزرگ تو یہ تک کہتے سنے گئے ہیں کہ جس گھر میں بیٹی کی ڈولی جائے وہاں سے اس کا جنازہ ہی نکلنا چاہئے اور شایداسی بات کو ذہن میں رکھ کر ہماری لا تعداد بیٹیاں نباہ نہ ہونے کی صورت میں بھی جہنم کی سی زندگی گزار دیتیں یا اپنا درد سینے میں چھپائے قبرستان پہنچ جاتی ہیںتاکہ ان کی سسرال اور گھر والوں پر کوئی آنچ نہ آئے ۔ کچھ تو اسی ذہنیت کی وجہ سے سسرالی رشتہ داروں کے ظلم و تشدد کی کوئی بات اپنے والدین کو بھی نہیں بتاتیں بلکہ ہمیشہ ان کے سامنے چہرے پر مسکراہٹ سجا کر اپنی درد بھری زندگی کے پر سکون ہونے کا فریب دیتی ہیں اور والدین بھی ان کی جعلی مسکراہٹ کے پیچھے کا درد محسوس نہیںکرپاتے یا اگر سمجھتے بھی ہیں تو سماج کے طعنوں کے ڈر سے ، بیٹی کی واپسی کے ڈر سے ، جھگڑے اور تنازعہ کے ڈر سے ان دیکھا کر دیتے اور بیٹی ہی کو سمجھا بجھا کر جیسے تیسے نباہ کر نے کی تلقین کر اسی جہنم میں چھوڑ کے چلتے بنتے ہیں ۔ایسی بیٹیوں کے ساتھ ایک ٹریجڈی یہ بھی ہوتی ہے کہ گھر میں ان کی ہمہ وقت تضحیک و تذلیل دیکھ دیکھ کر بڑے ہونے والے ان کے بیٹے بھی انہیں وہ مقام نہیں دے پاتے جو ان کا حق ہے،بلکہ اپنی بیویوں کے ساتھ بھی ان کا رویہ وہی ہوتا ہے جو ان کی ماں کے ساتھ ان کے باپ دادا دادی اور دوسرے رشتے داروں کا تھا اسی طرح ان کی بیٹیا ں بھی اسی زندگی کو ایک بیٹی کی زندگی تصور کر کے اسی طرح جینے کے لئے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کرنا شروع کردیتی ہیں اور اس طرح جہنم در جہنم کا ایک سلسلہء دراز چلتا رہتا ہے ۔ ویسے بھی ہمارے معاشرے میں بہو کی وقعت تھوڑی کم ہی ہے حالانکہ اس طرح کے اکثر معاملات جہیز کی بنیاد پر ہی ہوتے ہیں لیکن جہیز اگر سبب نہ بھی ہو تو بھی مختلف حیلوں بہانوں سے بہوؤں کو ہراساں کرنا ناجائز نہیں سمجھا جاتا ۔ ان سب معاملات میں جو بیٹیاں ناقابل برداشت حالات تک پہنچ جاتی ہیں وہ بھی اگر اپنے والدین کو اپنی پریشانی بتاتی ہیں تو اس میں بھی والدین پہلے تو اسے ہی سمجھوتا کر لینے کا مشورہ دیتے ہیں سسرال والوں کو سمجھانے بجھانے کے نام پر انہیں اور ڈھیٹ ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں ، مسئلہ کے پائیدار حل کی کوشش خال خال ہی ہوتی ہے ۔ حکومت نے جہیز کے معاملات میں بیٹیوں کی ہراسانی کے خلاف سخت قوانین بنا رکھے ہیں لیکن اس ضمن میں بھی ہمارا معاملہکچھ عجیب ہے وہ یہ ہے کہ ہم اکثر جائز جگہوں پر بھی ان قوانین کا استعمال نہیں کرتے اور اکثر ناجائز طور پر بھی انہیں استعمال کر لیتے ہیں ، جس کی وجہ سے یہ بھی ہمارے سماج کا رویہ ہوگیا ہے کہ اس طرح کے قوانین کا استعمال کر نے والوں کو بدنام کیا جا تا ہے۔ کہیں کہیں قانونی چارہ جوئی مسائل حل کردیتی ہے تو کہیں کہیں مزید کشیدگی پیدا کردیتی ہے ۔ جس کی وجہ سے اکثر بیٹیاں اس طرح سمجھوتا کرتی ہیں جس طرح عائشہ مرحومہ نے کیا۔عائشہ مرحومہ نے ہمارے سماج کی بہت صحیح تصویر کشی کرتے ہوئے اللہ سے دعا مانگی ہے کہ اب دوبارہ انسانوں کی شکل نہ دکھائے ۔ واقعی ہمارا معاشرہ ایک ایسا معاشرہ ہو گیا ہے جہاں انسانوں کے بھیس میں ہرس و ہوس کے درندے اور لالچ کے کتے بستے ہیں ہمارا معاشرہ ایسا معاشرہ بن گیا ہے کہ یہاں انسان ہونا بھی بجائے خود غیر انسانی ہو کر رہ گیا ہے۔ عائشہ کے دلسوز واقعہ نے ساری دنیا کے سامنے ہماری سچائی کھول کر رکھ دی ہے اگر ہم اب بھی نہ جاگے تو شاید بہت بڑے خسارے میں رہیں گے ۔

Comments are closed.