ایک اپیل اسمارٹ معاشرے کے نام
ڈپریشن

سحرش اقبال (لاہور)
‘ڈپریشنشن کے بارے میں آگاہی پھیلائیں’
‘ڈپریشن کا علاج کروائیں’
‘ڈپریشن ہے تو خاموش مت رہیں، بولیں’
یہ چند جملے کچھ ماہ سے ڈپریشن کی وجہ سے ہونے والی اموات کے بعد سے سن رہی ہوں۔
ایشیائی قوم نے ذہنی صحت کے بارے میں خاصا شور شرابا مچایا، سوشل میڈیا پر تشہیر کی، سائیکالوجسٹ حرکت میں آئے اور ڈپریشن کے علاج کے لیے ہر گلی میں ایک "سائیں” بیٹھ گیا۔
اب ایک طرف جہاں یہ ڈپریشن پر سرگرم ہونے والے بہروپیے آواز اٹھا رہے تھے ان لوگوں کی، جو اس مرض کا شکار ہیں وہیں دوسری طرف یہی لوگ ایسے ایسے بھیانک جملے بول کر مجھے حیرت کدے میں دھکیلتے نظر آئے۔
آئیں ذرا ملاحظہ کرتے ہیں کہ پس پردہ اسی عوام کے ڈپریشن زدہ لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے۔۔۔
"ہاہاہا۔۔۔.! تمہیں ڈپریشن، ڈپریشن کا مذاق نہ اڑاؤ”
"اوئے گرل فرینڈ/ بوائے فرینڈ چھوڑ گئی/گیا کیا؟ جو یہ حال بنایا ہوا ہے”
"ارے بھئی! فضول کے ڈرامے نہیں کرو…! ”
"یار یہ ایویں توجہ مبذول کرانا چاہتا سب کی اپنی طرف، اسی لیے بے تکی ہانکتا رہتا ہے”
"تمہیں ہر چیز تو دی ہے اللہ نے۔۔. ہر آسائش ہے تمہارے پاس پھر تمہیں کیوں ڈپریشن ہے۔۔۔۔ وہ لوگ بھی تو ہوتے ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں! ”
تو یہ تھا اس منافق معاشرے کا دوسرا چہرہ۔ اسکے علاوہ بھی کئی روپ ہیں اگر میں بتانے لگی، معاشرے کی سفاکیاں تو ختم نہیں ہوں گی البتہ عمر تمام ہو جائے گی۔
- میری اس پرسکون، سمارٹ اور ہر فن مولا معاشرے سے گزارش ہے کہ براہ کرم ڈپریشن کو مذہب، مسلک، مالی آسودگی، محبت میں ناکامی جیسی چیزوں سے مت جوڑیں۔ خدارا ان کی زندگی کو دنیا میں ہی مزید جہنم مت بنائیں۔ ہر ایک کو اپنی الگ پریشانی ہے انہیں گھٹیا الزامات سے دور رکھیں۔
اگر ان کے آنکھوں میں خواب نہیں بھر سکتے تو انہیں مزید ادھیڑنے سے بھی باز رہیں۔
اگر انہیں سکون نہیں دے سکتے تو بے سکونی کے کانٹوں پر بھی لوٹنے پہ مجبور نہ کریں۔
ان کی دلجوئی نہیں کر سکتے تو طنز کے نشتروں سے انکا سینہ مزید چھلنی نہ کریں۔
اگر کوئی اپنا درد اور غصہ اپنی تخلیق کے ذریعے نکال رہا ہے تو اسے تنقید کا نشانہ نہ بنائیں۔ - اگر ان کے حق میں اچھا نہیں کر سکتے تو انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں۔
ہم اس شخص کو تو آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ اعصاب پر تکلیف دہ چیزوں کو سوار مت کرو مگر خود اسے تکلیف پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔
خود کشی کا حرام ہونا حقیقت ہے لیکن اسے اس مقام تک لانے والوں کا پارسا ٹھہرنا اور تھرڈ کلاس معاشرے کو بے قصور ٹھہرایا جانا اس سے بڑی سفاکیت ہے۔
Comments are closed.