عائشہ کی خودکشی اور مسلم معاشرے کی بے حسی؟

مرزا عادل بیگ ، پوسد (موبائیل نمبر : 9823870717)
احمد آباد کے رہنے والی عائشہ کی خود کشی اور خود کشی کے قبل بنایا گیا ویڈیو یقیناً ملت کے لیے بعثِ تشویش ہیں ۔ اسلام نے کسی بھی قیمت پر ، کسی بھی حال میں ، کسی بھی قید و پابند میں ، کسی بھی صورت میں خود کشی حرام قرار دیا ہے ۔ آج بحث اس بات ہو رہی ہے کہ خودکشی کیوں کی ، خود کشی کو جائز اور نا جائز کے ترازوں میں تولا جا رہا ہے ۔ واٹس اپ اور فیس بک پر ہزاروں افراد اپنی اپنی رائے دے رہے ہیں ، کچھ تنظیمی نوجوان عہد اور عزم کی بات کر رہے ہے کہ ہم جہیز کی مخالفت کرینگے ۔ ہم اپنی شادی (نکاح ) میں جہیز وغیرہ نہیں لے گے ۔ٹھیک ہے اچھی بات ہے ، اللہ رب العزت آپ کو استقامت عطا کریں ۔
لیکن عائشہ کی زندگی، شادی کے بعد کی زندگی ،راجستھان سے اپنے گھر احمد آباد آجانا ، میاں اور بیوی کے درمیان کی دوری ، دونوں کے سرپرست حضرات ، تعلقات کو درست کرنے والے صاحب مصلحت افراد، رائے و مشورہ دینے والے رشتہ دار ، دوست و احباب ، پڑوسی ، قریبی اشخاص وغیرہ ، اس خود کشی کے اہم ذمہ دار ہیں ۔ اگر یہ تمام افراد اپنے ذمہ داری بخوبی انجام دیتے ،معاملےکو سلجھاتے تو اس طرح کا دل سوز واقعہ انجام نہ ہوتا ۔ عائشہ کے ویڈیو کو دیکھ کر اس کے درد ، پریشانی ، اضطراب ، ندی میں سما جانے کا جنون، انسانوں کی صورت نہ دیکھنے کا عہد ، یک طرفہ محبت ، تقدیر پر سوالیہ نشان ، اور جنت ملے گی یا نہیں جیسے جملے ، ہر با شعور انسان کو رُلا دیتے ہے ۔ ہر احساس رکھنے والے انسان کو تڑپا دیتے ہے ۔ عائشہ نے آخری وقت بھی اپنے شوہر کی فرما برداری کی ، آخری ویڈیو بنا کر اس میں کسی زور، دباؤں اور کیس کو واپس لیے کی بات کی ، حال ہی میں پولس نے عائشہ کے ملزم شوہر گرفتا ر کر لیا ہے ، اب یہ سلسلہ کورٹ میں چلے گا ۔ جہاں عائشہ کو انصاف ملے گایا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا؟
اب آپ ذرا اس واقعہ کو چھوڑ کر ملت کا مسلم معاشرے کا جائزہ لے تو آپ کو زمینی حقیقت کا پتہ چل جائے گا۔ ہمارا معاشرہ مسلم سوسائٹی دو خانوں میں بٹی ہوئی ہیں ایک غریب طبقہ اور امیر طبقہ ۔ امیر طبقہ امیر خاندان اپنی بچوں کی ، بچیوں کی شادی اپنی حیثیت ، برابری ، اسٹیٹس کے اعتبار سے کرنے کو ترجیح دیتے ہے وہی لڑکا ، لڑکی ،اس کا خاندان اپنے خاندان کے برابر ہونے کو ترجیح دیتے ہے ۔ بہت کم جگہ لڑکا، لڑکی کے خاندانوں کی دین داری کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ وہی ہزاروں لاکھوں روپئوں کا ہنڈا (بھیک) ، جہیز ، عمدہ و لزیز خانوں کی محفلیں ، پیش و قیمتی رسم منگی کے کارڈ ، شادی کے کارڈ ، ولیمہ کے کارڈ وغیرہ بنائے جاتے ہے ۔ لاکھوں روپئوں کا منڈپ وغیرہ سجایا جاتا ہے ۔ یا پھر لاکھوں روپئوں کے فنکشن ہال بک کیئے جاتے ہے ۔ اب امیر خاندان اپنی بیٹیوں کی نکاح کی مجلسیں مسجد میں آسانی سے ادا کرتے ہے تاکہ معاشرے کو اپنی حرام کمائی پر دین داری کا لیبل آسانی سے دکھا سکے ، نکاح سے پہلے تمام جہیز دان ، ہنڈا روپئہ پیسا برابر بھیج دیا جاتا ہے ۔معاشرے میں آپکو اس طرح کی مثال بھی ملے گی امیر آدمی نے کسی غریب ، شریف تعلیم یافتہ نوجوان کو اپنی لخت ِ جگر سے نکاح کرکے دیا اور بعد میں اپنے کارو بار میں ، اپنی سوسائٹی میں ، کالج میں نوکری دیکر ، اسے اپنا غلا م بنا لیا یا دوسرے جملوں میں اپنی بچی کے لیے شوہر خرید کر دیا ہو جیسے ۔
ملت میں امیر خاندان ، دولت مند افراد، اس ملت کے خسارے کے سب سے زیادہ قصوروار اور ذمہ دار ہے ۔ آج کل لڑکی والوں کو صرف اور صرف نوکری والا داماد چاہیے ۔ سرکاری نوکری والا داماد پانے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لیے لوگ تیار بیٹھے ہے ۔ آج سرکاری نوکری والا داماد پا لینا بعث ِ فخر سمجھا جاتا ہے ۔ غریب خاندان ، غریب افراد ان کی زندگی ، ان کی دوڑدھوپ 2 وقت کی روٹی کمانے پر لگی ہوتی ہے ۔ یہ لوگ معاشرے کا الگ تھلگ حصہ ہے جس کی زندگی اور موت سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ یہ لوگ اپنی بیٹی کی پیدائیش سے بیٹی کی شادی تک فکر مند رہتے ہے ۔ بیٹی کی پیدائش سے کچھ نا کچھ جمع کرکے رکھتے ہے ۔ اپنی خواہشات کو مار کر ، اپنی آرزؤکی قربانی دیکر ، اپنے جزبات کو قابوں میں رکھ کر ، اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کرکے رشتہ (رشتوں ) کی تلاش میں بیٹھے رہتے ہے ، غریب بچیوں کی شادی کی فکر سے ماں باپ کو پریشان ، اضطراب ، تڑپتے ہوئے دیکھا ہے ۔ آج مسلم محلوں میں ہزاروں بچیاں (عائشہ )رشتہ کے انتظار میں بوڑھی ہوتی جارہی ہے ۔ اس ملت کا مضبوط نوجوان ، طاقت ور نوجوان ، با شعور نوجوان ، ان بچیوں کا ہاتھ تھامنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ وہی رشتہ لگانے والے پیامات سینٹر یہ بھی اب منافہ بخش تجارت بن گئی ہے ۔ ہم نے ہر جگہ پیام سینٹر پر ہزاروں روپئوں کی فیس لیتے اور دیتے دیکھا ہے ۔ مسئلہ انکی فیس نہیں ہے مسئلہ ان غریب بچیوں کی شادی کا ہے ۔ غریب دیندار افراد کی بچیوں سے نکاح کون کرے گا؟ کیا یہ بیٹیاں یوں ہی گھروں میں بیٹھی رہے گی ۔ کیا ان کے قسمت میں شوہر کا ارمان نہیں ہے ؟ کیا ان کے سر پرست حضرات ، ان بچیوں کے رشتہ ازدواج کے لئے کب تک در در کی ٹھوکریں کھائیں گے ؟
ایک سروے کے مطابق مہاراشٹر میں مسلم لڑکیاں 33 فیصد نکاح کے انتظار میں بوڑھی ہوتی جارہی ہے ۔ وہی حیدرآباد جیسے دینی ، ثقافتی اور علم و ادب میں مقام رکھنے والے شہر میں40 فیصدتک لڑکے اور لڑکیاں بیٹھی ہوئی ہے جن کے سر پرست حضرات کو اپنی بچیوں کے بچوں کے نکاح کا شدید انتظار ہے ۔ وہی طلاق شدہ اور بیوہ خواتین صاحبہ پریشان حال انتظار کر رہی ہےکہ کوئی خدا کا نیک بندہ ان سے نکاح کرکے ان کی کفالت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے ۔ آج مسلم معاشرہ ان گنت مسائل سے دوچار ہے ، نکاح صحیح عمر میں ہونا ، جہیز دان ،ہنڈا ، شادی کے بعد بچی پر ظلم و ستم ، گھریلوں استحصال و تشدد ، ناجائز تعلقات ، نشہ خوری، اسلام سے دوری ، خاندانی افرا طفری ، جھگڑا ، نفرت و عداوت ، دیرسے شادی کرنا ، بیٹی صرف سرکاری نوکری والے کو ہی دینے کی ضد کرنا ، وغیرہ اس معاشرے کو گندااورکھوکھلا کر رہے ہے ۔ ہمیں ان مسائل کا حل ڈھونڈنا ہوگا ورنہ یہ مسائل ساری ملت کو جکڑلے گے ۔ اور نست و نابود کر دے گے ۔ فحاشی ، بے حیائی ، اور بد کاری اس ملت کا مقدر بن جائے گا ۔
Comments are closed.