کسان تحریک کی سنچری : جب پڑا وقت گلستاں پہ لہو ہم نے دیا

 

ڈاکٹر سلیم خان

وزیر اعظم کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ کبھی مدافعانہ اسلوب اختیار نہیں کرتے۔ اپنے اوپر لگنے والے الزام کو تسلیم کرکےاس کی مدد سے مخالف پر چڑھائی کردیتے ہیں  ۔ جنوری 2014میں جب  سماجوادی پارٹی کے سکریٹری نریش اگروال نے کہا کہ ایک چائے والا کبھی بھی قومی نظریہ کا حامل نہیں ہوسکتا اور  منی شنکر ائیر نے یہاں تک دعویٰ کر دیا تھا  کہ اکیسویں صدی میں ایک چائے بیچنے والا اس دیش کا وزیر اعظم نہیں ہوسکتا تو  مودی جی نے قومی سطح پر چائے پہ چرچا شروع کردی ۔   اسی طرح  جب راہل گاندھی نے رافیل کے معاملے میں یہ نعرہ بلند کیا کہ ’چوکیدار چور ہے‘  تومودی سمیت ساری بی جے پی نے ٹوئٹر ہینڈل پر اپنا  ڈی پی بدل کر ’میں بھی چوکیدار ‘لکھ دیا ۔  اس قسم کی  ڈھٹائی سے ان کا دو مرتبہ فائدہ ہوا اس لیے اب وہ پھر سے اسی حکمت عملی پر گامزن ہیں ۔    کسانوں  کی تحریک کے بعد سرکار اور سرمایہ دار کا گٹھ جوڑ ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اس الزام کو مستر د کرنے یا اپنی صفائی پیش کرنے کے بجائے  وزیر اعظم نے کارپوریٹ کی کھلے عام وکالت شروع کردی ہے اور  کھل کر ان کی  حمایت میں   اترپڑے ہیں ۔   

وزیر اعظم نریندر مودی نے اس مہم کی ابتداء ایوان پارلیمان کے اندر 11 فروری کو  بجٹ سیشن میں خطبہ صدارت کا جواب دیتے ہوئے کی ۔ اپنی تقریر میں انہوں نے ایک طرف تو کسان رہنماوں کا تمسخر اڑانے بعد انہیں طفیلی (parasite) نامی گالی دی لیکن اس کے ساتھ معیشت  میں نجی اداروں کی تعریف و توصیف میں  کہا کہ نجی شعبے کو محض ووٹوں کے لیے ’’گالی دینے‘‘ کا کلچر اب قابل قبول نہیں ہے۔ یعنی  نوٹ کے لیے وہ جس کو چاہیں مغلظات سے نوازیں  لیکن ووٹ کی خاطر کوئی کسی کو برا بھلا نہ کہے ۔ انہوں نے اپنےچہیتے  کارپوریٹ کی تعریف کرکے اس پر ہونے والی تنقید کا جواب دے دیا ۔  وزیر اعظم کو سوچنا چاہیے کہ جیسے امبانی اور اڈانی کی مذمت ان کو ناگوار  ہے اسی طرح کسان رہنماوں کی توہین بھی   کاشتکاروں کو گراں گزرتی ہے ۔

  لوک سبھا کی اپنی  تقریر میں  مودی  جی نے کہا کہ ’’اگر پبلک سیکٹر اہم ہے تو پرائیوٹ سیکٹر کا کردار بھی اہم ہے۔‘‘ یہ بات درست ہے مگر ان دونوں سے زیادہ اہمیت کے حامل ملک کے کسان ہیں ۔ اس لیے کہ  ملک کے دونوں شعبے   اناج کے لیے  ان پر انحصار کرتے ہیں ۔ مودی سرکار نے اپنی رعونت سے  پنجاب، ہریانہ اور مغربی اترپردیش میں اپنے  داخلہ پر پابندی لگوا لی  ہے مگر یہ ہٹ دھرمی  جاری رہی تو ملک بھر میں یہی درگت بنے گی۔   وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ دولت پیدا کرنے والے افراد ملک کی ضرورت ہیں کیوں کہ صرف اسی صورت میں غریبوں کی مدد کے لیے دولت کو دوبارہ تقسیم کیا جاسکتا ہے۔  مودی جی نہیں جانتے یہ سرمایہ دار ان کی  پارٹی کی ضرورت تو  ہوں گے کیونکہ وہ انہیں چندے سے سارا کھیل چل رہا ہے لیکن وہ  ملک کے غریبوں کا خون چوستے ہیں ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ  کورونا کی وباء کے دوران  ملک کی جی ڈی پی ان سرمایہ داروں نے نہیں بلکہ کسانوں نے سنبھالی ہے  ۔ صنعت کے بجائے  زراعت کے شعبے  نے مشکل حالات میں دیش کو آتم نربھر (خودکفیل) بنایا   ہے۔ اس لیے اقتدار کو سرمایہ دار کے بجائے کاشتکار کا احسانمند ہونا چاہیے ۔ قومی شماریاتی دفتر (این ایس او)  نے پچھلے سال  اعدادو شمار کی روشنی میں یہ تسلیم کیا کہ  کورونا  لاک ڈاون کے دوران  اقتصادی سرگرمیوں کے ٹھپ ہوجانے سے  قومی  معیشت کو زبردست دھچکا  لگاتھا ۔ اس وقت  دنیا کے دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر  معیشتوں کے مقابلے میں بھارت کی کارکردگی بہت زیادہ خراب تھی۔گزشتہ  مالی سال (۲۰۲۰)  کی پہلی سہ ماہی یعنی اپریل تا جون کے دوران اقتصادی ترقی کی شرح منفی 23.9 فیصد ہوگئی تھی ۔ اس دوران  تعمیرات، صنعت  اور تجارت، ہوٹل اور ٹرانسپورٹ  کے شعبے  سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے   کیونکہ  ان میں بالترتیب منفی 50.3 فیصد، 39.3 فیصد اور 40.7 فیصد کی ریکارڈ گراوٹ آئی تھی ۔ ان مشکل ترین حالات میں صرف  زرعی شعبے میں نمو ہوئی تھی ۔ زرعی پیداوار اکتوبر تا دسمبر کی  چوتھی سہ ماہی میں 6.6 فیصد سے 5..9 فیصد تک بڑھ گئی تھی ۔ انگریزی میں ایک محاورہ ہے ’سچا دوست وہ ہوتا ہے جو ضرورت کے وقت کام آئے‘(Friend indeed is friend in need)۔

وزیر اعظم   زراعت کے مقابلے جس صنعت و حرفت کے شعبے کی وکالت  رہے ہیں اس کی  یہ کارکردگی یہ تھی کہ ان لوگوں نے  تقریباً 12 کروڈ سے بھی زیادہ  افراد کو  اپنی  ملازمت سے محروم کردیا تھا ۔ ان کے  تقریباً 60 فیصدنامور ہوٹل بند ہوگئے  تھےاور دیگر  40 ٪ کی آمدنی   10٪ سے بھی  کم ہوگئی   تھی ۔ سرکاری یقین دہانی کے باوجود لاکھوں مزدور پیدل اپنے آبائی وطن جانے کے لیے مجبور کردئیے  گئے تھے۔ کاروبار اور صنعتوں کی بحالی کے بعد محنت کشوں کی قلت منہ کھول کر کھڑی ہوگئی کیونکہ ان کو سرکار کے ساتھ ساتھ سرمایہ دار نے بھی دھوکہ دیا تھا۔ اس زمانے میں  کرسیل نامی بین الاقوامی ادارے نے ایک رپورٹ  شائع کرکے بتایا کہ ، ہندوستان میں ہوابازی کے شعبے کو جون تک تین ماہ میں 6 3.6 بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا ہے۔ ۹ ماہ کے بعد اس سال  جنوری تا مارچ سہ ماہی میں معاشی نمو 0.5 فیصد تک پہونچنے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا ۔ اقتصادی تجزیہ نگا ر انشومن تیواری نے اس وقت کہا تھا  کہ ‘حکومت ابھی تک ایک من گھڑت اور امید افزا ماحول کی تصویر پیش کررہی تھی لیکن معیشت کی حقیقی تصویر اب سامنے آگئی ہے اور حکومت کی طرف سے کھڑی کی گئی نقلی عمارت ٹوٹ رہی ہے۔” کورونا کا اثر ات  زائل ہوتے ہی  سرکارپھر ایک بار اسی ہوا محل  کی تعمیر میں مصروف عمل ہوگئی ہے۔ 

امسال بجٹ سے قبل ایوان پارلیمان میں  حکومت ہند نے اپنا اقتصادی جائزہ 21۔2020  پیش کیا جس کے کلیدی نکات چونکانے والے ہیں ۔  مرکزی وزیر مالیات و کارپوریٹ امور محترمہ نرملا سیتا رمن نے  اقتصادی جائزے کو کووڈ جانبازوں کے نام وقف کرنے کے بعد بتایا کہ مالی سال  2021 کے دوسرے نصف حصے میں امکان ہے کہ  برآمدات میں 5.8 فیصد  کی کمی آئے اور درآمدات  بھی  11.3 فیصد  کم ہوں ۔ یہ عوام کے قوت خرید میں  کمی کا بہت  واضح اشارہ  ہے ۔ اس سے نہ صرف تجارت متاثر ہوگی بلکہ بیروزگاری میں اضافہ ہوگا۔ مالی سال 2021 میں  جی ڈی پی کے کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس میں صرف  2 فیصدی   اضافہ کا اندازہ قائم کیا گیا ہے۔  ملک میں مجموعی ویلیو ایڈیڈ (جی وی اے) کی  منفی شرح مالی سال 2020 میں یہ 3.9 فیصد تھی  جبکہ مالی سال 2021 میں یہ  ترقی  منفی 7.2 فیصد رہی ۔  صنعت اور خدمات کے شعبے  میں اندازہ ہے کہ ان میں  مالی سال 2020 کے دوران 9.6 فیصد  کی کمی آئی اور توقع ہے کہ  مالی سال 2021 کے دوران 8.8 فیصد کی کمی آئے گی ۔ وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ  تقریر فرمانے سے قبل عالمی نہ سہی تو کم ازکم اپنی سرکار کے جائزے کو ملاحظہ فرمالیا کریں ۔

وطن عزیز میں زر مبادلہ کا سب سے بڑا وسیلہ  سرمایہ دار نہیں ملک کا وہ محنت کش طبقہ ہے جو بیرون ملک اپنے خون پسینے کی کمائی یہاں روانہ کرتاہے  ۔ سالانہ جائزہ بتاتا ہے کہ غیرمقیم ہندوستانیوں  کے ذریعہ رقومات  کی منتقلی پہلے سہ ماہی  میں مجموعی طورسے 35.8  ارب امریکی ڈالر رہی جو گزشتہ سال کی  اسی مدت سے  6.7 فیصد کم ہے۔  اسی کے ساتھ ستمبر 2020 کے اواخر میں ملک  کا بیرونی قرضہ 556.2 ارب امریکی ڈالر تھا جو کہ مارچ 2020 کے اختتام کے مقابلے میں 2.0 ارب (0.4 فیصد)  زیادہ رہا۔  اس مایوس کن صورتحال میں جائزے میں   یہ خوش کن  انکشاف کیا گیا کہ مالی سال 2021 میں  زراعت  کی وجہ سے  قومی معیشت پر کووڈ۔ 19 کے نقصانات کی بھرپائی ہوئی، جس کے تحت 3.4 فیصد  کی شرح ترقی ہوئی۔ اس سے زراعت  کو صنعت پر حاصل فوقیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔   یعنی برے وقت میں تو کسانوں نے معیشت کو سنبھالا اور اب اچھے دن صنعتکاروں کے آرہے ہیں ۔ ایسی صورتحال پر یہ شعر صادق   آتا ہے؎

جب پڑا وقت گلستاں پہ لہو ہم نے دیا                                             اب بہار آئی تو کہتے ہیں ترا کام نہیں

کسانوں کی احسان فراموش حکومت اورسرمایہ داروں  کے  احسانمندپالتو میڈیا نے کسانوں کو ملنے والی سبسڈی کا ایک جعلی ہواّ کھڑا کر رکھا ہے  حالانکہ عالمی سطح پر اگر اس کا موازنہ کیا جائے تو بے حد کم ہے۔ 2016 کے جو اعداد وشمار موجود ہیں اس کے مطابق امریکہ میں فی کسان سالانہ   7,253 ڈالر سرکاری امداد ملتی تھی  کناڈا میں یہ  7,414 ڈالر تھی  ۔ اس سے پتہ چلتا ہے پنجاب کا کسان کناڈا میں جاکر کیوں خوشحال ہوجاتا ہے اور یہاں بدحال کیوں رہتا ہے؟ آسٹریلیا میں رقم 222 ڈالر تھی یوروپی یونین میں 1,068 ڈالر جبکہ ہندوستان میں 2018 -19 کے اندر بھی صرف 49 ڈالر  تک پہنچ سکی تھی۔  اس طرح 2019 کی کل رقم دیکھیں تو چین میں 165.9 بلین ڈالر، یوروپی یونین میں 101.3 ڈالر ۔ امریکہ میں48.9 ڈالر، جاپان جیسے چھوٹے ملک میں 37.6بلین ڈالر، انڈونیشیا جیسے پسماندہ ملک میں 29.4  ڈالر اور ہندوستان میں صرف 11بلین ڈالرہے ۔ یہ پانچ  ٹریلین ڈالر معیشت  بننے والے ملک کا اپنے کسانوں کے ساتھ ناروا  سلوک  ہے ۔اس کے باجود  کسانوں کی خاطر   بہائے جانے والے آنسو اور راجہ ہریش چندر پر ارتھی لات  مارنے والے ہوائی دعوے۔ اس منافقت  کو دیکھ کرہر خوددار شہری کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔   کسان تحریک نے اپنے سودن مکمل کرلیے ہیں کون جانے اس کو اپنا حق حاصل کرنے کے لیے کتنے سال جدو جہد کرنی ہوگی؟

(۰۰۰۰۰۰جاری)

Comments are closed.