انتخابی جملے: کبھی چہرہ نہیں ملتا، کبھی درپن نہیں ملتا

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

بھارت ایک بڑاجمہوری ملک ہے؛ لیکن اگرروئے زمین پرنظرڈالیں تو جس طرح جمہوریت کی یہاں دھجیاں اڑائی جاتی ہیں، کسی بھی ملک میں ایسی صورت حال نہ ہوگی، یہاں کے سیاست دانوں کواگرگرگٹ سے مشابہ قراردیاجائے توبے جانہ ہوگا، پل پل میں رنگ بدلنے میں انھیں بھی مہارت حاصل ہوتی ہے، کبھی یہ عہدہ نہ ملنے کی وجہ سے ایک پارٹی کوچھوڑکردوسری پارٹی میں شامل ہوجاتے ہیں، کبھی پیسوں کی خاطراورکبھی اپنے جرم پرپردہ ڈالنے کے لئے وہ ایسا کرتے ہیں۔

پہلے کے سالوں میں ایسا تھوڑا کم ہوتا تھا؛ لیکن آج کے دورمیں یہ کثرت سے ہوتاہے، جس کاصاف مطلب یہ ہے کہ انھیں ملک اورملک کی عوام سے کوئی سروکارنہیں ہے، ملک ڈوبے توڈوبے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اپنی نیا نہیں ڈوبنی چاہئے، عوام مرتی ہے تومرے، تاہم اپنی کرسی پر کسی قسم کی آنچ نہیں آنی چاہئے؛ بل کہ بعض سیاست داں توبسااوقات جان بوجھ کرعوام کوقتل کروادیتے ہیں، کبھی فسادات بھڑکاکر، کبھی پولیس کے ذریعہ انکاؤنٹر کرواکر، کبھی کہیں دھماکہ کرواکے، کبھی گائے کے نام پر، کبھی دھرم کے نام پر، کبھی مندر ومسجد کے نام پراورنہ جانے اس طرح کے کتنے اسباب ہیں اور یہ کوئی ہوائی باتیں نہیں ہیں؛ بل کہ اس طرح کے دسیوں واقعات آنکھوں کے سامنے ہیں۔

لیکن جب سے ایک خاص نظریات کی حامل جماعت کاغلبہ سیاست میں ہواہے، اس وقت سے یہ ساری چیزیں اپنے حدوں کوپارکرتی جارہی ہیں، اس جماعت کا طرۂ امتیاز یہی ہے کہ وہ ملک اورعوام کی بھلائی نہیں چاہتی، اس کامقصد صرف یہ ہے کہ ہمارا نظریہ ملک پرغالب آجائے، خواہ اس کے لئے کچھ بھی کرناپڑجائے، یہی وجہ ہے کہ اس جماعت سے تعلق رکھنے والے لوگ انتہائی بے شرم ہوتے ہیں، جگہ جگہ اوروقت وقت کے اعتبارسے یہ اپنے بیان بدلتے ہیں، جس وقت یہ جماعت اقتدارپرنہیں بیٹھی تھی، اس وقت اس جماعت کے نام زد وزیراعظم نے ملک کے ہرباشندے کے کھاتے ہیں پندرہ پندرہ لاکھ دینے کاوعدہ کیاتھا؛ لیکن جب ملک کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں آگئی تواپنے وعدہ کوبھول گئی؛ بل کہ پوری بے شرمی کے ساتھ اس جماعت کے ایک اعلیٰ رکن نے یہ کہہ کراس وعدہ کی خلاف ورزی کی کہ : ’’یہ توعوام کولبھانے کے لئے ایک جملہ کہاگیاتھا اوربس‘‘۔

یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ ایک بڑی جمہوریت میں سیاست کواس رخ پرڈال دیاگیاہے، جس میں ملک کی ادنی ترقی ممکن نہیں ہے، اس کی وجہ سے ملک سراسر نقصان ہی میں رہے گا، بہت دورجانے کی بات نہیں ہے، بس ابھی چند سالوں کا جائزہ ہی لے لیجئے، جس وقت ملک برسراقتدارجماعت کے سپرد کیاگیا تھا، اس وقت ملک کی جی ڈی پی 9 + تھی؛ لیکن سیاسی شعبدہ بازیوں اوراپنی من مانی کی وجہ سے برسراقتدارپارٹی کے زمانہ میں ماقبل کورونا- 4پرآگئی تھی اوراس وقت توبس اللہ کی پناہ! یہ ایک چھلک ہے، یہ ایک ٹریلرہے، سوچئے کہ اگر یہ پارٹی دس پندرہ سال مزید اقتدار میں رہی تویقین ہے کہ ملک کوہی نیلام کردیاجائے گا اوراس کے خریداروہی لوگ ہوں گے، جن کوہمارے اباء واجداد نے اپنی جان دے کریہاں سے کھدیڑاتھا، نیلامی کاآغا ز ہوہی چکاہے اورملک کے کئی سیکٹرس کوبعض دولت مندوں کے ہاتھوں بیچاجاچکاہے، بس آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔

اس ملک کی سیاست کس رخ پرجاچکی ہے، اس کوآسانی سے سمجھنے کے لئے آج کل کے الیکشن ریلیوں میں سیاست دانوں کے خطابات سے لگایا جاسکتاہے، اس وقت ملک کے تین صوبوں میں الیکشن کی ریلیاں چل رہی ہیں، مغربی بنگال، آسام اورکیرالا، مغربی بنگال میں سب سے زیادہ دھماچوکڑی مچی ہوئی ہے اورہرپارٹی کے سیاست داں اپنی اپنی سوچ اوروچار کے مطابق عوام کورجھانے میں لگے ہوئے ہیں؛ لیکن سیاست میں سب سبے زیادہ دورخاپن بھارتیہ جنتاپارٹی میں دیکھنے کوملتی ہے، ان کے لیڈران کورنگ بدلتے دیرنہیں لگتی، ’’جیسا دیس ، ویسا بھیس‘‘ پریہ لوگ کاربند ہیں، مغربی بنگال میں اپنی پارٹی کی تشہیرکے لئے بھارتیہ جنتاپارٹی کے ایک لیڈر آئے توانھوں نے ہانک لگائی کہ اگربھارتیہ جنتاپارٹی جیت جاتی ہے توبنگال میں چوبیس گھنٹے کے اندر بیف پرپابندی لگادیں گے، اسی پارٹی کے دوسرے لیڈر جب انتخابی تشہیرکے لئے کیرالہ پہنچے تویہ وعدہ کرتے دیکھے گئے کہ اگریہ پارٹی جیت گئی توصاف ستھرے سلائٹر ہاؤس بنوائیں گے؛ تاکہ عوام کواچھابیف دستیاب ہوسکے، اس سے قبل اسی پارٹی کے گوا سی ایم نے بھی یہ بات کہی تھی کہ گوامیں بیف میں کمی نہیں آنے دیں گے۔

یہ اس پارٹی کامنافقانہ چہرہ ہے کہ ایک طرف تو’’گائے‘‘ کے ذبیحہ پرپابندی کے نام پرسیاست کرتی ہے تودوسری طرف ’’گائے‘‘ کے گوشت میں کمی نہ ہونے دینے پر سیاست کرتی ہے، ایک خطہ میں ایک جانور کو ’’ماتا‘‘ کادرجہ دے کراس کاپوجاکرواتی ہے، اس کے تعلق سے لوگوں کے ذہنوں میں اس قدرعقیدت بھردیتی ہے کہ اس کی وجہ سے لوگ قتل بھی کرنے سے نہیں چوکتے، جب کہ دوسری طرف اسی جانورکے گوشت کو مہیا کرانے کی بات کرتی ہے، مطلب صاف ہے کہ گائے بس بہانہ ہے، اقتداراصل نشانہ ہے۔

اسی طرح کانگریس پارٹی کی پرینکانے آسام میں خطاب کرتے ہوئے کہاکہ اگرہماری جیت ہوئی تو ہم این آرسی کوختم کردیں گے، ظاہرہے کہ یہ بھی ’’پندرہ لاکھ‘‘ کی طرح ہی کاایک جملہ ہے، وجہ ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ آج کانہیں ہے؛ بل کہ آسام کے تعلق سے 1985ء میں خودراجیوگاندھی نے جو سمجھوتہ کیاتھا، اس کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ 1966سے1971کے درمیان جن لوگوں کے نام رائے دہندگان کی فہرست میں جڑے ہوں گے، ان کو ہٹایاجائے گا اوراگلے دس سالوں تک ان کاحق رائے دہی چھین لیاجائے گا، این آرسی کامسئلہ اسی سمجھوتے سے جڑاہواہے۔

اسی سمجھوتے کوسامنے رکھ کر1999میں واجپائی حکومت نے این آرسی اپ ڈیٹ کرنے کامدعا اٹھایاتھا؛ لیکن 2004میں حکومت بدل جانے کی وجہ سے اس طرف مزید کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، مئی 2005میں منموہن سنگھ حکومت میں آسام حکومت اورآسورہنماؤں کے اجلاس ہوئے اوراین آرسی اپ ڈیٹ کرنے کافیصلہ لیاگیا، 2009میں آسام پبلک ورکس نام کے ایک این جی او کی عرضی کی وجہ سے سپریم کورٹ بھی اس میں شامل ہو گیا، جون 2010میں ریاست کے دواضلاع میں این آرسی اپ ڈیٹ کاکام شروع کیا گیا؛ لیکن بعض وجوہات کی بنیاد پربند کردینا پڑا، جولائی 2011میں اس عمل کومزید آسان بنانے کے لئے ایک سب کمیٹی تشکیل دی گئی، مئی 2013 میں سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کواین آرسی کے متعلق طورطریقوں کوآخری خاکہ دینے کی ہدایت دی اور2014میں کورٹ نے این آرسی اپ ڈیٹ کرنے کے عمل کوشروع کرنے کاحکم دیا، جس کانتیجہ بھی سامنے آچکاہے۔

اس تفصیل کوغورسے دیکھئے اوربتایئے کہ کیاپرینکا این آرسی ختم کرنے کی جوبات کررہی ہیں، اس میں وہ سچی ہیں؟ قطعاً نہیں؛ کیوں کہ جس کام کوان محترمہ کے اباجان نے سرانجام دیاہے اورجس کام کوخود اس کی پارٹی نے شروع کیاہے، وہ اس کے خلاف کیسے جاسکتی ہیں؟ اس سے صاف ظاہرہے کہ این آرسی ختم کرنے کے جملہ اورپندرہ لاکھ دینے کے جملے میں کوئی فرق نہیں ہے، سوائے اس کے ایک جملہ کانگریس پارٹی کی طرف سے ہے، جب کہ دوسرا جملہ بھارتیہ جنتاپارٹی کی طرف سے۔

یہ ہے اس وقت ایک بڑے جمہوری ملک کی سیاست کامکروہ چہرہ، جس کی وجہ سے عوام ایک دوسرے سے لڑتی بھڑتی رہتی ہے، جس کی وجہ سے بیسیوں افراد کوموت کے گھاٹ اتاردیا گیا؛ بل کہ ابھی حال میں اسی کومدعا بناکر ایک خاتون کا گینگ ریپ تک کردیاگیا، یہ کیسی ماتاہے کہ ایک جگہ تواس کی وجہ سے گلاتک ریت دیاجاتاہے ، جب کہ دوسری جگہ اس کومہیا کرانے کی بات کی جاتی ہے؟ دوسری طرف این آرسی ختم کرانے کی بات کی جارہی ہے، جب کہ اسی کے پوروجوں نے اس کافیصلہ کیا ہے، سیاست کوگندا اسی لئے تو کہا گیاہے؛ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اسی گندگی سے نکلنے والی بات سے ہم خوش ہوجاتے ہیں، عوام کو کالانعام اسی لئے توکہا گیاہے، وہ کچھ نہیں سمجھتی، وہ صرف نعروں کے پیچھے بھاگتی ہے، حقیقت سے منھ موڑے رہتی ہے، جب تک عوام حقیقت کونہیں سمجھے گی، اس وقت تک یہ سیاسی بازی گر ہمیں کھلادھوکہ دیتے رہیں گے؛ اس لئے عوام کو چاہئے اس حقیقت تک پہنچیں اوردوسروں تک پہنچائیں اورالیکشن کے موقع پر زبان سے نکلنے والی سیاسی جملہ بازیوں سے ہوشیاررہیں؛ کیوں کہ ان کے کبھی چہرے نہیں ملتے اورکبھی درپن نہیں ملتے۔

Comments are closed.