پھل دار اتحاد کس طرح ممکن ہے۔۔۔؟

الیاس اعظمی
(سابق ممبر آف پارلیمنٹ)
اتحاد یا اتحاد ملت کا نعرہ ۔۔۔مومن ، منافق ، علمائے حق اورعلمائے سوء سمیت سبھی لگاتے ہیں زیادہ تر چنائو میں مسلمان تقریباً متحد بھی رہتا ہے لیکن اس تناور درخت میں پھل کیوں نہیں لگتے؟ سبھی کو اس پر غور کرناچاہئے۔
ابھی لوک سبھا چنائو میں اترپردیش میں تو سپا بسپا گٹھ بندھن کےلیے مسلمان اتنا متحد ہوا جس سے زیادہ اتحاد ممکن بھی نہیں جن جاتیوں کو اس سے سیدھا فائدہ پہنچتا وہ ساٹھ فیصد سے زیادہ متحد نہیں ہوسکے۔ جبکہ مسلمانوں کو فائدہ کا امکان بھی نہیں تھا۔
مسلمان کیوں متحدہوں؟ کہاں متحد ہوں؟ کیسے متحد ہوں کہ اس اتحاد کے درخت میں پھل بھی لگیں۔ یہ بات ستر سال سے اتحاد کانعرہ دینے والے اگر جانتے بھی ہوں تو بتائیں گے بھی نہیں ،حقیقت یہ ہے کہ اکثر وہ جانتے بھی نہیں؟
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ پچھلے لوک سبھا چنائو میں ووٹوں کی گنتی سے صرف ایک دن پہلے ۲۲ مئی کو ملائم سنگھ امیت شاہ خفیہ سمجھوتے کے تحت پورے پریوار کو آمدنی سے زیادہ جائیداد معاملے میں کلین چٹ ملی۔ جبکہ پورے پردیش کو یہ معلوم ہے کہ پریوار کے گھریلونوکروں کے پاس بھی آمدنی سے زیادہ جائیداد ہے۔ اس کے بدلے میں سماج وادی پارٹی نے اپنے سارے ترجمانوں کو برخاست کردیا تاکہ رزلٹ میں جب گٹھ بندھن ہار جائے تو کوئی ترجمان ای وی ایم پر انگلی نہ اُٹھادے۔
اسی طرح مایاوتی امیت شاہ ساز باز کے نتیجے میں مایاوتی نے یک طرفہ طور پر گٹھ بندھن توڑنے کا اعلان کردیا۔ ملائم اور مایاوتی نے یہ حرکتیں ان سب کا دل توڑ کر کیں، جن لوگوں نے گٹھ بندھن کےلیے جان کی بازی لگائی تھی۔ دونوں نے اپنے ممبران پارلیمنٹ سے بھی نہیں پوچھا جو حال ہی میں مسلمانوں کے تھوک ووٹ سے ہی جیتے تھے۔ جن کی تعداد ۱۵؍ تھی جن میں پانچ تو روح القدس ہی ہیں۔
مسلمانوں کی یہ خواہش کہ ایک حلقے سے ایک مسلمان امیدوار ہو ایسی ہی ہے جس کے تحت بچہ چاند کو پکڑنے کےلیے ہاتھ پائوں مارتا ہے۔ کیا ہمیں معلوم نہیں کہ ۱۹۸۰ کے لوک سبھا چنائو میں اترپردیش سے ۱۸؍ مسلمان لوک سبھا میں پہنچے تھے، اور اسی پنج سالہ میں مسلمانوں کا سب سے زیادہ قتل عام اندرا گاندھی کی خواہش پر ہوا تھا کہ مسلمانوں کے جنتا پارٹی کی طرف چلے جانے کی وجہ سے ہی وہ تین سال تک اقتدار سے باہر رہی تھی۔ مرادآباد کی عید گاہ کا قتل عام ۱۳؍اگست ۱۹۸۰ ء اس سلسلہ کی ایک کڑی تھا۔
ہمارے سیاسی منافقین اس وقت اکھلیش یادو کے در پر لائن میں کھڑے ہیں کہ اگلے چنائو میں اپنی سیٹ پہلے بک کرالیں، شاید انہیں معلوم نہیں ہے کہ ۲۰۲۲ کے چنائو میں پردیش کا مسلمان اپنی قیادت کی کسی پارٹی کے کسی امیدوار کو ہی ووٹ دینے کا من بنارہا ہے، جس کی وجہ سے یہ بے چاری بے موت ہی مرسکتے ہیں؟
بامقصد او رپھل دار اقتدار جب ہی ممکن ہے جب ہم ہر صوبہ میں نظریاتی طور پر پختہ کار، جہاں دیدہ، انتہائی تجربہ کاری کے ساتھ انتہائی ایماندار شخص کی قیادت میں ایک پارٹی بناکر یہ تہیہ کرلیں کہ اب ہمارا پیسہ خرچ اسی پر ہوگا۔ ہمارا پیسہ صرف اسی کےلیے بہے گا۔ ہم بھیڑ صرف اسی کےلیے لگائیں گے اور ہمارا ووٹ صرف اسی کے امیدوار کو جائے گا۔ خواہ کوئی پارٹی ہمارے کسی رشتہ دار کو کیوں نہ کھڑا کردے، جس دن یہ ہوگیا اس کے بعد جو بھی چنائو ہوگا اترپردیش میں اس پارٹی کی سرکار بنے گی یا کم از کم وہ سرکار کی سب سے اثر دار پارٹنر ہوگی۔
ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھ لیناچاہئے کہ بھاجپا ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جسے اکیلے مسلمان حل نہیں کرسکتے؟ ملک کا معاشی دیوالیہ پن اور بینکوں کی لوٹ گجراتی سرمایہ داروں کا ملک کو لوٹ کر بھاگ جانا اور کسانوں کی تباہی ان کا مہینوں سخت سردی میں دلی کا کھرائو مائنس ڈی جی پی پونجی وادی پالیسیوں سے سماج کا بکھرائو، سبھی پڑوسیوں سے ہمارے تعلقات کی خرابی، اور چین کی دراندازی، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے پیدا ہونے والے مسائل، بینکوں کی لوٹ جیسے بے شمار مسائل کیا صرف مسلمانوں کے ہی مسائل ہیں کیا صرف مسلمان ان مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔ بی جے پی پورے سماج کا مسئلہ ہے اس میں مسلمان بھی شامل ہیں۔
کیا ہم نے غور کیا کہ بی جے پی بھی یہی چاہتی ہے کہ مسلمان اس کو اپنا سب سے اہم مسئلہ سمجھتے رہیں۔ اس کی مخالف پارٹیاں بھی یہی چاہتی ہیں کہ صرف بھاجپا کی مخالفت کے نام پر ہمیں مسلمانوں کا ووٹ ملتا رہے۔ اس لیے ہماری بنیادی ضرورت ہے کہ ہم اب ’’بھاجپا ہرائو‘‘ کی پالیسی ترک کرکے صرف جیتنے کی طرف توجہ مبذول کریں۔ نتیجہ اوپر والے پر چھوڑ دیں۔
یہ بات عام مسلمان بھی جانتا ہے کہ اسلام صرف مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کےلیے نہیں بلکہ ساری انسانیت کے مسائل حل کرنے کےلیے برپا کیاگیا تھا۔ اس کے بانی رحمۃ اللعالمین تھے رحمۃ اللمسلمین نہیں تھے۔ نہ ہی کسی دور میں بھی ان کو یہ لقب دیاگیا۔ جب ان کے لوگ بھٹکے ہوئوں کو اپنا لیڈر مانیں گے تو نتیجہ وہی ہوگا جو ہمارے سامنے ہے۔ بی جے پی ملک پر صرف اترپردیش کے ذریعے قابض ہوئی جہاں مسلمانوں کا تناسب آبادی اور تعداد کے لحاظ سے کافی زیادہ ہے اس کی صرف ایک وجہ تھی کہ اکھلیش یادو کے پانچ سالہ دور اقتدار میں اتنا کھلاجاتی واد چلایاگیا او رپروپیگنڈہ بھی چلایاگیا لیکن اکھلیش یادو نے کبھی اس کی تردید بھی نہیں کی۔ جس کی وجہ سے غیر یادو پچھڑی جاتیوں نے یہ مان لیا کہ اب ہمارا ۲۷ فیصد حصہ بھی ایک ہی کو ملے گا جو ہمیں وی پی سنگھ نے اپنی کرسی قربان کرکے پچھڑوں کو دیا تھا۔ کیوں کہ مسلمانوں کے رخ سے ان کے جیتنے کے امکانات نظر آتے تھے۔ ۲۸؍ فیصد ووٹ بیک ورڈ پوری طرح بی جے پی کو چلاگیا۔ جس کے پاس ۱۵ فیصد ووٹ پہلے سے ہی تھے؟ اور وہ ۲۰۱۴ ء پھر ۲۰۱۷ء میں بھاری اکثریت سے جیتی ۲۰۱۹ ء وہ ای وی ایم کے ذریعے جیتی اس لیے بی جے پی کو اقتدار کی ذمہ داری سے اترپردیش کے مسلمان نہیں بچ سکتے؟
موجودہ ماحول میں اترپردیش میں مسلم مجلس ، مسلم لیگ اور مجلس اتحادالمسلمین یا کسی اور مجلس کے نام پر متحد ہونا خودکشی کے مترادف ہوگا۔ کیوں کہ اتحاد بین المسلمین کا نعرہ اتحاد بین الہندئوین ثابت ہوگا۔ خواہ وہ کوئی فرقہ واریت نہ بھی پھیلائے صرف مسلم اکثریت کی سیٹوں پر چنائو لڑنے سے بھی فائدہ کا سودا نہیں۔ اترپردیش میں انسانیت کا مسئلہ حکومت بناکر یا کم از کم شریک اقتدار ہوکر ہی حل کیاجاسکتا ہے۔
پہلے دنیا بھر میں انسانوں کی خریدوفروخت رائج تھی اب انسانوں کے دماغ، زبان اور قلم کی او رکمپنیوں کی طرح سیاسی وسماجی تنظیموں کی فروخت ہوتی ہے۔ ممبران اسمبلی کی خریدوفروخت ہی نہیں پورے کے پورے میڈیا ہائوسوں کو بھی خرید لیاجاتا ہے۔ بہار چنائو میں بی جے پی اپنے خلاف دو دو گٹھ بندھن بنوائے تھے کسی بھی لیڈر شپ کو معصوم من الخطا نہ سمجھ کر سب کی حرکتوں پر گہری اور پینی نظر رکھنی ہوگی۔ دور حاضر کے حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے صرف اپنے گردوپیش کے لیے نہیں آنے والوں کے لیے بھی کہا تھا۔
ہو اگر قوت فرعون کی در پردہ مُرید
قوم کے حق میں ہے لعنت وہ کلیم اللّٰہی!

 

Comments are closed.