مسلم گھرانوں کی شادیاں اور ہمارا رویہ

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر عبدالحلیم قاسمی
پرنسپل و میڈیکل سپرنٹنڈنٹ
ارم یونانی میڈیکل کالج لکھنؤ ،
حالیہ دنوں میں گجرات کی ایک بیٹی کے جہیز کی بھینٹ چڑھ جانے سے ہندوستانی مسلمانوں کی جو شبیہ مسخ ہوئی ہے اس سے کہیں نہ کہیں ہم سب کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے،
گزشتہ کئی دنوں سے علماء کرام سے رابطہ کر درخواست کی کہ ایک مباح چیز جہیز کے ایشوز کو لیکر بے شمار مسلم بچیوں کا سکون غارت ہے،
لھذٰا کیوں نہ ایسی صورتحال میں جب انسانی جانیں تلف ہونے لگیں اور مباح چیزوں سے حرام کا ارتکاب ہونے لگے تو ایسی صورت میں مباح چیزوں کے عدم جواز کا بالاتفاق فتویٰ جاری کردیا جانا چاہیے،
نکاح جیسی عظیم سنت جس پر نہ صرف انسانی توالد و تناسل کا انحصار بلکہ حدیث نبوی صل اللہ علیہ وسلم کے نقطہ نظر سے (من تزوج فقد استکمل نصف الایمان) نکاح نصف ایمان ہے،
نماز جمعہ و جلسوں کے خطاب سے مسئلہ کا حل نہیں،
ہم سب کے اردگرد بے شمار ایسے بہت سارے دیندار ہیں جو انفرادی عبادات میں رات دن مصروف رہتے ہیں، لیکن معاشرے اور سماج کی اس اجتماعی برائی کو اتنی آسانی اور خوبصورتی سے نظر انداز کرتے ہیں گویا انکے نزدیک نکاح عبادت نہ ہوکر ایک محض رسم ہے،
جب صورتحال اس طرح ہوجائے کہ مباح چیزوں سے حرام کا ارتکاب ہونے لگے تو بہر صورت علماء کرام کو عدم جواز کا بالاتفاق فتویٰ جاری کر دینا چاہیے،
فتویٰ جاری کر دینے کی صورت میں کم از کم لوگ ایسا کرنے سے شرم محسوس کریں گے اور بتدریج اس لعنت سے خلاصی ممکن ہوگی،
تسامح و نظر انداز کی صورت میں حالات مزید بگڑ سکتے ہیں،
یاد رکھیں نکاح ایک خالص شرعی عبادت ہے، نکاح ہی دراصل ہماری نسلی شرافت کا نہ صرف ضامن بلکہ محافظ بھی ہے، لھذاٰ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے گھروں، خاندانوں، بستی سماج میں روحانیت پیدا ہو تو یقیناً شرعی اصول و ضوابط کو اپنانا ناگزیر ہے،
ہمیں اپنی انفرادی عبادات پر اجتماعی ایشوز کاز اور معاملات کو ترجیح دینا ہوگا،
انفرادی عبادات میں لغزش، تساہلی فرد واحد کی کوتاہی ہے جس سے بآسانی رجوع نہ صرف ممکن بلکہ امر واقع ہے جبکہ اجتماعی ایشوز میں تساہلی، تسامح، درگزر سے سماج اور معاشرہ میں جو متعدی بیماریاں اور خرابیاں پیدا ہوتی ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں،
لھذاٰ شرع کی روشنی میں ترجیحات ہمیں خود طے کرنا ہوں گی،
ہمیں عملاً حدیث نبوی صل اللہ علیہ وسلم (ان اعظم النکاح برکۃ اَیسر مؤنۃ) بابرکت نکاح جو اخراجات کے اعتبار سے قابل برداشت ہو کی تشریح عوام میں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ جہیز کے لین دین سے لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرنی ہوگی،
تبھی در اصل نکاح آسان اور برائیاں مشکل ہوں گی،
ہندوستان میں دورِ حاضر کی تمام سرکردہ تنظیموں میں صرف ایک تنظیم اگر تبلیغی جماعت کے اعلیٰ سربراہان تبلیغ سے منسلک افراد کو جہیز فری حلف دلا دیں تو یقین مانیں ایک سال کے اندر نہ صرف ہندوستان بلکہ پورے ایشیاء کا نقشہ بدل جائے گا اور لوگ جوق در جوق اسلام کے نہ صرف گرویدہ بلکہ داخل اسلام ہوں گے،
*شکریہ*
- *مورخہ 6 مارچ بروز شنبہ 2021*
Comments are closed.