جنگی اور غیر جنگی قوم میں فرق

کلیم احمد نانوتوی
جنگ۔۔۔۔ کسی بھی قوم کی بقاء، کسی بھی نظریے کی حفاظت، اور اپنے حقوق کی لڑائی کے لیے لازمی حیثیت رکھتی ہے۔ جو قوم جنگ میں مشغول رہتی ہو، تو شجاعت و بہادری جیسے اوصاف حمیدہ اس کے نونہالوں کے رگ و ریشے میں بھی اس طرح سرایت کر جاتے ہیں کہ وہ جنگ کے لیے ہر وقت پا بہ رکاب رہتے ہیں۔ اور جو قوم "ماعندھم” کو غنیمت سمجھتی، عشق و مستی کے سامان میں ڈوبی رہتی اور خاک و خون میں آلودہ ہونے سے دوری بنائے رکھتی ہے، وہ بزدل ہو جاتی ہے اور اس کے اعضاء و قویٰ معطل ہوتے ہیں۔
پہلے کی مثال "قوم ِ موسیٰ” ہے کہ جب حضرت کلیم علیہ السلام نے فتح بیت المقدس کا ارادہ کیا، تو اپنی قوم کو للکارا اور قابض و ظالم لوگوں سے جہاد کرنے کی فضیلت بتا کر آگے بڑھنے کا حکم دیا، تو ایک مدت تک مفتوح رہ چکی ان کی قوم؛ بنی اسرائیل پر بزدلی کے آثار اس قدر چھائے ہوئے تھے کہ حضرت کلیم اللہ کی رعب دار آواز اور نصرت الہی کی امید بھی ان کو جہاد پر آمادہ نہ کر سکی؛ اس لیے وہ بالکل بھی مطمئن نہ ہوئے؛ بلکہ زبان گستاخ سے کہنے لگے : آپ اور آپ کا رب ہی قتال کے لیے چلے جائیں، ہم نہیں جانے والے۔۔۔۔ اس کے برخلاف عرب کے لوگوں کو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا، تو انہوں نے جواب دیا : نقاتل عن یمینک و عن شمالک الخ ؛ اسی لیے انہوں نے دنیا میں اپنے جھنڈے گاڑے اور ان کی اولاد نے بھی اسلام کا پرچم چہاردانگ عالم میں پھیلایا۔
ہماری حالت بنی اسرائیل جیسی ہو گئی تو رسوائی ہمارا مقدر ٹھہری اور افغانی بھائیوں نے جد و جہد اور کش مکش کی زندگی کو آرام طلبی اور عیش کوشی پر ترجیح دی؛ اسی لیے فتح و کامرانی ان کے حصے میں آئی۔
Comments are closed.