اسلام کے قانونِ وراثت میں عورتوں کے حصے (قسط نمبر 2)

 

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی

(دارالافتاء:مہدپور،اجین،ایم پی)

وراثت میں حصے دار عورتیں
فی الجملہ جن عورتوں کے وارث ہونے پرفقہائے کرام کا اتفاق ہے وہ یہ ہیں۔
1۔ بیٹی۔
2۔پوتی۔
3۔ پوتے کے اولادی سلسلہ میں کسی کی بیٹی بشر طیکہ اس کے اور متوفی کے درمیان کوئی عورت نہ ہو۔
4۔ ماں۔
5۔ نانی اور نانی کے اوپر مادری سلسلہ۔
6۔براہِ راست دادی۔
7۔ سگی بہن۔
8۔ باپ شریک بہن۔
9۔ ماں شریک بہن۔
10۔ بیوی۔
11۔ آ زاد کر نے والی ما لکہ یعنی مولی العتاقہ۔
تین طرح کی خواتین کے وارث ہو نے میں امام ابو حنیفہؒ امام احمدؒ اورمالکیہ و شوافع میں متأخرین متفق ہیں۔
12۔ ذوات الارحام، جیسے پھوپھی۔
13۔ خا لہ۔
14۔ پھو پھی زاد بہن۔
15۔ خالہ زاد بہن۔
16۔ نواسی۔
17۔ اور 18۔ مو لی الموالات۔ اپنے ہا تھ پراسلام قبول کر ا کے معا ہدہ کر نے والے(مذکرہوں خواہ مؤنث) فریقین۔ معا ہدہ کی وجہ سے ایک دوسرے کے وا رث ہوں گے۔
19۔ مولی العتاقہ۔ یعنی کسی کو آزاد کر نے والی عورت(مرد) آزاد شدہ عورت مرد کی وا رث ہو گی۔
20۔ دادی با لواسطہ۔ امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک با لوا سطہ دادی اُسی وقت وارث ہو گی جب اس کے اور متوفی کے درمیان کوئی ایسا مرد نہ ہو جو وا رث نہیں ہو سکتا۔ اور قا عدہ یہ ہے کہ جو مرد رشتہ کے اعتبار سے دو عورتوں کے درمیان آ ئے تو وہ وا رث نہیں ہوسکتا۔ یہی رائے امام شافعیؒ کی بھی ہے۔(مستفاد ازقا موس الفقہ جلد5/ص157/ بحوا لہ احکام الموا ریث ص92/ 93/)
وارث عورتوں کے حصے
مذکورہ بالا تفصیلات کی رو شنی میں وراثت میں حصہ پا نے والی عورتوں کی اصناف بیس ہوتی ہیں۔ یعنی اسلام میں عورتیں اپنی زندگی کے تقریباً بیس مر حلوں میں مختلف رشتوں سے وراثت کی حق دار ہو تی ہیں۔

جاری۔۔۔۔

Comments are closed.