Baseerat Online News Portal

شہرِ سخن میں کیسے ملے ہم نَوا مجھے

غزل

شہرِ سخن میں کیسے ملے ہم نَوا مجھے
کیسی عداوتوں کا رہا سامنا مجھے

کوئی بھی رنگ دیکھ کے حیرت ہو کیا مجھے
بدلیں گے اپنا رنگ وہ معلوم تھا مجھے

دل مطمئن ہو آپ کی باتوں پہ کس طرح
پہنچا رہے ہیں آپ کہاں فائدہ مجھے

کانٹوں سے تیرے حوصلے ٹکرا گئے مرے
شاید نہ بھول پائے کبھی راستہ مجھے

تنہا دیا نہیں میں دیے کا ہوں سلسلہ
کم ظرف تیری پھونک بجھائے گی کیا مجھے

لینا تھا درگزر کی نگاہوں سے مجھ کو کام
رکھنا تھا ساتھ دیدۂ عبرت بھی وا مجھے

اندر سے چور چور تھا ہر ضرب پر تری
خوش دیکھنا تھا تجھ کو، بکھرنا پڑا مجھے

کس طرح چھوڑ دیتا اُگانا غزل درخت
رکھنا تھا دل کے زخم کو ہر دم ہرا مجھے

لکھتا تھا جن درختوں پہ اشکوں سے تیرا نام
دیتی ہیں اُن کی شاخیں ابھی تک دعا مجھے

ہر بار زخم دے کے وہ راغبؔ ہوا نہال
ہر بار اُس کو دیکھ کے اچھا لگا مجھے

افتخار راغبؔ
دوحہ قطر

Comments are closed.