ڈیجیٹل میڈیا میں ٹویٹر کی اہمیت

از : شمس الہدی قاسمی
جامعہ اشاعت العلوم ، اکل کوا
گزشتہ تقریبا دو دہائیوں سے، انٹرنیٹ کی ایجاد کے بعد ،جو مواصلاتی انقلاب دنیا میں برپا ہوا ہے اس کے اثرات سے پوری دنیا واقف ہے۔ لوگوں کی طرز زندگی ، تعلیمی نظام ، تجارتی سہولیات، تہذیبی و ثقافتی تنوع گویا کہ زندگی کے ہر شعبے کو اس انقلاب نے متاثر کیا ہے اوران میں نمایاں تبدیلیاں پیدا کی ہے۔ مواصلاتی انقلاب کے بعد پیغام رسانی کے مختلف ذرائع وجود میں آئےجنھیں ڈیجیٹل میڈیا کا نام دیا گیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پوری دنیا میں اپنا سکہ اس طرح جما لیا، گویا کہ اس سے دور رہنے والا زمانے کی رفتار سے نابلد و ناآشنا ہے۔ اس انقلاب نے پوری دنیا کو سمیٹ کر گھر آنگن میں تبدیل کردیااور ساری دوریوں کو اس طرح ختم کر دیا جو تاریخ میں کبھی ممکن نہ ہوسکا۔
ڈیجیٹل میڈیا:
"پیغام رسانی کے لیے استعمال کی جانے والی میڈیا کی کوئی بھی شکل جوالیکٹرانک آلات کا استعمال کرے وہ ڈیجیٹل میڈیا کہلاتی ہے۔” یوں تو ڈیجیٹل میڈیا کے ہزاروں نہیں ، لاکھوں پلیٹ فارم موجود ہیں جو عام طور پر سافٹ ویئر ، ویڈیو گیمز ، ویڈیوز ، ویب سائٹیں ، سوشل میڈیا ، اور آن لائن اشتہار بازی کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔مگر ان میں کچھ سوشل میڈیا پلیٹ فارم جو ساری دنیا میں مقبول و معروف ہیں وہ فیس بک، ٹویٹر، لنکڈان، انسٹاگرام، یوٹیوب، اسنیپ چیٹ، واٹس ایپ، بپ،سگنل، ٹیلی گرام اورپن ٹریسٹ وغیرہ ہیں۔ اسمارٹ فون کے اس زمانے میں شاید ہی کوئی ایسا موبائل فون ہو جو ان تمام اپلیکیشنز سے خالی ہو۔ بچے، بوڑھے ، جوان، خواتین سبھی ان کے استعمال کے خطرناک حد تک عادی ہوتے جارہے ہیں۔
یوں تو ڈیجیٹل میڈیا کے تمام پلیٹ فارم اپنی نوعیت، استعمال، اثر اور افادیت کے اعتبار سے قدرے مختلف ہیں مگر ہم اس مضمون میں سوشل میڈیا کے ایک اہم پلیٹ فارم "ٹویٹر” (Twitter)کی اہمیت پربات کریں گے۔
ٹویٹرکیا ہے؟
ٹویٹر ایک امریکی سماجی رابطے کی مائکروبلاگنگ ویب سائٹ ہےجو اپنے صارفین کواپنی ویب سائٹ اور موبائل اپلی کیشن کے ذریعے دو سو اسی (280)حروف پر مشتمل ،مختصر پیغام پوسٹ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس پوسٹ کو ٹویٹ کہا جاتا ہے۔ ٹویٹ کے ذریعے ایک سو چالیس سیکنڈ کا آڈیو اور ویڈیو پیغام بھی پوسٹ کیا جا سکتا ہے۔یہ پیغامات آپ کےفولورز(پیروی کرنے والوں )کو ترحیجی طور پر نظر آئیں گے۔ تقریبا 330 ملین صارفین اس سماجی رابطے کی سروس کو استعمال کر رہے ہیں۔ٹویٹر کی تخلیق، مارچ 2006 ء میں ہوئی، اس کے بانیوں میں جیک ڈورسے، نوح گلاس، بز اسٹون اور ایوان ولیم شامل ہیں۔
ٹویٹر کی خصوصیات و اہمیت:
ٹویٹر کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اپنے مختصر پیغام پوسٹ کرنے کی پالیسی پر سختی سے عمل پیرا ہے۔یہ پڑھے لکھے لوگوں میں خاصا مقبول ہے۔ ٹویٹرکی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس پر تمام ممالک کے صدر جمہوریہ سے لے کر معمولی سرکاری محکموں کے افسران بھی متحرک و فعال نظر آتے ہیں۔وزیراعظم اور اس کی کابینہ اورتمام وزارتوں کے دفاتر ٹویٹر پر سرگرم ہیں اور عوام تک اپنا پیغام پہنچانے میں ٹویٹر کا استعمال کرتے ہیں۔ ٹویٹر پر مشہور سیاستدانوں سے لے کر فلمی ستارے ، مذہبی رہنماؤں سے لے کر تعلیمی ادارے اور تجارتی کمپنیاں اپنے اپنے پیغامات کی تشہیر کے لیے ٹویٹر کا استعمال کرتی ہیں۔صحافی اور میڈیا ہاوسیز خبروں پر نظر رکھنے کے لیے ٹویٹر پر نظر رکھتے ہیں اور تازہ ترین خبریں عوام کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔
ٹویٹر ٹرینڈاور اس کی اہمیت:
ٹویٹر اپنے ٹرینڈ کی وجہ سے بھی ایک الگ شناخت و مقبولیت رکھتا ہے۔ ٹرینڈ انگلش لفظ ہےجس کا معنی رجحان ہوتا ہے۔ ٹویٹر کی اصطلاح میں ٹرینڈ ایک خاص موضوع کو کہتے ہیں جس کے متعلق صارفین کی ایک بڑی تعداد اس موضوع پر ایک ساتھ لکھتی اور بحث کرتی ہے اور وہ ٹویٹر پر علاقے کے اعتبار سے نمایاں نظرآتا ہے۔ جس کی وجہ سےوہ موضوع صحافیوں ، نیوز چینلوں اور تمام لوگوں کی نظر میں آسانی سے آجاتا ہے اور اس طرح وہ مین اسٹریم میڈیا کا بھی موضوع بن جاتا ہے۔
ٹویٹر اور سیاسی جماعتیں:
ٹویٹر پرتمام اہم سیاسی جماعتیں اور ان کے سیاستداں موجود ہیں، وہ نہ صرف اپنے سیاسی اور سماجی کاموں کی تشہیر کےلیے اس پر سرگرم عمل ہیں بل کہ اپنی حریف سیاسی جماعتوں کی کردار کشی کی مہم میں بھی مشغول رہتی ہیں۔ قومی سیاسی جماعتوں کے آئی ٹی سیلز ٹویٹر پر خاصے متحرک رہتے ہیں اور اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے مطابق، لوگوں کی نظریاتی ذہن سازی کرتے ہیں۔آئے دن سیاسی جماعتوں کے آئی ٹی سیلز کی جانب سےٹویٹر ٹرینڈ مہم چلائی جاتی ہے اور پروپیگنڈوں کے ذریعے پارٹی کے لیے راہ ہموار کی جاتی ہے۔ الیکشن کے موقعوں پر اس طرح کے ٹرینڈز میں خاصا اضافہ ہو جاتا ہے۔ آج کل ہمارے قدآورسیاستداں اور وزراء میڈیا میں پریس کانفرس کرنے کے بجائے ٹویٹر کے ذریعے مختصر پیغام پوسٹ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ عالمی سطح پر اگر دیکھا جائے تو گزشتہ سالوں میں بہت سارے ممالک میں ٹویٹر کے ذریعےحکومت کے خلاف مہم چلائی گئی اور حکمراں جماعتوں کا تختہ پلٹ دیا گیا۔ آج سیاسی جنگیں ٹویٹر کے میدان پر لڑی جا رہی ہیں۔
ٹویٹر اور عام صارفین:
ٹویٹر نہ صرف حکمرانوں، سیاستدانوں، فلمی ستاروں، صحافیوں، مذہبی رہنماؤں، اداروں اور تجارتی کمپنیوں کی ایک اہم ضرورت بن گیا ہے بل کہ عام صارفین کے لیے بھی یہ بے حد مفید ہے۔ ٹویٹ اور ٹرینڈ کے ذریعے عوام کی ایک بڑی تعداد تک آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے اور اس کے ذریعے اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت کی جا سکتی ہے۔ ریسرچ، تحقیقی مضامین اور ویب سائٹس کی لنکس وغیرہ بھی شئیر کی جا سکتی ہیں۔ دوسرے ماہرین کو فولو کرکے ان کے خیالات، معلومات اور ان کے بہترین کاموں سے واقف رہا جا سکتا ہے۔ اس کے ذریعے لوگوں سے ایک اچھا ربط اور تعلق بنایا جا سکتا ہے۔ سیاسی، سماجی، صنعتی، تعلیمی اور مذہبی خبروں اور معلومات سے باخبر رہ کر خود کو حالات کے مطابق بہترطور پر تیار جا سکتا ہے۔ اسی طرح زندگی میں پیش آنے والے بہت سارے مسائل کو بھی سوشل میڈیا سے حل کیا جا سکتا ہے۔ روزمرہ کی خبروں میں ہم پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں کہ فلاں ٹویٹ کی وجہ سے انتظامیہ حرکت میں آئی اور بروقت کارروائی سےمسئلہ حل ہوگیا۔ اس سلسلے میں یہاں ہم آپ کے ساتھ اپنے دو دلچسپ واقعات شیئر کرتے ہیں جس سے ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ ٹویٹر کو کس طرح ہم اپنے مسائل کے حل میں بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
پہلا واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان میں کورونا وائرس کی وجہ سے جب حکومت نے مارچ 2020ء میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تو اس وقت خاص طور پر مہاجرمزدوروں نے سخت مصائب اور مشکلات کا سامنا کیا۔اچانک مکمل لاک ڈاؤن کی وجہ سے ٹرینوں، بسوں اور پرائیوٹ گاڑیوں اور فلائٹ کی آمد ورفت پر پابندی لگ گئی تو لوگ اپنی اپنی جگہوں پر پھنس گئے ، لوگوں نے پیدل سفر کرکے اپنے گھروں کا رخ کرنا شروع کیا ، تو اپوزیشن نے حکومت کو سخت آڑےہاتھوں لیا اور سخت نکتہ چینی کی۔ جس کی وجہ سے حکومت کو اسپیشل ٹرینیں چلانی پڑیں مگر وہ ٹرینیں عملے کی شدید قلت کی وجہ سے اس قدر بدنظمی کا شکار ہوئیں کہ منزل تک پہنچنے میں ہفتےلگنے لگے، اور ان ٹرینوں کےراستے سے بھٹکنے کی بھی خبریں میڈیا میں موصول ہونے لگیں، نتیجتا ان ٹرینوں میں بھوکے پیاسے غریب مزدوروں کی متعدد موتیں ہوئیں۔ اسی زمانے میں ہمارے ایک رفیق نے بھی ممبئ سے اسپیشل ٹرین کا سفر شروع کیا اور ان کی ٹرین بھی اٹارسی کے آگے کسی اسٹیشن پر پہنچ کر کھڑی ہوگئی اور اٹھارہ گھنٹے گزرنے کے بعد میرے پاس رفیق محترم کا فون آیا کہ ٹرین اسٹیشن پر رات سے کھڑی ہے، اور چلنے کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی ہے، مسافرین بھوک اور پیاس بلبلا رہے ہیں ، اسٹیشن پر تمام سروسیز موقوف ہونے کی وجہ سے کھانا اور پانی ملنا مشکل ہے۔ فجر کے فورا بعد احقر نے اپنے چند ساتھیوں کو لے کر ٹویٹر پر ریلوے منسٹری کو ٹیگ کرکےٹویٹ کرنا شروع کیا اور کچھ دیر میں ہی ہمیں جواب ملا کہ متعلقہ افسران کوترجیحی طور پر معاملہ سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ اور آدھے گھنٹے کے بعد رفیق محترم کا فون آیا کہ ٹرین روانہ ہوچکی ہے اور پھر مسافرین کے لیے اگلے اسٹیشن پر کھانے پینے کا بھی نظم کیا گیا۔
دوسرا واقعہ ہمارے ایک انتہائی محترم دوست کا ہے، انہوں نے لاک ڈاؤن سے پہلے مارچ کے مہینے میں آن لائن شاپنگ ویب سائٹ فلپ کارٹ سے سیمسنگ برانڈ کے تین مہنگے ایرکنڈیشنز خریدے تھے۔ مگر ڈیلیوری کے وقت انھیں ناقص سامان موصول ہوا، انہوں نے اس امید سے سامان رکھ لیا کہ شاید بقیہ سامان کچھ دنوں میں موصول ہوجائے گا۔ اسی دوران لاک ڈاؤن کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا، ابتدا میں کمپنی سے شکایت پر جواب ملا کہ آپ کا بقیہ سامان جلد آپ کو مل جائے گا یا رقم واپس کر دی جائے گی مگر اس طرح نو مہینے گزر گئے اورکمپنی نے اپنی ریٹرن پالیسی مدت کا بہانہ بناکر سامان واپس لینے اور کسی بھی رقم کے دینے سے انکار کر دیا،تقریبا تیس سے پینتیس ہزار روپیے کے نقصان کاسامنا تھا۔ نو مہینے کا ایک لمبا عرصہ گزر جانے کے بعد ہمارے محترم دوست نے اس واقعے کا تذکرہ احقر سےکیا، اورپھر بندے نے اپنے ٹویٹر ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس مسئلے کو فراڈ سے جوڑکر ٹویٹر پر ٹویٹس شروع کر دیا ، ٹویٹ ، ری ٹویٹ اور لائک کی وجہ سے فلپ کارٹ کمپنی کی طرف سے فورا جواب آیا اور فون پر فون آنے شروع ہوگئے ۔ کمپنی کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی کہ نقصان کی بھرپائی جلد کر دی جائے گی،کمپنی نے بینک کی تفصیلات طلب کی اور مطلوبہ رقم بینک میں واپس کر دی، اوراس طرح ایک ہفتے کی کوشش کے بعد نو مہینے سے معلق مسئلہ ٹویٹر پلیٹ فارم سے حل ہوگیا۔ (اور یہ سب ٹویٹس ہمارے ٹویٹر ہینڈل پر موجود ہیں)
ان واقعات کے ذکر کرنے کا مقصدصرف یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہو کہ سوشل میڈیا بالخصوص ٹویٹرکی کیا طاقت ہے اور اسے کس طرح موثر انداز میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔دنیوی مقاصد کے ساتھ ساتھ ہم اسے دینی پیغام کی نشر و اشاعت میں بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ ٹویٹر پر علماء کی ایک ایسی ٹیم ہونی چاہیے جو اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے خاص خاص موقعوں پر ٹرینڈ چلائے اور صحیح پیغامات کو عام کرنے کا ذریعہ بنے ورنہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا منفی استعمال کرنے والوں کی کمی نہیں ہے جو پورے معاشرے میں غلط پیغامات پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔
اللہ تعالی ہم سب کو سوشل میڈیا کو مثبت انداز میں استعمال کرنے اوراس کے ذریعے اسلامی تعلیمات کی نشر واشاعت کی توفیق عطا فرمائے۔
Comments are closed.