یہاں مرض کا سبب ہے غلامی وتقلید

نثاراحمد حصیر القاسمی
شیخ الحدیث معہد البنات بورہ بنڈہ
سکریٹری جنرل اکیڈمی آف ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹیڈیز ۔ حیدرآباد۔
[email protected]
انسان کا مزاج اور اس کی فطرت ہے کہ عام لوگ ایسے لوگوں کی پیروی کرتے ہیں جن کے پاس طاقت ہوتی ہے ، وہ امتیازی شان وحیثیت رکھتے، دوسروں سے فائق وممتاز ہوتے اور کسی بھی ایک گوشے یا شعبہ حیات میں منفرد مقام رکھتے ہیں، عام طور پر ایسے طاقتور وباکمال سمجھے جانے والے انسان کی نہ صرف پیروی ونقالی کی جاتی بلکہ ان سے محبت بھی کی جاتی ہے اور ان کے افکار وخیالات اور باتوں سے لوگ متاثر بھی ہوتے ہیں، ان کی اطاعت کرتے اور باتیں مانتے ہیں اور ان کے مشن کو آگے بڑھانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں، ایسے ہی لوگ ان قائدین ورہنما کے اصل سرمایہ ہوتے ہیں جن کے سہارے ماحول کو خراب بھی کیا جاسکتا اور بہتر بھی بنایا جاسکتاہے۔ اگر یہ مقلدین ومریدین کسی نیک وصالح ‘انسانیت کے علمبردار اور پاک وصاف کردار کے حامل لوگوں کے ہوں تو ان کے ذریعہ سماج وملک کو امن کا گہوارہ بنایا جاسکتا، انسانیت کو فروغ دینے اور معاش ومعاد کو بہتر بنانے اور زندگی کی ڈگر کو سیدھے راستے پر گامزن رکھنے میں مدد ملتی ہے، لیکن اگریہ مقلدین ومریدین کسی ان پڑ ھ چاہل جرائم پیشہ افراد اور انسانیت کے دشمن کے ہوں جن کی زندگی درندگی وبدعملی میں گذری ہو ، شرپسندی وغنڈہ گری وفتنہ وفساد ولاقانونیت ان کا شیوہ رہا ہو تو اس کے ماننے وچاہنے والے سماج وملک کیلئے ناسور اور انسانیت کیلئے کلنک کا ٹیکہ بن جاتے ہیں، کہ ان کو چاہنے والے اسی کردار کے لوگ ہوتے ہیں۔
عام طورپر لوگ ایسے ملکوں اداروں ، جماعتوں وتحریکوں کی یا افراد واشخاص کی پیروی کرنا پسند کرتے ہیں جو امتیازی شان اور منفرد خصوصیات ومقام رکھتے ہیں۔وہ ان کی تہذیب اور کلچر سے متاثر ہوتے اور خواہش کرتے بلکہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ بھی انہی جیسے بن جائیں۔
انسانی تاریخ پر نگاہ ڈالیں توہمیں اندازہ ہوگا کہ عوام الناس کی یہی ریت شروع سے رہی ہے، اور آج بھی ساری دنیا میں ایسا ہی ہے، اور شاید آئندہ بھی ایسا ہی ہو، اسی لئے اللہ کے نبی صلعم نے ارشاد فرمایا ہے جو اسی انسانی مزاج کی عکاسی ہے کہ :
الناس علی دین ملوکھم جیسا راجہ ویسا پرچہ، تقلید بری نہیں اگر بصیرت کے ساتھ ہو ، البتہ اگر تقلید اندھی ہو تو یہ بری ہے۔
دور حاضر میں کمزور وپچھڑے ہوئے ممالک جو ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیںاس کے باشندے ترقی یافتہ مغربی ملکوں کے کلچر اور وہاںکی تہذیب کو اپنانے ان کے عادات واطوار کی نقالی کرنے ان کے طرز عمل وسلوک کی تقلید کرنے ، لباس وپوشاک اور ظاہر وباطن میں ان کا رنگ اختیار کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیںکہ ان کی غذا انہی جیسی ہو، ان کا لباس انہی کی طرح ہو، ان کا حلیہ ان سے مشابہت رکھنے والا ہو، ان کے جوتے چشمے بھی انہی جیسے ہوں، ان کے بولنے کا اسٹائل ، رہنے کی جگہ اور کھانے کے میز اور اس پر چنی ہوئی اشیاء انہی کی پسندیدہ ہو، یعنی ان کے ساتھ رہ کر یا ان کی ضیافت کا شرف حاصل کرکے کوئی یہ محسوس نہ کرے کہ یہ کسی غریب وپچھڑے ہوئے ملک یا مشرق کے باشندہ ہیں، بلکہ لوگ یہ سمجھیںکہ جیسے یہ امریکہ ، برطانیہ ، فرانس اور اٹلی جیسے ملک کے باشندے ہوں۔
اس وقت امریکہ چونکہ دنیا کا سب سے طاقتور ملک اور سوپر پائور ہے، اس لئے انسانی مزاج کے مطابق اس کا کلچر اور اس کی تہذیب ہی اس وقت دنیا میں زیادہ پھیل رہی ہے اور انگریزی زبان جو امریکہ وبرطانیہ جیسے مغربی ملکوںکی سرکاری زبان ہے ، زیادہ عام ہوچکی ہے، یہاں تک کہ دنیا کے بیشتر ملکوں میں یہی تدریس کی زبان بن گئی ہے، اور سارے علمی سبجیکٹ ومواد اسی زبان میں پڑھائے جاتے ہیں، اسی طرح ان خطوں اور ملکوں میں جب اسلامی مملکتیں مضبوط وطاقتور تھیں، خاص طور پر اموی وعباسی دور خلافت میں تو اس وقت ساری دنیا میں اسلامی تہذیب وثقافت کا بول بالا تھا، اسلامی کلچر ہی ہر جگہ پھیلا ہوا تھا، اور ہر خطہ میں اس کا دبدبہ وغلغلہ تھا۔
اس وقت کسی بھی ملک کی طاقت کا معیار فوجی قوت نہیں اگرچہ اس کی بھی اہمیت وبالا دستی اپنی جگہ مسلم ہے، بلکہ اس کا معیار یہ ہے کہ وہ ملک ذرائع ابلاغ ، معاشیات علوم وفنون اور سائنس وٹکنالوجی کے میدان میں کسی قدر کامیاب وترقی یافتہہے۔ یعنی اب کسی بھی ملک کی طاقت کا اندازہ اس کی فوج سے نہیںبلکہ اس کی معاشی ترقی اور سائنسی پیشرفت وعروج سے لگایا جاتا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ کرکٹ کاکھیل ہو یا کوئی دوسرا کھیل اس کا مشاہدہ کرنے والے عوام الناس بعض ٹیم کو چاہتے وپسند کرتے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جو خوب تمغے حاصل کرنے والی اور با صلاحیت ہوتی اور ماہر کھلاڑیوں پرمشتمل ہوتی ہے اس لئے جس ٹیم کے کھلاڑی ماہر وفنکار ہوتے ہیں اسے لوگ چاہتے اور ان کی تائید کرتے ہیں، انہیں عوامی مقبولیت حاصل ہوتی ہے، انفرادی وشخصی کھیلوں میں جیت ، اسے حاصل ہوتی ہے جو طاقتور اور برق رفتاری سے حرکت کرنے والا ہو، اسے شہرت ونیک نامی حاصل ہو، ان کھلاڑیوں یا ایکٹرز کو شہرت بھی حاصل ہوتی ، اور مال ودولت بھی ، انہیں لوگ اپنا آئیڈیل ونمونہ بنا لیتے ہیں، بچے ونوجوان انہیں اپنا ہیرو سمجھتے ، ان کے لئے دعائیں مانگتے اور ان کی دیدار کے متمنی ہوتے ہیں۔
اسی طرح وہ ممتاز ومشہور علماء واعظین وخطباء جو ذرائع ابلاغ پر دکھائی دیتے ہیں، اپنا یوٹیوب چینل کھول رکھا ہے، فیس بک اور دوسرے سماجی رابطے کے وسائل کا بھر پور استعمال کرتے ہیں، انہیں بھی اس دنیا میں شہرت حاصل ہوجاتی ہے، لاکھوں اور کروڑوں لوگ ان کے مداح و فولور ہوتے ہیں، اور جو لوگ انکی راہ پر چلنا چاہتے اس میدان میں قدم آگے بڑھانا چاہتے اور اس گوشے سے کچھ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں یہ واعظین و علماء ان کے لئے مقتدا اور آئیڈیل بن جاتے ہیں، یہ طرز عمل اور یہ طریقہ کار انسانی مزاج ہے، خود دین اسلام کے پھیلائو میں اس کی مثالیں ملتی ہیں، دعوت اسلامی کے آغاز میں اس کے پھیلائو کا تناسب بہت معمولی اور تھوڑا تھا، بہت کم لوگ تھے جنہوں نے اس دعوت کو قبول کیا اور اس کی آواز پر لبیک کہا ، صرف انہی لوگوں نے حق کو قبول کیا اور اس کی اتباع وپیروی کی جو صاحب بصیرت تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیںعقل سلیم عطا کی تھی، اور وہ حق وباطل کے درمیان امتیاز کرنے کا ملکہ رکھتے اور صحیح فہم وفراست کے حامل تھے، رسول اللہ صلعم نے جب اپنی دعوت کی شروعات کی تو اس پر کان دھرنے والے گنے چنے چند افراد تھے جنہیںصحابہ کرام میں اونچا مقام حاصل ہوا اور انہیں سابقین اولین میں شمار کیا گیا، پھر اسی طرح یہ مشن دھیمی رفتار سے آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ مکہ فتح ہوگیا اسکے بعد اس میں تیزی آئی اور لوگ فوج درج فوج اور جوق درجوق اللہ کے اس دین میں داخل ہونے لگے اور اسلام پورے جزیرہ عرب میں پھیل گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا عرب علاقہ اسلام کے آغوش میں آگیا، ان کے علم میں یہ بات آگئی اور انہوںنے مشاہدہ کرلیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیرو کار صحابہ کرم کو مشرکوںکے اوپر فتح درفتح حاصل ہورہی ہے اور خود مکہ والے اسلام کے آغوش میں آچکے ہیں، اس سے انہیں حوصلہ ملا اور انہوںنے رسول صلعم اور آپ کی قوت کو اپنا آئیڈیل بنایا، اور رسول اللہ صلعم کی وفات کے بعد کچھ لوگوں کے اندر تزلزل پیدا ہواجو دیکھا دیکھی ایمان لائے تھے، اور اسلام ابھی ان کے دلوں میں راسخ نہیں ہوپایا تھا، جنہیںرسول اللہ صلعم کی صحبت زیادہ دنوں نصیب نہیں ہوئی تھی، اور نہ ہی ان کی تربیت مکمل ہو پائی تھی، ان میںتھوڑے لوگ دین سے پھر گئے اور اس کی ایک لہر پیدا ہوئی، مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عزم وحوصلہ ، ان کے گرد صحابہ اور عام مسلمانوں کی استقامت وثابت قدمیاور مکہ ومدینہ کے مسلمانوں کی دین اسلام کے لئے جانثاری وسرفروشی کے جذبہ اور لشکر اسلام کی طاقت وقوت اور انکے ولولے نے جزیرئہ عرب کو اس فتنے سے نکالنے اور اسلام سے پھرنے کے خیالات کو فر و کرنے میں اہم رول ادا کیا، صحابہ کرم کے زمانہ اور اس کے بعد ابتدائی ادوار میں مسلمانوں کی قوت ایمانی اور عسکری وفوجی طاقت ہی اسلامی مملکت کی حفاظت اور اس کی سرحدوں کی نگرانی ونگہداشت کی کفیل تھی، اور صحابہ کرام اور دین اسلام کی اس طاقت اور اس کے مضبوط ومتوازن تعلیمات واخلاقیات کی قوت کی وجہ سے لوگ اس دور کے بعد بھی مختلف ادوار میں جوق درجوق دین اسلام میں داخل ہوتے رہے اس کا مطلب ہے کہ حق کیلئے ضروری ہیکہ اس کے پاس طاقت وقوت ہو جو اس کی حفاظت کرسکے۔
آج مسلم ملکوں کی غالب اکثریت پچھڑی ہوئی اور کمزور وناتوا ں ہے، اس کے پاس نہ طاقت وقوت ہے اور نہ ہی موثر ذرائع وابلاغ خود اپنے اس ملک کے اندر مسلمانوں کا تشخص دائو پر لگا ہواہے، حکومت وقت اسلام اور مسلمانوں کیخلاف اور کھڑی ہے اور عداوت ودشمنی پر اتری ہوئی ہے، مسلمانوں کیخلاف نت نئے قوانین بنائے جاتے جارہے اور بت پرستی کی سرپرستی کی جارہی ہے، لو جہاد ہو یا گورکھشا کا قانون، طلاق کا مسئلہ ہو یا تعدد ازدواج ، ہر طرح سے مسلمانوں کو گھیرنے اور ان کے پرسنل لاء کو ختم کرنے اور یکساں سیول کوڈ لانے کی محنت ہورہی ہے، ملک پر حکمرانی کرنے والی جماعت آر ایس ایس چوبیس گھنٹے اس پر تحقیق کررہی اور اپنے ماہرین کو لگائے ہوئی ہے، کہ کس طرح برہمنوا ومنو واد کو مسلط کیا جائے، اور مسلمانوں اور دلتوں کو ان کے مذہب سے ہٹا کر غلام بنا کر کھا جائے،مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں ہوتیں ان کے اسکالروں اور رہنمائوں کو مقدمات میں پھنسایا جاتا اور موب لنچنگ کے ذریعہ انہیں مارا جاتا اور خوفزدہ کیا جاتاہے اور تعلیم سے جڑے نوجوانوں کی تعلیم میں رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیںتاکہ غیر مسلم اسلام میں داخل ہونے کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے، مگر ظالم حکمرانوں اور دشمنان اسلام کی ان ساری تدبیروں کے باوجود آج بھی اسلام پھیل رہا ہے، اس ملک میں بھی اورساری دنیا میں بھی لوگ کھلے عام نہیں تو چھپ کر اس دین کو قبول کررہے ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے پاس ٹینک ومیزائل اور ترقی یافتہ ٹکنالوجی وہتھیاروں کی طاقت تو نہیں مگر اسکے پاس ایمان وعقیدے کی طاقت ضرور ہے اس کے پاس مضبوط ومستحکم تعلیمات کی طاقت ہے۔ حسن اخلاق وکردار کی طاقت ہے، اور معاملات اور ہر ایک کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کے رہنما ہدایات ہیں، اگرچہ خود بہت سے مسلمانوںکا عمل اس کے خلاف اور معاملہ گندہ ہے، جو بسا اوقات اشاعت دین میں رکاوٹ کا سبب بنتا ہے، اس میں شبہ نہیں کہ عہد اول سے آج تک ہر زمانہ میں اسلام کے پھیلنے کے جتنے اسباب ہیں ان میں سب سے اہم سبب عقیدہ وایمان کی قوت اور حسن اخلاق کی طاقت ہے، تاریخ پر اگر ہم نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ اسلامی لشکر جن خطوں کو فتح کرتے اور مسلمان جن علاقوں میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوتے وہ لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتے مگر لوگ خودبخود ان کے اخلاق وکردار اور معاملات کو دیکھ کر اسلام قبول کرلیتے تھے پور ا انڈونیشیا چند مسلمان تاجروں کے حسن معاملات کو دیکھ کر مسلمان ہوگیا، سارے افریقی ممالک مسلمانوں کے حسن اخلاق اور عقیدہ وایمان کی پختگی سے متاثر ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے،
ہمیں چاہیے کہ ہم بھی امتیاز وبرتری اورطاقت وقوت کے جو اسباب ہیں اسے اختیار کریں۔ ہمارے پاس اگر طاقت ہوگی خواہ ایمان وعقیدہ کی ہو ، حسن اخلاق کی یا معاملات کی صفائی کی یا عہدوپیمان کی پاسداری کی یا علم وہنر کی یا سائنس وٹکنالوجی کی یا فوج وانٹلیجنس کی یا ذرائع ابلاغ کی تو لوگ ہماری پیروی کریںگے۔ ہماری بات مانیںگے، اور اس راہ سے ہم نہ صرف اپنے دین وایمان اور تشخص کی حفاظت کرسکیںگے بلکہ دوسروں کو بھی جہنم کا ایندھن بننے سے بچائیںگے اور انہیںبھی دین حق کا سپاہی بنانے میںکامیاب ہوںگے۔
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق ومغرب میںتیرے دور کا آغاز ہے
Comments are closed.