یہ کیا حال کردیا میرے بھارت کا ؟

احساس نایاب
( ایڈیٹر گوشہء خواتین بصیرت آن لائن، شیموگہ، کرناٹک )
پانی دنیا کی عظیم نعمت ہے جس پہ ہر جاندار کا برابر کا حق ہے جو اللہ سبحانہ و تعالی کی طرف سے ہر ایک کے لئے برابر برسایا جاتا ہے اور برستے ہوئے یہ کبھی نہیں دیکھتا کہ یہ ہندو ہے یا مسلمان، سکھ ہے یا عیسائی, امیر ہے یا غریب , گنہکار ہے یا نیک؛ بلکہ پانی انسانوں کے علاوہ ہر جاندار کے حق میں آب حیات کے مانند ہے ۔۔۔
یہ وہی پانی ہے جسے ثواب کی نیت سے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں اور پرندوں کو بھی پلایا جاتا ہے؛ لیکن افسوس چند کم ظرف اونچی ذات کہلائے جانے والوں نے، انسانوں کے بھیس میں چھپے درندوں نے پانی کو بھی مذہب کا رنگ دے کر پانی کے نام پہ صدیوں سے انسانوں کا لہو بہایا ہے ,دلت طبقے کو چھوٹی ذات کا طعنہ دیتے ہوئے اُن کے ساتھ بھید بھاؤ کیا گیا, ان پہ طرح طرح کے ظلم ڈھائے گئے اور اُن سے اُن کے حقوق چھینے گئے ۔۔۔ کہنے کو تو انہیں بھی ہندو ہی کہا جاتا ہے؛ لیکن صرف نام کے ہندو، مندروں مین آج بھی اُن کے لئے داخلہ ممنوع ہے، پیاس کی شدت برداشت نہ کرتے ہوئے اگر بھول سے بھی کوئی دلت بچہ خاتون یا بزرگ گاؤں کے کنویں یا تالاب کے قریب سے بھی گذر جائے تو انہں جانوروں کی طرح زدوکوب کیا جاتا ہے اور آج یوگی کے جنگل راج اترپردیش میں اسی طرح کا ایک معاملہ مسلم بچے کے ساتھ بھی پیش آیا ہے ۔۔۔۔۔اترپردیش کے غازی آباد میں شرینی نندن یادو نامی شخص نے داسان دیوی مندر میں پانی پینے گئے ایک مسلم بچے کو بےرحمی سے مارا، اتنا ہی نہیں اس درندے نے مارتے ہوئے ویڈیو بھی بنائی ہے جس میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح یادو نامی اس درندے نے پہلے تو بچے سے اُس کا نام پوچھا، بچے نے معصوم مسکراہٹ کے ساتھ اپنا نام آصف بتایا اور اپنے والد کا نام حبیب بتایا، نام سنتے ہی یادو کے اندر کا سنگھی شیطان جاگ گیا اور اس وحشی درندے نے اُس معصوم بچے یعنی آصف کو لات گھونسوں سے مارنا شروع کردیا، بچے کا ہاتھ مروڑتے ہوئے بچے کو زمین پہ گراکر جسم کے مخصوص حصے پہ لاتیں ماری اور بچے کی ٹانگ کو اپنے پیروں تلے کچلتے ہوئے نظر آیا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پہ خوب وائرل ہورہی ہے جسے دیکھنے کے بعد کئی سماجی کارکن غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں ۔۔۔۔
فی الحال غازی آباد پولس نے اس واقعہ کے سلسلے میں یادو کو گرفتار کرکے اس کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے، پولس کے مطابق یادو بہار کے بھاگل پور کا رہائشی ہے، سننے میں یہ بھی آرہا ہے کہ اس سے پہلے بھی یادو نے اسی طرح ایک اور بچے کے ساتھ مار پیٹ کی تھی ۔۔۔۔۔
سمجھ نہیں آتا یوریشیا سے آئے ان یونانی ڈی این اے والوں نے آخر یہ کیا حال کردیا ہے میرے بھارت کا…
2014 سے پہلے ہمارا بھارت ایسا تو ہرگز نہیں تھا، ارے ہمارے نزدیک تو کبھی مندر مسجد کا بھید ہی نہیں تھا؛ بلکہ دونوں عبادت گاہیں قابل احترام ہوا کرتی تھیں.
جہاں ہم دیوالی کی مٹھائی کھاتے وہیں ہندو بھائی بہنوں کو عید کی سویاں عزیز تھیں، جہاں ہولی کے رنگوں میں ایک دوسرے کے لئے محبت تھی آج وہیں ہولی کے رنگوں میں چھپے خوفناک چہروں پہ ہوس کا ڈیرا ہے، جو نہ ماں کو ماں سمجھتا ہے نہ بہن کو بہن، نہ ہی ان میں انسانیت باقی ہے , اُس پیار بھائی چارے کو ناجانے کس کی نظر لگ گئی …
اگر ہم اپنی ہی بات کریں تو ہمارا سارا بچپن مندر کے آنگن ہی میں گزرا ہے، آج بھی ہمیں یاد ہے کہ کس طرح سارا سارا دن ہم سہیلیاں مندر میں کھیلا کرتی تھیں اور تھک کر مندر میں لگے پیپل کے پیڑ کے نیچے سستانے بیٹھ جاتیں، اُس وقت نہ کوئی ہندو تھا نہ مسلمان؛ بلکہ ہم لوگ صرف معصوم بچے تھے انسان تھے، کبھی کسی نے نہ ہم سے ہمارا مذہب پوچھا تھا نہ ہی مندر میں کھیلنے پہ اعتراض جتایا تھا؛ بلکہ ہم تو مندر کے پجاری کو انکل کہہ کر اُن سے لاڈ کرتے اور جب مندر میں پرساد بانٹا جاتا تو پجاری انکل ہمیشہ ہمارے حصہ کا پرساد رکھ کر ہمیں کھلایا کرتے تھے اور ہمارے آنے پہ خوشی کا اظہار کرتے، آج بھی وہ معصوم سہانے دن یاد ہیں ہمیں، کچھ نہیں بھولے ہم، نہ پجاری انکل کو نہ ہی ہماری پیاری سہیلی پورنیما کو جو اکثر ہمارے ساتھ ہمارے گھر جائےنماز بچھاکر نماز پڑھتی، ہمارے ساتھ ساتھ قرآن کی آیتیں دہراتی، رمضان کے روزے رکھتی اور ماہ رمضان میں مسجد میں افطار کے وقت تقسیم کی جانے والی آش یعنی گنجی اور میوے کھانے کے لئے اصرار کرکے ہمیں ساتھ لے جاتی، کتنے پیارے تھے بچپن کے وہ دن نہ لالچ نہ مطلب بس بنداس ہر ڈر خوف سے بےپروا، ہماری صبح تو اذان کے ساتھ مندر مین بجنے والے گائتری منتر کے ساتھ شروع ہوتی تھی، سوچتے ہیں تو آج بھی آنکھیں نم اور لبوں پہ مسکراہٹ آجاتی ہے جب ہم اپنی تتلی زبان سے گائتری منتر دہراتے تھے، یقین جانیں ہمیں تو پورا منتر زبانی یاد ہوگیا تھا اور زندگی کے اس موڑ پہ پہنچ کر آج بھی ہمیں اُس کا ایک ایک لفظ یاد ہے ۔۔۔۔۔
” اوم بھور بھووت سواہا
تتساوِتور ورینئیم
بھرگودیوسیہ دی مہی
دیو یونا پراچودیا ” ۔۔۔۔
اُس دور اور اس دور میں فرق بس اتنا سا ہے کہ آج ہماری زبان نہیں تتلاتی؛ بلکہ آج انسانوں کی سوچ تتلی ہوچکی ہے اس کمینی سنگھی نفرت نے تعصب کا ایسا زہر گھول دیا ہے کہ آج کا انسان ذہنی اپاہج بن چکا ہے، انسان کم جانور زیادہ ہوچکا ہے…. ورنہ میرا بھارت کبھی ایسا نہ تھا …….
میرا بھارت تو پیار محبت بھائی چارگی و عقیدتوں کا گہوارہ تھا، وہ منظر شاید آپ سبھی لوگوں نے بھی دیکھے ہوں گے، جب ہماری ہندو ماں بہنیں اپنی گود میں بیمار بچوں کو لئے مسجدوں کے آگے اپنے نمازی بھائیوں کی دعاؤں کی منتظر کھڑی رہتی تھیں اور نمازی بھائی نماز سے فارغ ہوتے ہی اپنی اُن بہنوں کے بیمار بچوں کو اپنی گود میں لئے خوب دعائیں دیتے، اُن پہ پھونک مارتے اور یہ اُن بھائی بہنوں کی محبت اور عقیدت ہی تھی کہ بیمار بچہ ایک پھونک کے ساتھ شفایاب ہوجاتا ….؛ لیکن آج یوریشیا والوں نے ہمارے ملک کی ایکتا اکھنڈتا کو ہائی جیک کررکھا ہے ۔۔۔۔۔
آج جو بھی ہمیں پڑھ رہے ہیں ہماری اپنے اُن تمام ہندو بھائی بہنوں سے گذارش ہے کہ ان مفاد پرست سیاستدانوں کی باتوں میں، ان کے بہکاوے میں ہرگز نہ آئیں، یہ ہماری اور آپ کی چتاؤں پہ اپنی سیاسی روٹیاں سیک رہے ہیں، 5 سالہ کرسی کی لالچ میں مندر مسجد کو مدعی بناکر ہندو مسلمان کو آپس میں لڑوا رہے ہیں
جبکہ انہیں نہ مندر سے مطلب ہے نہ ہی مسجد سے، ان کا نہ دھرم ہے نہ ایمان، یہ تو بھوکے ہیں محض ستا کے، یہ پجاری ہیں نفرت کے، یہ سوداگر ہیں انسانی جانوں کے؛ بلکہ یہ تو نربھکشک ہیں نربھکشک ،،،،، اور ان نربھکشکوں سے ہم اور آپ کو مل کر اپنے پیارے بھارت کو بچانا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments are closed.