وسیم رضوی کے مخالفین سے درد مندانہ اپیل !

محمد احمد
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قرآن کےایک نقطہ کے منکر کیلئے بھی اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے اور نہ ہی اسلام اور مسلمانوں کو اس سے یا اس کو اسلام اور مسلمانوں سے کسی طرح کا کوئی سروکار ہونا چاہئے ۔ جس طرح وسیم رضوی نے عدالت عظمیٰ میں قرآن حکیم کے خلاف عرضی داخل کرکے اپنے وجود کو بچانے کیلئے جو کچھ کیا ہے اس سے زیادہ کی ان سے توقع اس لئے نہیں کی جاسکتی کیونکہ ان کے خلاف سی بی آئی میں معاملہ چل رہا ہے اور وقف کی زمینوں میں خرد برد کا ان پر کافی شدید الزام ہے ۔ایسے میں وسیم رضوی سے کوئی اس سے زیادہ کی توقع کرتا ہے تو وہ خود ذہنی طور پر اس لئے معذور سمجھا جائے گا ،کیونکہ گذشتہ چند سالوں میں محب اعظم خان وسیم رضوی کے لہجہ میں جس طرح کی تبدیلی آئی ہے اس سے زمانہ واقف ہے۔ وہ کئی بار مودی سرکار کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے مودی سرکار کیخلاف ہی بیان بازی کرتے رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر وقت کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے پارلیمنٹ میں ایک موقع پر واضح کیا تھا کہ بھارت کے مسلمانوں کا آتنک واد سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور بھارت کے مسلمانوں کا آئی ایس آئی ایس سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اسی طرح لال کرشن اڈوانی نے بھی بھارت کے مسلمانوں کی آتنک واد میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔ اس کے باوجووسیم رضوی نے سرکار سے مدرسوں کو بند کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ یہ آئی ایس آئی ایس کے اڈے ہیں ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رضوی نے ایسا اس وقت کیوں کیا؟ بہ ظاہر جس طرح کا وطن عزیزمیں فرقہ پرستوں نے ماحول بنا رکھ ہے اور جس طرح سے ہندو مسلم کے مابین لڑائی کروا رہے ہیں اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرنے سے فرقہ پرستوں کو نقصان فائدہ ہوگااور وہ پانچ ریاستوں میں ہورہے اسمبلی انتخابات میں اپنے ووٹروں کو یہ سمجھانے کی پوری کوشش کریں کہ دیکھو مسلمان( گرچہ ہم اور آپ اس کو دین سے پھرا ہو یعنی ادھرمی سمجھ رہے ہیں ) ہی قرآن کو آتنک واد کا پرچار ک مانتے ہیں اور وہ یہ تسلیم کرتے ہیں قرآن میں ایسی چیزیں ہیں جو آتنک واد کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ اس لئے اب اگر سب لوگ ایک مخصوص فرقہ کیخلاف لام بند نہیں ہوئے تو یہ جینے نہیں دیں گے۔
یہ کتنا بھونڈا مذاق ہے کہ پچاسی فیصد کی آبادی سے کہا جارہا ہےکہ 15فیصد آبادی سے تم کو خطرہ ہے۔ اس لئے تمہیں ایک مخصوص پارٹی کیلئے لام بند ہونا ہے۔ بڑی اچھی بات علامہ اقبال نے کہی ہے کہ’ قوت فکر وعمل پہلے فنا ہوتی ہے- تب کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے‘ اور اسی کو اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ’ جب ناش منج پر چھاتا ہے- پہلے وویک مرجاتاہے‘۔ مطلب صاف ہے کہ جب بھی کسی قوم یا فرد کو اللہ تباہ کرنا چاہتا ہے تو پہلے اس سے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت اسی طرح سلب کرلیتا ہے جیسے جب کسی کے ساتھ خیر اور بھلائی کا ارادہ رب لم یزل کا ہوتا ہے تو وہ اس کو دین کی سمجھ دے دیتا ہے ۔
وسیم رضوی نے اپنی بصیرت کے مطابق وہ کام کیا جو بہر حال ایسا انسان جو ادھرمی بھی ہوگا نہیں کرے گا ۔ اب آپ فیصلہ خود کریں کہ وسیم رضوی کا تعلق کس ذات اور برادری سے ہے،جبکہ خود شیعہ سماج کے لوگوں نے ان پر لعن طعن کیا ہے ۔ شیعہ سماج کی طرف سے کہا گیا کہ یہ وسیم رضوی کی طرف سے خود کے مردود ہونے کا اعلان ہے اور یہاں تک اعلان کردیا گیا کہ ان کو اپنی قبرستانوں میں دفن ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی، لیکن رضوی نے جو کچھ کیا اور کہا ہے اس کی تشہیر کوئی اور نہیں بلکہ وہی لوگ کررہے ہیں جن کیخلاف یہ بات کی اور کہی گئی ہے۔ اس لئے قرآن کے ماننے والے یا اس سے محبت کرنے والوں کو اس کی تشہیر یا دنیاوی لعن طعن سے اوپر اٹھ کرکے کوئی ایسا لائحہ عمل طے کرنا چاہئے جو قرآن ہم سے چاہتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن ہم سے کیا چاہتاہے؟ تو اس کا جواب بہت صاف ہے کہ ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہ ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوریت میں انسان کوبولنے کی اس وقت تک آزادی ہے جب تک کہ کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہونچے یا آئین ہند میں اس کو دیئے گئے تحفظات کو آنچ نہ آئے۔ جس وقت ایسا ہونے لگے تو وہیں اس کی بولنے کی آزادی ختم ہوجاتی ہے اور آئین اور قانون کا شکنجہ اس کی گرد ن تک پہونچ جاتا ہے اوراگر نہیں پہونچتا ہے تو پہونچا چاہئے کیونکہ اصلی غدار وطن یہی لوگ ہیں ۔
اس لئے قرآن حکیم کا اس سے بھی ایک قدم آگے واضح پیغام ہے کہ ’ برائی کا بدلہ بھلائی سے دو ۔اگر تم ایسا کرو گے تو تمہارا مخالف تمہارا جگری دوست بن جائے گا‘۔ یہ وقت ہے ان لوگوں کو قرآن کی تعلیمات پہونچانے کا جن تک ابھی تک قرآن کی تعلیمات نہیں پہونچ سکی ہیں اور اس شر میں اپنے لئے خیر ڈھونڈھنے کا اس سے بہتر کوئی اور وقت نہیں ہوسکتا ہے ، لیکن اس کے باوجود ایک آدمی یہ سوال کرسکتا ہے کہ صاحب ہم کیسے صبر کریں؟ اس نے تو اللہ کے کلام کی توہین کی ہے ۔تو اس کیلئے واضح جواب ابرہہ کے واقعہ میں موجود ہے ۔ ابرہہ نے اللہ کے گھر کو منہدم کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت ابو طالب نے اپنے اونٹوں کی فکر کی اور کہا کہ ہمیں ہمارا اونٹ دے دو جس کا گھر ہے وہی اس کی حفاظت کرے گا۔ اگر کوئی اس دلیل کو نہ معنی تو اس کیلئے اس سے بہتر دلیل میرے خیال میں کچھ اور نہیں ہوسکتی کہ ہر ملک کا ایک ضابطہ ہوتا ہے۔ ہمارے بھارت کا بھی ایک ضابطہ ہے۔ جیسے اگر کوئی چوری کرتا ہے تو اسلامی قانون کے حساب سے قاضی کی عدالت جرم ثابت ہونے کے بعد ہاتھ کاٹنے کی سزا کا حکم صادر کرتی ہے ۔کیا اسلامی ریاست میں کسی شہری کو اپنے ہاتھ میں قانون لینے کی گنجائش ہے؟کیا کبھی صحابہ نے قانون اپنے ہاتھ میں لیا؟نہیں نہ۔اسی طرح ہمارے بھارت کا بھی ایسا ہی نظام ہے۔ یہاں پولس ہے ،کورٹ ہے، سزا دینے یا مقدمہ کرنے کا ایک پروسیس ہے اور آدمی کو اسی پروسیس سے ہی آگے جانا چاہئے اور صبر کا دامن کبھی بھی ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئے ۔
اگر آپ فیس بک پر کسی کو بد دعا دے رہے ہیں تو گویا آپ اس کی اور مدد کررہے ہیں ۔ وہ جو چاہتا ہے آپ اس کے مشن میں انجانے میں ہی صحیح اس کے معاون بن رہے ہیں ۔ اس لئے اگر آ پ کو اپنے رب سے کچھ کہنا ہے تو آپ کے رب کا ہی حکم ہے کہ اپنے رب کو رو رو کر اور گڑگڑا گڑگڑا کر پکارو، چپکے چپکے پکارو۔ بات اس سے کہو جو قرآن کا محافظ ہے۔ اور دنیا وی اعتبار سے کچھ کرنا ہے تو اس کیلئے عدالت پولس اور پورا بھارت کا نظام عدل موجود ہے ۔ آپ انجانے میں وسیم رضوی کا پرچار بالکل نہ کریں ۔ فیس بک اور واٹس اپ پر کوئی بد دعانہ دیں بلکہ دین اور دنیا کے نظام عدل پر بھروسہ کریں ۔اور یہ سب تبھی ممکن ہوگا جب آپ کی تربیت کسی ایسے شیخ کامل کے زیر سایہ ہوئی ہو جس کو دیکھ کرکے اس کی یاد آئے جو قرآن کا اصلی اور حقیقی محافظ ہے۔ اس لئے وقت برباد کرنے کے بجائے ایسے اولیا اللہ کی تلاش کریں جن کو دیکھ کرکے اللہ یاد آتا ہے ۔ وقت کی زکاۃ نکالیں ۔ ان کی محفلوں سے فیض یاب ہوں ۔ دنیا کیساتھ ساتھ آخرت کا سامان بھی اکٹھا کریں ۔ جذبات ، گالی گلوچ، نعرے بازے اور ایک دوسرے کولعن طعن کرنے سے کچھ نہیں ہونے والا ہے۔ یاد رکھیں !اہر دور کا ایک تقاضا ہوتا ہے اور اس دور کے بھی کچھ تقاضے ہیں ۔اگر کوئی آپ کو نفرت کی بات سکھاتا ہے یا آپ کے جذبات سے کھیلتا ہے ۔ یا ایسی تحریر لکھتا ہے جس سے تشدد یا بغض و حسد کی بو آتی ہے تو وہ نہ آپ کا دوست ہوسکتا ہے نہ آپ کے وطن کا محافظ ۔اس سے ہوشیار رہیں !
(مضمون نگار وطن سماچار کے فاؤنڈر ایڈیٹر اور آل انڈیاقومی تنظیم کے جنرل سکریٹری آرگنائزیشن ہیں )
Comments are closed.