ہر ایک سمت سے آئی ہوئی مصیبت ہے

سلیم  شوق پورنوی

 

ہر ایک سمت سے آئی ہوئی مصیبت ہے

میں صاف گو ہوں،مری بس یہی مصیبت ہے

 

یہ شہر شہرِ ریا ہے یہاں کے لوگوں سے

خلوص ، پیار سے ملنا بڑی مصیبت ہے

 

جلارہی ہے مسلسل مجھے شعور کی آگ

کھلا ہے مجھ پہ کہ یہ آگہی مصیبت ہے

 

ہمیں پتا ہے تری چپ کے سو معانی ہیں

ہمارے حق میں مگر خاموشی مصیبت ہے

 

یہ ہجر کھاتا چلا جارہا ہے صحت کو

ترے بغیر مری زندگی مصیبیت ہے

 

وبال جان ہے شہرت بغیر دولت کے

مرے لیے مری کم مائگی مصیبت ہے

 

یہ حسن وسن فقط جال ہے ہلاکت کا

یہ عشق وشق میاں واقعی محبت ہے

 

میں شوق کس کو بتاؤں یہ اپنی مجبوری

مرے لئے جو مری روشنی مصیبت ہے

 

Comments are closed.